تحریر: شیخ محمد انور 2020
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
صحت انسان کے لیے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر ہے۔ یوں تو انسانی جسم کا ہر عضو اہمیت کا حامل ہے اور اس کا درست انداز میں اپنے افعال انجام دینا نہایت ضروری ہے تاہم، دل وہ عضو ہے جس پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہمارا دل خالق ِ کائنات کی قدرت کا ایک عجیب شاہکار ہے جو بظاہر گوشت کا لوتھڑا ہے مگر انسانی زندگی کے وجود کا لازمی اور پہلا ذریعہ بھی ہے۔ دل کا وزن قریباً 10 اونس ہوتا ہے، یہ عام طور پر ایک منٹ میں 70 بار دھڑکتا ہے۔ جب تک اس کی یہ دھڑکن باقی رہتی ہے سانس چلتی رہتی ہے، جونہی یہ دھڑکن رکتی ہے انسانی زندگی کی ڈور کٹ جاتی ہے۔انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں دل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برعکس اس کی غیر مستقل حالتِ زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتی ہے۔ جسمانی سطح پر دیکھیں تو دل انسانی جسم کا اہم ترین حصہ ہے اور پورا نظامِ خون اس پر منحصر ہے۔ ایک کھوکھلے عضلاتی پمپ کی طرح اس کا بنیادی مقصد پورے جسم کو خون پہنچانا ہے۔ یہ دل ہی ہے جس کا ڈاکٹر آپریشن کرتے ہیں اور جسے فزیشن ٹرانسپلانٹ کرتے ہیں۔ اگر دل ناکام ہو جائے تو ہمارا مکمل جسم سانس لینا اور کام کرنا بند کر دیتا ہے، نتیجتاً ہمارا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر بات کریں تو دل ہی وہ جگہ ہے جہاں سے انسان کے تمام احساسات، جذبات اور مزاج جنم لیتے ہیں جن کا پھر پوری شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ اگر ہم اپنی کوششوں کا من چاہا نتیجہ حاصل نہ کر سکیں تو ہمارا دل اداس ہو جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کی بے عزتی کی جائے تو دل کو ٹھیس پہنچتی ہے، جب ہم فکرمند ہوتے ہیں تو ہمارا دل ہمارے جسم کو بے آرام کر دیتا ہے، جب ہماری تعریف کی جائے تو ہمارا دل خوش ہوتا ہے اور دل ہی ہے جہاں ہمارے تمام راز پنہاں ہوتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 29 ستمبر کو دل کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں کو امراض قلب کی وجوہات، علامات، بروقت تشخیص، علاج اور احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرنا ہے۔ پاکستان میں امراض قلب کے مریضوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ہر سال قریباً دو لاکھ افراد دل کے امراض کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2030ء تک دنیا بھر میں دل کے امراض کے سبب اموات کی شرح 17.3 ملین سے بڑھ کر 23.6 ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ دل کے دورے کا شکار ہونے والے افراد میں سے تیس فیصد افراد ہی میڈیکل سینٹر تک پہنچ پاتے ہیں جبکہ ستر فیصد موقع پر یا ہاسپٹل پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ دل کے عارضے کی ایک بڑی وجہ معلومات کی کمی، تمباکو نوشی، شوگر، بلند فشار خون، آرام پسندی، غیر متحرک طرز زندگی، موٹاپا، بسیار خوری اور باقاعدگی کے ساتھ ورزش نہ کرنا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دل کے امراض سے ہر سال 2 کروڑ سے زائد افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی عوام تیزی سے اس مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔ میں نے اپنے بچپن کے دوست جواں سالہ کزن ممتاز عالم، زاہد جاوید اور اپنے بہنوئی الحاج محمد اسلم چوہان کو اسی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فانی جہاں نے لافانی جہاں کی طرف کوچ کرتے دیکھا اور اتنا موقع بھی نہ ملا کہ اُن کا علاج ہوسکے۔ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 سال سے کم عمر افراد میں دل کے امراض کی شرح یورپی ممالک کی نسبت 10 گنا زیادہ ہے۔ ماہرین اس کی وجہ مغربی طرز زندگی اپنانے کو قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں 40 سے 45 برس کی عمر کے لوگوں میں دل کا عارضہ لاحق ہوتا ہے۔ دل انسانی جسم کے اہم ترین اعضاء میں سے ایک ہے مگر حیران کن طور پر ہم اس کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ روزمرہ کے تناؤ اور مضر صحت غذا کے استعمال سے اس پر بوجھ بڑھاتے رہتے ہیں حالانکہ سب کو علم ہے کہ بہت زیادہ چکنائی سے بھرپور غذا بلڈ کولیسٹرول کی سطح بڑھانے کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں خون کی شریانیں سکڑنے لگتی ہیں اور دل اپنے افعال سرانجام دینے سے قاصر ہونے لگتا ہے۔ اس کا نتیجہ ہارٹ اٹیک یا امراض قلب کی شکل میں نکلتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق کوکنگ آئل اور گھی میں شامل کی جانے والی مختلف سبزیوں، نباتات اور جانوروں سے حاصل کی گئی ٹرانس فیٹ یعنی چکنائی اور چربی انسانی صحت کے لیے مضر ہے، جس سے امراض قلب سمیت کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق گھی اور کوکنگ آئل میں جدید طریقے اور فیکٹریوں کے اندر شامل کی جانے والی چکنائی اور چربی سے انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ کھانوں میں استعمال ہونے والے کوکنگ آئل اور گھی میں پائی جانے والی چربی اور چکنائی سے دنیا بھر میں سالانہ 5 لاکھ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ پاکستان اور دنیا بھر میں لوگوں کا ”آرام طلب لائف سٹائل“ دل کی بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ہے لہٰذا دل کے دورے سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ طرز زندگی اور اپنے رہن سہن کا انداز تبدیل کیا جائے مرغن کھانوں کے بجائے پھل اور سبزیوں کو اپنی خوراک کا لازمی حصہ بنایا جائے اور ہر شخص روزانہ کم از کم 30 منٹ ورزش کی عادت اپنائے۔ امراض قلب میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ تشویش ناک ہے کیونکہ گزشتہ سال کے دوران دنیا بھر میں ایک کروڑ 73 لاکھ افراد امراض قلب کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے اور اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو اگلے 15 سال کے دوران دل کی بیماریوں سے مرنے والوں کی تعداد سالانہ اڑھائی کروڑ تک پہنچ جائے گی، محتاط طرز زندگی اپنا کر ہم امراض قلب سے بچ سکتے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں لوگوں کی آگاہی کیلئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہیلتھ ایجوکیشن دی جا سکے۔ آج کل دل کے ہسپتالوں میں علاج کیلئے آنے والے 30 فیصد مریض 40 سال سے کم عمر کے ہوتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے رہن سہن اور کھانے پینے کی عادات ایسی ہیں کہ لوگ ذہنی تناؤ میں زندگی گزار رہے ہیں اور لوگ ذہنی تناؤ کم کرنے کیلئے سگریٹ اور منشیات کا سہارا لیتے ہیں لیکن نشے کا عادی ہونے کی صورت میں انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ مرغن اور نشاستے والے فاسٹ فوڈ کے رواج نے ہمارے بزرگوں، مردوں، عورتوں اور بچوں کو شوگر، موٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں ورزش کی عادت عام نہ ہونے کی وجہ سے بھی امراض قلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ سکولوں میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک کلاس ورزش اور سپورٹس کا بھی ہونا چاہیے۔