تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
زرعی زمین پر اگتی کنکریٹ کی فصل
سونا اگلتے کھیت رہائشی کالونیوں میں تبدیل
منافع میں کمی کے باعث کسان کھیتی باڑ ی چھوڑنے پر مجبور
گزشتہ دنوں کسان ایک بار پھر احتجاج پر مجبور ہوئے۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی کا شکار پنجاب کے مختلف شہروں سے آئے کسانوں نے صوبائی دارالحکومت لاہور کا رخ کیا اور ٹھوکر نیاز بیگ میں دھرنا دیا۔ کسان بے چارے کیا کریں، جب حکومت ان کے مسائل حل نہیں کرے گی تو مجبوراً وہ احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ ریاست کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ ہر شہری کو درپیش مشکلات کا فوری ازالہ کرے بلکہ ایسے اقدامات کرے جس سے کسی کو بھی احتجاج اور دھرنوں کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ کسان اور اساتذہ کسی بھی قوم میں نہایت اہمیت کے حامل طبقات ہیں۔ کسان ملک و قوم کیلئے اناج پیدا کرتے ہیں تو اساتذہ قوم کے معماروں کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے ترقی و کامیابی کی راہ پر گامزن کرتے ہیں۔ مگر افسوس ہم ان دونوں طبقات کو وہ عزت و تکریم نہیں دے رہے جو ان کا حق ہے۔ دھرنے میں شریک کسانوں کے مطالبات ناصرف جائز بلکہ وقت کی ضرورت ہیں۔ کسان تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ حکومت گندم کی امدادی قیمت میں مناسب اضافہ کرے، کھاد اور ٹیوب ویل کے بجلی بلوں پر خاطر خواہ سبسڈی دی جائے۔ کسان جب کھیتی باڑی چھوڑ کر سڑکوں پر نکل آئیں تو یہ غور و فکر کا مقام ہے، ارباب اختیار کو سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے لیکن پولیس کی طرف سے دھرنے کے شرکاء کو منتشر کرنے کیلئے جس طرح دوران کریک ڈاؤن آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا بے دریغ استعمال کیا گیا وہ لمحہئ فکریہ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نہ ماضی کی حکومتوں نے زراعت کی زبوں حالی پر صحیح معنوں میں توجہ دینے کی زحمت گوارا کی اور نہ ہی موجودہ حکومت نے ابھی تک ایسے اقدامات کئے ہیں کہ جن سے کسانوں کو فوری ریلیف مل سکے۔ کسان پریشان ہیں کہ مہنگی بجلی کے باعث پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے فی ایکڑ منافع تو دور کی بات فصل کی لاگت بھی مشکل سے پوری ہوتی ہے۔ اگر زرعی ادویات، بیج، کھاد اور دیگر لوازمات کی بات کی جائے تو ان کی قیمتیں بھی کسان کی قوت خرید سے باہر ہیں۔ زراعت کے حوالے سے صورتحال انتہائی تشویشناک ہے لیکن ارباب اختیار کو اس بات کا ادراک ہی نہیں۔ ارباب اختیار کو ادراک ہو گا بھی کیسے، اسمبلیوں میں تو ایسے لوگ ایک عرصے سے منتخب ہو کر آ رہے ہیں کہ جن کو زراعت کی ترقی سے کسی بھی صورت دلچسپی نہیں ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ زراعت کا شعبہ مسائل سے دوچار ہوتا جا رہا ہے۔ کھیتی باڑی حکومتی عدم توجہی اور غلط پالیسیوں کے باعث گھاٹے کا سودا بن چکی ہے۔ جس کام میں انسان کو مسلسل خسارے کا سامنا ہو ایک نہ ایک دن انسان وہ کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور آج کل یہی حال زمینداروں کا بھی ہے۔ شہروں کے قریب زیادہ تر زمیندار اپنی زمینیں لینڈ مافیا کو بیچنے پر مجبور ہیں، ملک میں زرخیز زرعی رقبوں میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ سونا اگلتی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی صورت میں کنکریٹ کا ڈھیر بنتی جا رہی ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس حوالے سے عدم توجہی اور مسلسل لا پروائی باعث تشویش ہے۔ ہمارے ملک کی زرعی زمینوں میں نامیاتی مادے کی کمی ہو گئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی زرخیزی میں کمی واقع ہو رہی ہے جس سے مختلف فصلوں کی پیداوار کمی کا شکار ہے۔ زرعی زمین کا کالونیوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کیلئے بے دریغ استعمال اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ آج اگر ہم نے اس طرف فوری توجہ نہ دی تو وہ دن دور نہیں جب لوگ اناج کے دانے دانے کو ترسیں گے۔امسال فروری میں زرعی زمینوں کو بچانے کے لیے وزیراعظم کے فیصلے سے امید کی کرن پیدا ہوئی تھی کہ حکومت نے کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی حوصلہ افزائی اور پلاننگ کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اس حوالے سے اب تک مسلسل خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے جامع اور طویل المدت پالیسی لائیں اور اس میں بلدیاتی اداروں کو بھی شامل کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ زرخیز زمینوں کے بجائے سیم اور تھور والی زمینوں کو رہائشی اور کمرشل تعمیرات کے لیے زیر استعمال لانے کے حوالے سے آگاہی دی جائے۔ اگر زرخیز زمینوں پر رہائشی اور کمرشل تعمیرات کو نہ روکا گیا تو پاکستان اپنی زرعی خاصیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ ملک میں رہائشی اور کمرشل عمارتوں میں اضافے نے زرخیز زمینوں کا حسن ختم کردیا ہے۔ ملک میں جہاں کبھی زرخیز زمینوں پر سرسوں کے پیلے پھول مہکا کرتے تھے اور گندم کی سنہری ڈالیاں ہواؤں کے سنگ جھولا کر تی تھیں، وہاں اب کنکریٹ کے جنگل اگ آئے ہیں۔ زرخیز زمینوں کی تباہی میں صاحب اقتدار، لینڈ مافیا اور سوسائٹی مالکان سب ہی برابر کے شریک ہیں۔ عمارات کی تعمیر دور عصر کی ضرورت سہی مگر منصوبہ بندی اور توازن کے فقدان نے آوے کا آوہ ہی بگاڑ دیا ہے۔جس کا جو جی چاہتا ہے کرتا ہے،کسی کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ موسم اور حالات بدل رہے ہیں لیکن ہم بدلتے وقت کے تقاضوں کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں۔ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی تو ہمیں درختوں کے جھنڈ دیکھنے کو ملیں گے نہ ان پر چہچہاتے پرندوں کی مترنم آوازیں، بس آنے والی نسلوں کی آنکھیں آسمان کو چھوتی عمارتوں کو تکتے تھک جائیں گی اورہمارے ملک کے کسان فصلوں کی آبیاری کے بجائے پچھتاوے پالیں گے۔ خیر ملک میں چینی اور گندم کا بحران تو پہلے سے ہی چل رہا ہے اور حکومت باہر سے مہنگے داموں چینی اور گندم منگوانے پر مجبور ہے۔ اس لحاظ سے ہمارا ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزید زرخیززمین جو شہروں کی حدود کے ساتھ ہے اسے کھوئے۔ وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے زرعی زمینوں پر رہائشی اسکیموں کی تعمیر پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ ایک نہایت احسن اقدام ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ روز بروز بڑھتی ہوئی آبادی کے دباؤ کا شکار بننے والے شہروں کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے نا صرف کچن گارڈننگ کو فروغ دیا جائے بلکہ زراعت کے نظام کی حفاظت اور اسے بہتر بناتے ہوئے کمرشل بنیادوں پر ترقی دی جائے تاکہ شہری مضافاتی زراعت کسان کے لئے رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ کی نسبت زیادہ منافع بخش بن سکے۔