عید سعید۔۔۔!
مسلمانوں کے اجتماعی تشکر کا دن
شیخ محمد انور
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
آج سے چودہ سو سال پہلے اللہ ربْ العزت نے سسکتی اور دم توڑتی انسانیت کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا فرمایا جس کی کرنیں دنیا کے کونے کونے تک پھیل گئیں۔ اس عالمگیر مذہب نے جہاں لوگوں کو رشد و ہدایت، عجزو انکساری، انسانیت، شرافت اور ایثار و قربانی کا درس دیا، ساتھ ہی مسرتوں کے پیغام سے بھی روشناس کیا۔ ماہِ رمضان المبارک اللہ ربْ العزت کی برکتوں، رحمتوں، نعمتوں اور نوازشوں کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں مسلمان صبرو تحمل، ایثار، قربانی اور جذبہ اطاعت کا انمول مظاہرہ کرتے ہیں۔ عید الفطر مسلمانوں کا عظیم الشان تہوار ہے، درحقیقت یہ اللہ ربْ العزت کی برکتوں اور رحمتوں کے شکریہ کی ادائیگی کا ایک انمول موقعہ ہے۔ ماہِ رمضان میں مسلمان روزے رکھتے ہیں اور روح کی پاکیزگی اور تزکیہ نفس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مہینے بھر کی بھوک، پیاس اور عبادات کی پابندی کے بعد مسلمان خدا کے حضور سجدہ شکر ادا کرتے ہیں۔ عید اس امر کا جشن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمت اور استطاعت عطا فرمائی جس سے ہم نے اللہ ربْ العزت کے احکامات کی تکمیل کی۔ دنیا میں پہلی عید ہجرت کے بعد مدینہ کی سر زمین میں حضورﷺ کی زیر نگرانی منائی گئی۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ روزہ پورا کرنے والوں پر شب قدر میں جبرائیل امینؑ فرشتوں کے ایک گروہ کیساتھ اْتر کر درود و سلام بھیجتے ہیں۔ جنہوں نے روزہ کی حالت میں خدا کو یاد کیا خواہ وہ لیٹے لیٹے بیٹھے بیٹھے ہی کیوں نہ ہوں اور پھر جب عید کے دن ہنسی خوشی کے ساتھ کھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فخر سے کہتے ہیں کہ فرشتو! اس مزدور کی اجرت کیا ہے جس نے پورا کام کیا اور وہ کہیں گے کہ اللہ ربْ العزت اس کی اجرت یہ ہے کہ اس کو پورا بدلہ عطا فرمایا جائے، اللہ ربْ العزت کا ارشاد ہو گا کہ فرشتو! میرے بندوں نے میرے احکام کی تکمیل کی جو میں نے اْن پر فرض کیے تھے اور اب وہ دْعا کرتے ہیں مجھے پکارتے ہیں، مجھ سے مانگتے ہیں، قسم ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی اور قسم ہے میری وسعتِ کرم و بزرگی کی، میں یقیناً ان کی پکار کا جواب دوں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام ہو گا کہ اے لوگو! تم واپس جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا، تمہاری نیکیاں برائیوں پر غالب کرتا ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا لوگ عید کے دن اس حال میں لوٹتے ہیں کہ وہ بخش دیے گئے ہیں۔ رمضان المبارک گزر جانے کے بعد یکم شوال کو شکرانے کے طور پر دو رکعت نماز عید واجب ہے۔ عید کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، خوشبو لگانا، عمدہ لباس پہننا، کنگھی کرنا، تیل لگانا، عید گاہ میں جلدی پہنچنا، عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھا لینا، عید گاہ جانے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا، عید گاہ میں ہی عید کی نماز پڑھنا، ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس ہونا، عید گاہ کو پیدل جانا۔ روزے رکھے ہوں یا نہ رکھے ہوں لیکن ہر مسلمان عاقل و بالغ آزاد پر جس کے پاس مال موجود ہو صدقہ فطر واجب ہے۔ عید الفطر چونکہ خوشی کا تہوار ہے اس لیے ہمیں اس موقع پر غریب لوگوں کی مشکلات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا وائرس کے باعث لوگوں کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ عید کے حوالے سے ماضی میں لوگ جس طرح تیاریاں کرتے تھے، امسال ایسا نہیں کر سکے۔ قوموں کی زندگی میں المیے، حوادث اور مصائب پیش آتے رہتے ہیں لیکن ان سے گھبرانا نہیں بلکہ حالات کا ثابت قدمی اور صبر سے مقابلہ کرنا چاہیے۔ کرونا کے حوالے سے اب جبکہ ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی ہوئی ہے اور جزوی طور پر لوگوں کو کاروبار کھولنے کی اجازت ملی ہے تو اس سے یقیناً مسائل میں کچھ نہ کچھ تو ضرور کمی آئے گی۔ معاشرے میں بعض افراد کی جانب سے یہ سننے میں آ رہا ہے کہ اس سال ہم عید نہیں منائیں گے۔ اس طرح کے بیانات کے پیچھے یقیناً نیک نیتی، حب الوطنی اور انسانیت دوستی کا جذبہ کار فرما ہوتا ہو گا لیکن سوال یہ ہے کہ عید نہ منانے کا مطلب کیا ہے؟ یہ کوئی جشن یا تہوار تو ہے نہیں، یہ تو عبادت اور سنت ِمصطفیﷺ ہے، اخوت ِاسلامی اور اتحادِ امت کا مظاہرہ ہے۔
عید کے موقع پر ہمارے ہاں جس طرح خریداری کے حوالے سے فضول خرچی کے مظاہرے دیکھنے میں آتے تھے وہ لمحہ فکریہ تھے۔ ایک طرف غریب دو وقت کی روٹی کے لیے مارا مارا پھرتا تھا تو دوسری طرف امیر طبقہ غیر ضروری خریداری کے ذریعے ہزاروں روپے ضائع کرنے میں ذہنی سکون محسوس کرتا تھا۔ آج ہمیں اپنے اردگرد دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی بھوکا تو نہیں سو رہا، کوئی بیمار تو نہیں ہے کہ جس کے پاس دوائی کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ اس عید پر اگر ہم فضول خرچی کے بجائے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں تو کس قدر بہتر ہوگا۔ عید کے موقع پر جن لوگوں کے پاس کھانے کیلیے کچھ نہیں ہوگا ہم ایسے لوگوں کی مدد کریں توہمارے اس کام سے اللہ پاک ناصرف خوش ہوں گے بلکہ ہو سکتا ہے وہ ہمیں معاف کر دے۔ اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا یہ سنہری اور آسان موقع ہے، جسے کسی بھی صاحب حیثیت انسان کو کسی بھی صورت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ کرونا وائرس کے باعث ہمیں سوچنا چاہیے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کا آپس میں مل بیٹھنا، نفرتوں، عصبیتوں اور کدورتوں کو مٹانا اور محبتوں کی خوشبوؤں کو قلب و نظر میں بسانا اگر غلامان مصطفیٰﷺ کو عید کے دن میسر ہو جائے، تو یہ معراجِ عید ہو گی۔ لہٰذا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے موقع پر اور ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ سے رجوع کریں، استغفار کریں اور اس کی رحمتوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ آفات و بلیّات کے ٹلنے کی دعائیں کریں۔
عید ہی مسلمانوں کا وہ پہلا بڑا اجتماع ہے جو کہ مسلمانوں کو ایک جنگ کی فتح کے بعد نصیب ہوئی عید کے اس اجتماع میں جہاں مسلمان ماہ رمضان کی رحمتوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں ساتھ ہی خدا کی عظمت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ عید مسرت و شادمانی کا پیغام ہے جس کے دامن میں فرحت و مسرت اور رنگینی و شادمانی نظر آتی ہے۔ عید اسلامی تہذیب و ثقافت کا حسین مظہر ہے کہ کس طرح اسلام اپنے ماننے والوں کو خوشی و مسرت کے مواقع فراہم کرتا ہے اور کس طرح اس مسرت و شادمانی میں اللہ ربْ العزت کی رحمتیں شامل ہوتی ہیں۔ اہلیان پاکستان کو عید الفطر کے موقع پر اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اس ملک کی سلامتی اور دفاع کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔