تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
گداگری پیشہ یا مجبوری بھیک مانگنے کا بڑھتا رجحان لمحہئ فکریہ
بھیک مانگنا کسی بھی معاشرے، مذہب اور قانون میں غیرمناسب، غیر شائستہ اور برا کام قرار دیا گیا ہے۔ ہر قوم کی پہچان اپنے بچوں پر خرچ ہونے والے وسائل سے ہوتی ہے، جن بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہییں تھیں بدقسمتی کہ اہل ثروت کی چشم پوشی کی وجہ سے آج وہ ہاتھ سڑکوں پر بھیک مانگنے پر مجبورہیں۔ جس قوم کے بچے بھیک مانگنے والے فعل سے وابستہ ہوجائیں تو اس قوم کا مستقبل کسی بھی صورت روشن نہیں ہو سکتا۔ جس قوم میں بھیک مانگنے والوں کی کثرت ہو جاتی ہے اسی قدر قوم کی دولت میں، محنت و جفاکشی میں اور غیرت و ہمت میں گھاٹا ہوتا جاتا ہے۔ اسلام میں بھیک مانگنا انتی بری عادت قرار دی گئی ہے کہ اس کی روک تھام کیلئے اسلام میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے بھیک مانگنے کی اس قدر مذمت فرمائی ہے کہ شاید ہی کسی نے کی ہو۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ صحابہ کرامؓ کو سوال کرنے سے روکا اور فرمایا: لوگو! کسی سے کچھ نہ مانگو۔ سوال نہ کرنے کی تاکید کا مقصد یہ تھا کہ لوگ بھیک مانگنے کو پیشہ نہ بنالیں جیسے آج کل اس نے ایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اسلام میں بھیک مانگنے کی بے حد مذمت کی گئی ہے اور محنت مزدوری کرکے جائز آمدنی کمانے کا سبق پڑھایاگیا ہے۔ بعض لوگ بھیک مانگنے والوں کے ساتھ بے حد برا سلوک کرتے ہیں، اس سے ان لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے جو نہ جانے کسی مجبوری یا لاچاری کی بنا پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے یا انہیں مجبور کیا گیا، بے شمار جرائم پیشہ افراد ایسے ہیں جو معصوم بچوں اور بچیوں کو اغواء کرکے ان پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھاتے ہیں، ان کے ہاتھ پیرزخمی کردئیے جاتے ہیں اور انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایک طرف غربت اور مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے تو دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے، وہ محض سیروتفریح کرنے، تھیٹر اور فلمیں دیکھنے پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں، قیمتی موبائل ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، ریستورانوں اور کھانے پینے کی دُکانوں پر صبح و شام ہجوم ہوتا ہے۔ پورے پاکستان خاص طور پر لاہور کا یہ حال ہے کہ قدم قدم پر فقیروں کی فوج نظر آتی ہے، فٹ پاتھ پر پورا خاندان صبح اُٹھتے ہی اپنی مخصوص جگہوں پر آجاتا ہے اور پھر یہ لوگ مختلف گاڑیوں کی سمت دوڑ لگا دیتے ہیں۔ راہگیروں اور دُکانداروں سے بھی باقاعدگی سے ہر روز بھیک مانگتے ہیں۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے، ہر انسان اپنے گھریلو مسائل، کاروباری مسائل اور معاشی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے پہلے سے پریشان ہے اور ایسے میں اگر ایک نہیں کئی فقیر آپ کی راہ روک لیں تو کچھ حضرات سارا غصہ ان پر نکال دیتے ہیں، اگر کوئی ان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہ کرے تو لوگ بھیک مانگنے سے باز بھی نہیں آتے، اگر ایک کو دے کر اپنی جان چھڑا لیں تو دوسرے بہت سے بچے، عورتیں اور مرد آ کر کھڑے ہوجاتے ہیں، اب آپ سب کو بھیک دیں یا پھر خاموشی اختیار کر لیں۔ گزشتہ دنوں اورنج لائن ٹرین کے پل کے نیچے سے میرا گزر ہوا جو کہ میرے گھر کے بالکل قریب ہے تو میں نے دیکھا کہ وہاں پر 13سے14 سال کا بچہ صبح کے وقت بھیک مانگ رہا تھا۔ میں سیر کرنے کیلئے اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا۔ جب میں اُس کے پاس سے گزرا تو اُس نے مجھ سے پیسے مانگے۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ اتنی صبح تم کہاں سے آ گئے ہو اور بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ تو اُس بچے نے جواب دیا کہ میں گھر سے بھاگ کر آیا ہوں۔ میرے جیسے اور بھی کئی لڑکے اسی سڑک پر سارا دن بھیک مانگتے ہیں، آپ میری مدد کردیں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ اُس کی حالت دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُسے نشے کی لت بھی لگ چکی ہے۔ میں نے حسب توفیق اُس کی مدد کی، میں حیران تھا کہ اُس کی آنکھوں میں ایک چمک سی تھی جیسے وہ بھیک مجبوری کی حالت میں مانگ رہا ہے۔ میں نے اُس سے مزید بات کی اور اُسے سمجھانے کی کوشش کی کہ تم اپنے گھر سے بھاک کر کیوں آ گئے ہو؟ اپنے گھر جاؤ اور ماں باپ کی خدمت کرو اور اُن کا سہارا بنو۔ اُس لڑکے نے جواب دیا کہ میرے تین بھائی ہیں اور مجھے کچھ پتا نہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ میں بہت چھوٹا سا تھا جب میرے والد فوت ہوگئے تومیری والدہ نے دوسری شادی کر لی۔ میرا سوتیلا والد بہت سخت قسم کا انسان ہے اور وہ ہمیں بہت مارتا تھا، میں بھائیوں میں سب سے بڑا تھا تو ایک دن تنگ آ کر گھر سے بھاگ گیا۔ میرا باپ بہت ہی اُلٹے دماغ کا ہے اور کبھی کبھی امی کو ملنے کو دل کرتا ہے لیکن اپنے سوتیلے والد کے لڑائی جھگڑے اور مار دھاڑ کی وجہ سے تنگ آ کر میں گھر سے بھاگا ہوں۔ اگر کبھی موقع ملا تو امی سے ملنے جاؤں گا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ تم کہاں سوتے ہو؟ تو اُس نے مجھے بتایا کہ لاہور میں ریلوے اسٹیشن ہی مجھے ایسی جگہ ملی جہاں میں آسانی کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ یہاں میری طرح کے بہت سے لڑکے پہلے سے موجود ہیں اور جن میں سے اکثر نشے کے عادی تھے۔ شروع میں تو مجھے پتا نہیں تھا کہ یہ نشہ کیا ہوتا ہے اور آج میں خود نشہ کرتا ہوں۔ بھوک نے جب تنگ کیا تو میں نے مانگنا شروع کردیا۔ اب ہم سب لڑکے لاہور کے مختلف علاقوں میں مانگنے کیلئے جاتے ہیں اور رات کو واپس اسٹیشن کے گردونواح میں آتے ہیں اور یہاں آ کرسوجاتے ہیں۔ لاہور میں بھیک مانگنے والے بچے لاری اڈے، ریلوے اسٹیشن، داتا دربار، مینار پاکستان، میکلوڈ روڈ، جی پی اوچوک اور ایسی کئی جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں۔ وہاں سے سارے شہر میں وہ مانگنے جاتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو گھروں سے کسی نہ کسی وجہ سے بھاگ کر آتے ہیں جن کو یہ جگہیں پناہ دیتی ہیں۔ بھوک سے تنگ آکر وہ مانگنا شروع کردیتے ہیں یا پھر غلط لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو ان کو نشے پر لگا دیتے ہیں یا پھر مافیا کے لوگوں کے ہاتھ لگ جاتے ہیں جو ان سے بھیک منگواتے ہیں اور چوری کراتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں اور کئی بچے نشے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے گاڑیوں سے ٹکرا کر حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں اور جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ میری رہائش علامہ اقبال روڈ بوہڑ والے چوک کے قریب ہے اور آتے جاتے یہ منظر سرعام دکھائی دیتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن سے لیکر دھرمپورہ تک یہ سارا علامہ اقبال روڈ انہی مانگنے والوں اور نشہ کرنے والے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ بھیک مانگنے اور نشے کی لت لگ جانے کی وجہ سے یہ لوگ کام کاج کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو کوئی کام پر رکھتا ہے۔ بھیک مانگنے اور چوری کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کی ایک وجہ ہمارے ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی بھی ہے جس کی وجہ سے تنگ آ کر لوگ بھیک مانگنے اور چوری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جن پر گھر کی ساری ذمہ داری ہے، وہ محنت مزدوری تو کرنہیں سکتے تو اس لیے مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کے پاس بھیک مانگنے کا لائسنس ہے۔ ان کیلئے حکومتی سطح پر غور و خوض کرنے اور انہیں محنت مزدوری کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔ نہ مانیں تو گرفتاری کو لازمی قرار دیا جائے۔ فقیری کی آڑ میں بے شمار برائیاں بھی خوب پنپتی ہیں جن سے سب واقف ہیں۔ معاشرے کا یہ اہم ترین مسئلہ ہے اگر اس سنگین مسئلے کو حل نہیں کیاگیا تو وہ دن دور نہیں جب فقیر چمچماتی زیرومیٹرکاروں میں بیٹھ کر بھیک مانگیں گے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب