قلندرِ لاہوری، درویش لاہوری، رسول اللہﷺ کے عاشق و صادق، شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت2022

تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے) 2022؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
قلندرِ لاہوری، درویش لاہوری، رسول اللہﷺ کے عاشق و صادق، شاعر مشرق، مفکر پاکستان، حکیم الامت
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
ڈاکٹر اقبال کے آباؤاجداد کشمیر سے آکر سیالکوٹ (محلہ کھیتیاں)میں آباد ہوگئے تھے جو سپرگوت کے برہمن آج سے ڈھائی سو سال پہلے مسلمان ہوگئے تھے۔ ڈاکٹر محمد اقبال اسی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ ڈاکٹر اقبال کے والد شیخ نور محمد بڑے نیک اور اللہ والے بزرگ تھے۔ سیالکوٹ میں ان کا چھوٹا سا کاروبار تھا، وہ سارے شہر میں نیکی اور پرہیزگاری کی وجہ سے ہردلعزیز تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے، عطا محمد اور محمد اقبال، یہی اقبال ہیں جو آگے چل کر ایشیا کے سب سے بڑے شاعر مانے گئے۔ اقبال کے افکار و نظریات کی پختگی میں اسلامی تعلیمات کا بہت اہم رول رہا ہے۔ بچپن سے ہی اقبال کو جو دینی ماحول ملا اس کا اثر تاحیات ان پر رہا۔ جن مغربی فلسفیوں کے اثرات اقبال نے قبول کیے ان کو بھی آپ نے اپنے شرائط کے ساتھ قبول کیا اور دین و مذہب سے کچھ سمجھوتا نہیں کیا۔ وہ فلسفہ کو مضر نہیں سمجھتے تھے لیکن اس میں بھی ایک خاص حد سے آگے نہیں نکلتے تھے۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔
اقبال 9نومبر1877؁ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ شیخ نور محمد نے اپنے بچوں کو اردو، فارسی اور انگریزی تعلیم دلوائی۔ شیخ عطا محمد جو اپنے چھوٹے بھائی (اقبال) سے چودہ برس بڑے تھے، انجینئر بن گئے اور اقبال مشن اسکول میں تعلیم پاکرکالج میں داخل ہوگئے۔ شیخ نورمحمد کے دوستوں میں مولوی میرحسن نامی بہت بڑے عالم تھے جو مشن اسکول میں عربی پڑھایا کرتے تھے۔ ان کے پڑھانے میں ایک خاص بات یہ تھی کہ جو کچھ بتادیتے تھے وہ بات دلوں پر نقش ہوجایاکرتی تھی۔ اقبال ابھی سکول میں ہی پڑھتے تھے کہ ان کی طبیعت کے اصلی جوہر چمکنے لگے اور انہوں نے شاعری کی طرف توجہ دی۔ مولانا روم کے اشعار اقبال کو نہایت پسند تھے۔ آپ نے اس زمانے میں اپنے کلام کو حضرت داغ کو بغرض اصلاح بھیجنا شروع کردیا۔ داغ ڈاک کے ذریعے سے آپ کے کلام کی اصلاح کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ پرائمری، مڈل اور انٹرنس کے امتحانوں میں آپ نے نمایاں کامیابی حاصل کی بلکہ وظائف بھی ملنے لگے۔ جب سیالکوٹ میں کالج بن گیا تو اس میں داخل ہوگئے۔ مولوی میرحسن سے عربی اور فارسی پڑھتے تھے۔ محنت کرکے آپ نے عربی اور فارسی میں خاصی لیاقت پیدا کرلی۔ سیالکوٹ میں ایف اے کا امتحان پاس کرکے سلسلہ تعلیم کو جاری رکھنے کیلئے لاہور پہنچے اور گورنمنٹ کالج میں داخل ہوگئے۔ اس کالج میں آرنلڈ نامی ایک لائق اور ہمدرد پروفیسر تھے جو اقبال سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آیاکرتے تھے۔ لاہور میں مشاعرے بھی ہوتے تھے جن میں اس زمانے کے مشہور شعراء اپنا کلام سناتے تھے۔ اقبال بھی ان محفلوں میں جانے اور اپنا کلام سنانے لگے۔ اقبال نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا لیکن اقبال کی نظموں کی تعداد غزلوں سے زیادہ ہے۔ اقبال نے سب سے پہلے ارشد گرگانوی اور اس کے بعد نواز مرزا داغ سے اصلاح لی تھی۔ بانگ درا اقبال کا پہلا اردو شعری مجموعہ ہے اوربال جبریل دوسرا شعری مجموعہ ہے جو کہ بہت مشہور ہیں۔
علامہ اقبال صرف خالقِ پاکستان ہی نہ تھے بلکہ وہ ایک سچے عاشقِ رسول بھی تھے اور ان کو متعدد بار نبی اکرمﷺ کی زیارت بھی ہوئی۔ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے کبھی بے وضو نبی اکرمﷺ کا نام نہیں لیا تھا۔ غازی علم الدین شہیدؒ کے جنازے میں بھی شامل ہوئے اور انگریز حکمت کو اپنی ضمانت دے کر غازی علم الدین شہیدؒ کی وصیت بھی پوری کی۔ اُن کی وصیت کے مطابق اُن کو لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں دفن کروایا۔
اقبال بی اے میں کامیاب ہوئے۔ عربی اور انگریزی میں اول آنے پر انہیں سونے کے دو تمغے بھی ملے۔ بی اے کے بعد آپ نے ایم اے کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور ایک سونے کا تمغہ انعام میں ملا۔ 1905؁ء میں اقبال یورپ روانہ ہوگئے۔ انگلستان پہنچ کر کیمرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ کیمرج میں فلسفہ کا امتحان پاس کرکے آپ نے ایران کے فلسفہ کے متعلق ایک کتاب لکھی جس پر جرمنی کی یونیورسٹی نے آپ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ جرمنی سے واپس آکر آپ نے لندن میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ اقبال نے یورپ پہنچ کر ایک ایسی دنیا دیکھی جو ان کیلئے بالکل نئی تھی۔ یورپ والوں کی تہذیب میں ان کو خوبیاں بھی نظر آئیں اور برائیاں بھی۔ ان کی ظاہری شکل تو آنکھوں کو چکاچوند کردیتی تھی مگر جب شاعر نے ٹٹولا تو اندر سے کھوکھلا پایا۔ ان کے دل پر بڑی چوٹ لگی۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرہنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
ولایت سے واپس آکر انہوں نے اردو میں بہت سی نظمیں لکھیں، اب فارسی کی طرف ان کی زیادہ توجہ ہوگئی تھی۔ کچھ عرصہ تک انہوں نے اردو میں شعر کہنا ہی چھوڑ دیا تھا لیکن زندگی کے آخری سالوں میں پھر کہیں اردو کی طرف توجہ دی۔ اردو چھوڑ کر فارسی میں شعر کہنے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تو فارسی زبان شاعری کیلئے بہت موزوں ہے اور دوسرا اب اقبال کی شاعری کا رنگ بدل گیا تھا، وہ کہتے تھے کہ صرف ہندوستان کیلئے نہیں بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کیلئے شعر کہتا ہوں اور فارسی کے سوا کوئی زبان ایسی نہیں جس کے ذریعے اپنے خیالات دوسرے ممالک کے مسلمانوں تک پہنچائے جاسکتے ہوں۔ جب اقبال لاہور تشریف لائے تو صرف شیخ اقبال تھے جب ولایت سے واپس آئے تو ڈاکٹر اقبال کہلانے لگے۔ حکومت ہند نے ان کو ”سر“ کا خطاب دیا تو آپ نے استاد مولوی میر حسن کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دلوایا لیکن قوم میں وہ علامہ اقبال کے نام سے موسوم ہوگئے۔ باوجود ان تمام خطابات کے وہ ایک سیدھے سادھے اور درویش انسان تھے، انہوں نے خود اپنے آپ کو اکثر شعروں میں فقیر اور درویش کہا ہے اور اس پر فخر بھی کیا ہے۔
1935؁ء میں اقبال کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا جس کا اُن کے دل پر بہت برا اثر ہوا اور کچھ عرصہ سے گردے کے درد کا بھی مرض تھااور قلب بھی بہت کمزور ہوگیا تھا۔ 1937؁ء میں طبیعت زیادہ بگڑنے لگی۔ آپ کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد نے آپ کی بگڑی ہوئی حالت دیکھ کر دوچار کلمات تسلی کے کہے مگر علامہ اقبال کہنے لگے کہ بھائی میں مسلمان ہوں موت سے نہیں ڈرتا۔ آخر کار علامہ اقبال 21 اپریل 1938؁ ء کو رحلت فرماگئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 65 سال کے قریب تھی۔ اقبال کی وفات کی خبر لاہور میں آگ کی طرح پھیل گئی، بازار بند ہوگئے اور لوگ جاوید منزل کی طرف جانے لگے۔ شام کو جنازہ اُٹھا اور بادشاہی مسجد کے میناروں کے سائے میں ان کی میت کو دفن کیا گیا۔ جنازے کے ساتھ کوئی پچاس ہزار سے بھی زائد لوگ شامل تھے۔ آپ کے انتقال پر ہندوستان بھر کے شہروں اور قصبوں میں جگہ جگہ جلسے ہوئے۔ عام دنوں میں بھی لوگ ان کے مزار پر فاتحہ خوانی کیلئے جاتے ہیں مگر خاص مواقع مثلاً یوم اقبال پر بہت زیادہ لوگ حاضری کیلئے جاتے ہیں اور اسی دن وہاں پر مسلح افواج کی تبدیلی ہوتی ہے۔ یوم اقبال کے موقع پر ملک کے سربراہان کی طرف سے بھی ان کے مزار پر پھول چڑھائے جاتے ہیں اور بے شمار علمی اور ادبی اداروں اور انجمنوں کی طرف سے بھی چادریں چڑھائی جاتی ہیں اور فاتحہ خوانی کی جاتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اقبال کی شاعری سے سوئے ہوئے دلوں کو جگانے والا، مایوسیوں کی ہمت بندھانے والا، اسلام کا سچا عاشق اور ملت کا سوگوار ہم میں نہیں رہا لیکن اس نے ہمارے دلوں کو یقین اور تنظیم کے جس نور سے جگمگایا تھا اس کی روشنی شک اور مایوسی کی تاریکی میں ہمیں صراط مستقیم دکھاتی رہے گی۔ ساز خاموش ہوگیا مگر کرۂ ارض اور اس کی فضا اس کے نغموں سے قیامت تک گونجتی رہے گی۔ ہمیں چاہیے کہ علامہ اقبال کے کلام کو ہر روز پڑھیں اور سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔ زندہ قومیں اپنے اکابرین کی یادوں کو کبھی فراموش نہیں کیا کرتیں۔ علامہ اقبال ہماری قوم کا سب سے بڑا فکری سرمایہ ہیں اور اس مملکتِ خدا کا ہرشہری، ہر مزدور، ہر طالبعلم اور ہر شعبہ زندگی کے اعتبار سے ان کا ہمیشہ مرہون منت رہے گا کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ، آزاد اور خود مختار ملک کا تصور پیش کیا۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے