تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
یوم تکبیر اور استحکام پاکستان کے تقاضے
یوم تکبیر پر عالم اسلام شکرگزار ہوا۔
قوم آج 28 مئی کو وطن عزیز کے ایٹمی قوت سے سرفراز ہونے کی 22ویں سالگرہ یوم تکبیر کی صورت میں ایک نئے جوش و جذبے کے ساتھ منا رہی ہے۔ اس موقع پر ملک بھر کی تمام سیاسی، سماجی، دینی، نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن، طالب علموں اور مزدور تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں خصوصی تقاریب کا اہتمام کیاجاتا ہے جن میں ملک کے ایٹمی قوت بننے کی اہمیت کو اجاگر کیاجائیگا اور ایٹمی قوت سے سرفراز کرنیوالی شخصیات کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں سلام عقیدت و محبت پیش کیا جائے گا جبکہ ملک بھر میں نماز فجر کے بعد یوم تکبیر کے حوالے سے ملک کی آزادی، خودمختاری اور ترقی و سلامتی کیلئے خصوصی دُعائیں مانگی جائیں گی۔ اس موقع پر اسلام آباد، آزاد جموں وکشمیر، شمالی علاقہ جات اور چاروں صوبائی دارلحکومتوں سمیت ملک بھر میں ریلیوں اور تقاریب کا اہتمام کیاجارہا ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب ایک صحیح فیصلہ اس کی تقدیر بدل کررکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی وقت پاکستان کی تاریخ میں بھی 28 مئی 1998ء کو آیا جب ایک صحیح اور بروقت فیصلے نے ایک ایسا معجزہ کردکھایا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں دو بڑے معجزے ہوئے ہیں۔ پہلا معجزہ 14 اگست 1947ء قیام پاکستان کا ہے کہ کس طرح ایک منتشر قوم نے جدوجہد کرکے ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی اور اپنا ایک الگ ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پاکستان قدرت کا عطاکردہ انمول تحفہ ہے جو لیلۃ القدر کی مقدس رات میں نازل ہوا مگر اس کے قائم ہونے کے بعد بھی بہت زیادہ قربانیاں دینا پڑیں۔ حد یہاں تک پہنچ گئی کہ ہماری خطاکاریوں کے باعث ہمارا اپنا وجود دولخت ہوگیا۔ بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے برسراقتدار آتے ہی اپنے جارحانہ عزائم کا بھرپور طریقے سے اظہار کیا اور جنگی تیاریاں شروع کردیں اور پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ 11مئی 1998ء کو بھارت نے 3 اور 13 مئی 1998ء کو دو مزید ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو یہ پیغام دیا کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹاسکتا ہے۔ بھارت کی جارحیت پاکستانی عوام، افواج پاکستان اور تمام دینی و سیاسی جماعتوں کیلئے ناقابل برداشت تھی۔ پوری قوم کی یہ خواہش تھی کہ بھوکا رہنا منظور ہے مگر انڈیا کی غلامی منظور نہیں اور پاکستان کو ایٹمی دھماکوں کا جواب بھرپور طریقے سے دینا چاہیے۔ چنانچہ پاکستانی سائنسدانوں، افواجِ پاکستان اور سیاسی قیادت کے فیصلے پر 28 مئی 1998ء بروز جمعرات دوپہر 3 بجکر 40 منٹ پر چاغی کے مقام پر واقع کوہ کامبران میں کھدی ہوئی ایک کلو میٹر لمبی زگ زیگ سرنگ میں 5 اور 30 مئی کو صحرائی کے مقام پر چھٹہ ایٹمی دھماکا کرکے بھارت کا منہ توڑ جواب دیا اور ہمسایہ دشمن ملک بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا اور اس کے ساتھ ہی پاکستان اسلامی دنیا میں پہلا اور دنیا میں ساتواں ایٹمی ملک بن گیا۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی طاقت بھارت کی ایٹمی طاقت سے کئی گناہ زیادہ تھی۔ عالمی طاقتیں حیران ہوگئیں کہ پاکستان نے کب اور کس طرح ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی۔ پاکستان میں سب سے پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو جوہری صلاحیتوں سے مالامال کرنے کا جو خواب دیکھا تھا اس خواب کی تکمیل اللہ ربُ العزت کی مہربانی سے 28 مئی 1998ء کو مکمل ہوئی۔ ایٹمی دھماکے میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی میں اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیشت میں جب ایٹمی دھماکے کیے گئے تو اُس وقت پورا ملک خوشی سے جھوم اُٹھا۔ عوام نے شکرانے کے نفل ادا کیے۔ اُس وقت امریکہ کے صدر نے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ ایٹمی دھماکے نہ کیے جائیں۔ اس کے برعکس پاکستان کے تمام قرضے معاف کردئیے جائیں گے اور بہت سی دیگر مراعات بھی دی جائیں گی مگر میاں محمد نواز شریف نے عوام، سیاستدانوں، دینی جماعتوں، افواج پاکستان بالخصوص قاضی حسین احمد اور نظریہ پاکستان فاؤنڈیشن کے چیئرمین مجید نظامی کی اپیل پر ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا۔ پاکستان اگر اُس وقت ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو ہمارا حال بھی آج نیپال، بھوٹان، مالدیپ، سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسا ہوتا اور بھارت اس خطے کا حاکم بن چکا ہوتا اور پاکستان کو ہضم کرچکا ہوتا۔ جب پوری قوم، سیاسی قوتیں اور افواج ایک موقف پر اکٹھے ہوجائیں تو پھر دنیا بھر کی کوئی طاقت ان کو سرنگوں نہیں کرسکتی۔ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے، کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا پھر بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کیلئے اسے ماضی میں 1965 اور 1971 میں بھارت کے ساتھ جنگیں لڑنا پڑیں۔ اب جبکہ پاکستان ایٹمی ٹیکنالوجی اور میزائل ٹیکنالوجی سے مالامال ہے اس کے باوجود ہندوستان آج پھر بلوچستان، خیبرپختونخواہ، پنجاب اور سندھ سمیت جہاں بھی موقع ملتا ہے اپنے پالتو ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کرواتا رہتا ہے جس میں آئے دن پاکستانی افواج کے جوان شہید ہوتے ہیں۔ اتنی شہادتیں 1965 اور 1971 کی جنگ میں نہیں ہوئیں جتنی شہادتیں ردالفساد کے سلسلے میں پاکستان میں ہوئیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم 28 مئی 1998ء کو دھماکے نہ کرتے تو ہمارا ٓج کیا حال ہوتا؟ پاکستان دہشتگری اور بیرونی جارحیت کے خطرات کی موجودگی میں اپنے دفاع سے غافل نہیں رہ سکتا انہیں اس بات کی بناء پر اس کی سلامتی کیلئے خطرات آج بھی موجود ہیں جس کی وجہ سے آج بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کی جدوجہد میں ہمہ تن کوشاں ہے جس میں پاکستانی عوام کو فخر ہے۔ پاکستان قدرت کا انمول تحفہ ہے اور اسی مناسبت سے یوم تکبیر ہمارے لیے یوم آزادی جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن ہمارے لیے ملک کی ترقی و استحکام کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عہد کی تجدید کا بھی دن ہے اور اس روز ہم نے ملک کی بقاء و سلامتی کی خاطر یہ بھی جائزہ لینا ہے کہ ایٹمی قوت سے سرفراز ہونے کے باوجود ہم مسلم امہ کیخلاف ہنودویہودونصاریٰ کی سازشوں کی آماجگاہ امریکہ کے دست نگر کیوں بنے ہوئے ہیں اور اس خطہ میں امریکی مفادات کی جنگ میں جو درحقیقت مسلم امہ کے خاتمہ کی جنگ ہے امریکہ کے فرنٹ لائن اتحادی بن کر اپنے ہی ہاتھوں اپنی موت کا سامان کیوں پیدا کررہے ہیں جبکہ امریکہ ہمارے شاطر اور مکار دشمن بھارت کا فطری اتحادی بن کر اسے ہر قسم کے اسلحہ اور جدید ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کررہا ہے تاکہ وہ ہماری سالمیت کیخلاف اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل میں کوئی دقت محسوس نہ کرے۔ یہ تو اللہ ربُ العزت کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے قومی جذبے سے سرشار رائے عامہ کے تابع اس وقت کی سیاسی قیادت کو ہمت اور توفیق دی جنہوں نے 28 مئی 1998ء کے یادگار لمحے پر چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی بٹن دبا کر ملک کے ایٹمی قوت ہونے کا باضابطہ اعلان کیا ورنہ ہماری سالمیت کے خلاف دشمن کے جو عزائم تھے اسکی روشنی میں آج ہماری داستاں تک بھی نہ ہوتی داستانوں میں۔ آج یوم تکبیر ہے جس جذبے اور مقصد کے تحت ہرسال یوم تکبیر منانے کا سرکاری فیصلہ ہوا تھا انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ شاید آج وہ جذبے سرد پڑچکے ہیں۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر آج جس حال میں ہیں وہ افسوسناک ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو سے زیرو بنانے والوں کے عزائم کیا ہیں یہ تو خدا ہی جانتا ہے۔ پورا عالم 28 مئی کا شکرگزار ہے جس نے مبارک موقع فراہم کیا دوسری جانب کفر مسلمانوں کو اس مقام سے ہٹانے کے درپے ہے مگر اس جوہری قوت کے باعث کسی فوری اقدام سے گریزاں ہے۔ ایٹمی قوت ہونے کی وجہ سے ہم مزید جنگوں سے محفوظ ہوئے مگر اب دشمن نے دوسرے حربے استعمال کرنے شروع کردئیے ہیں۔ ہمیں دنیا کے سامنے دہشتگرد ملک ثابت کرنا چاہا تاکہ ایٹمی قوت کو فریز کردیا جائے۔ ہمارا ایٹمی پروگرام نہایت محفوظ ہاتھوں میں ہے ان کو اندرونی بیرونی کسی جانب سے خطرہ نہیں۔ ٹیکنالوجی کے فارمولوں کے مطابق انتہائی نگہداشت عمل سے آراستہ مکمل خفیہ نظام سے منسلک ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب