تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
ملک میں بڑھتی ماحولیاتی آلودگی۔۔۔۔ ایک سنگین خطرہ
ہوا،پانی اور مٹی میں جو زہرگھولاجا رہاہے اس کا فوراً تدارک ناگزیر
ماہرین حیات کی رائے میں انسان عام خوراک کے بغیر 5 ہفتے تک اور پانی کے بغیر پانچ دن تک زندہ رہ سکتا ہے لیکن ہوا کے بغیر پانچ منٹوں سے زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا گویا سانس لینے کا عمل یعنی ہوا کا استعمال انسانی زندگی کا اولین جزو ہے۔ مقدار کے لحاظ سے 24 گھنٹوں کے دوران ایک آدمی اوسطاً ایک کلوگرام خوراک، ڈھائی لیٹر پانی اور قریباً دس کلو گرام ہوا استعمال کرتا ہے۔ اس حوالے سے بھی انسانی صحت اور بقائے زندگی کیلئے ہوا اہم ترین ضرورت ہے۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ مذکورہ عوامل میں ملاوٹ، آلودگی اور کثافتوں کا شامل ہونا انسانی زندگی کیلئے کس قدر مضر اور نقصان دہ ہے؟
آج پاکستان کے ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں کیونکہ نہ تو خالص دودھ ہے اور نہ ہی خالص سبزی۔ سبزیوں اور اناج کی کاشت ناصرف کیمیکل کھادوں سے ہو رہی ہے بلکہ ملک کے اکثر مقامات پر گندے پانی سے فصلیں سیراب بھی کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہر دوسرا شخص ہارٹ اٹیک، شوگر، بلڈپریشر اور کینسر اور دیگر موذی بیماریوں کا شکار ہورہا ہے۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی آلودگی ہر گزرتے دن کے ساتھ شہریوں کے لیے مختلف مسائل کا باعث بن رہی ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دور جدید کی رنگا رنگ رعنائیوں اور جدتوں نے ہمیں فنی سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل کی ایک ایسی دلدل میں پھنسا دیا ہے جس سے بچ نکلنا بہت مشکل ہے۔ لاہور، کراچی، فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ کی کاروباری شاہراہوں پر ٹریفک کا ہجوم، گرد، مٹی اور دھوئیں کی بہتات اور سب سے بڑھ کر بے ہنگم شوروغل کا طوفان انسانی دل و دماغ کو ماؤف کردیتا ہے۔ نجی شعبے کی اجارہ داری میں چلنے والے بے لگام ٹرانسپورٹ سسٹم کے تحت پاکستان کے کسی بھی علاقے میں 6 یا 6 سے زائد گھنٹوں کی مسافت انتہائی تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ ہے۔ روڈ سیفٹی ایکٹ کی صریحاً خلاف ورزی، اوورلوڈنگ، ایک دوسرے کے مقابلے میں ڈرائیوروں کی اندھا دھند ریس، سب سٹینڈرڈ وھیکلز کا عام تجارتی استعمال، نشے کی حالت میں ڈرائیونگ اور کمیشن کے لالچ میں تین کی نشست پر پانچ سواریاں بٹھانا پاکستانی ٹرانسپورٹ میں عام سی بات ہے۔ ہمارے ملک میں چنگچی رکشہ متعارف ہونے سے جہاں لوگوں کے لیے تھوڑی بہت آسانی پیدا ہوئی ہے وہاں حادثات کی شرح میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رکشہ ڈرائیورز جب چھ کے بجائے دس سواریاں بٹھاتے ہیں اور ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ دوسرے رکشے کو پیچھے چھوڑ جائیں تو اس تیز رفتاری کے باعث یا تو یہ اُلٹ جاتے ہیں یا پھر اکثروبیشتر لوگوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔
افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ ٹریفک پولیس افسران زیادہ زور کاغذات کی جانچ پڑتال پر لگاتے ہیں اور مذکورہ جرائم کی پاداش میں شاذونادر ہی کسی کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسی طرح صنعتی علاقوں، کارخانوں اور فیکٹریوں کی موجودگی بھی ماحولیاتی آلودگی پھیلانے کا ایک بڑا سبب ہے۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کی اکثر زرعی زمین صنعتی علاقوں کی کثرت کے باعث پیداواری صلاحیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے، بلاشبہ کارخانوں کا پھیلاؤ صنعتی اقتصادی ترقی کیلئے نہایت ضروری ہے لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ صنعتی انقلاب ہی ملک میں آلودگی اور آب و ہوا میں کثافت انگیزی کا سب سے بڑا ذریعہ بن جائے؟ ماحولیاتی آلودگی مضر صحت عوامل کو جنم دے رہی ہے۔ گزشتہ پچیس تیس برسوں کے دوران قدرتی عوامل یعنی فضا، پانی، ہوا، جنگلات، دریا اور سمندر بری طرح متاثر ہوئے ہیں جس کے منفی اثرات انسانی بستیوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ دور دراز دیہی اور گنجان ترین شہری علاقوں میں عورتیں، بچے اور بوڑھے افراد ایسے عارضوں میں مبتلا ہوچکے ہیں جو براہ راست فضائی آلودگی اور مضرصحت کثافتوں کی بہتات سے پھیلتے ہیں۔ اقتصادی جائزہ پاکستان کے مطابق ملک میں پھیپھڑوں اور سینے کے سرطان کی بیماری کا تناسب 45 فیصد تک جاپہنچا ہے جبکہ مضر صحت عوامل کے باعث بچوں میں پھیلنے والے عوارض کا تناسب 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ان بیماریوں کا سب سے بڑا سبب ماحولیاتی آلودگی اور ناقص غذا ہے۔
ندی نالوں اور نہروں میں سیوریج کا پانی پھینکا جانا عام مشاہدے کی بات ہے۔ جنگلات اور جنگلی حیات کا خاتمہ ایک بڑھتا ہوا خطرہ ہے جس سے نپٹنے کیلئے تاحال کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ مذکورہ قانون کے تحت ایک اعلیٰ اختیاراتی ادارہ ”پاکستان کونسل برائے تحفظ ماحولیات“ قائم ہے جو اپنے دائرہ اختیار کے مطابق مناسب اقدامات کررہا ہے لیکن اخباروں میں چند اشتہارات شائع کرالینے سے متوقع نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ بہتر ماحول فراہم کرنے والے عوامل کو فروغ دینا اور موجودہ وسائل کی بقا ایک قومی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کیلئے قومی سطح پر ملک گیر مہم کی ضرورت ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں جنگلات کا وجود نہایت قلیل ہے۔ کل رقبے یعنی 79.61ملین ایکڑ میں سے صرف 3 ملین ایکڑ پر جنگلات پائے جاتے ہیں۔ ایک سادہ اندازے کے مطابق کل رقبے کا صرف 3.8 فیصد جنگلات کے حصے میں آتا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناطے یہ تناسب کم سے کم 25 فیصد ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں پہلے سے کم جنگلات کے نہ صرف تحفظ کے انتظامات غیر تسلی بخش ہیں بلکہ جنگلات کا بلاوجہ کٹاؤ آگ لگانے کے واقعات اور ناپختہ پودوں کو کاٹ کر بطور ایندھن استعمال کرنا روزبروز بڑھتاجا رہا ہے۔ بہتر ماحول اور موسمی خوشگواریت کے حصول کیلئے درختوں کا کٹاؤ فوراً بند ہونا چاہیے ورنہ قومی دولت کا یہ ضیاع نہ صرف انسانی بستیوں کو درختوں کی قدیم رفاقت سے محروم کردے گا بلکہ آئندہ برسوں میں ٹمبر کی شدید قلت کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی ویرانگی میں بھی بے پناہ اضافے کا باعث بنے گا لہٰذا محکمہ جنگلات کے علاوہ محکمہ شاہرات پی ڈبلیو ڈی تعمیرات و ورکس اور دیگر قومی محکموں کے زیرانتظام تمام جنگلات میں سے لکڑی کے کٹاؤ پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے پابندی عائد کردی جانی چاہیے۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ جنگلات کے گھٹتے ہوئے تناسب کو روکنے کیلئے چاروں صوبوں میں توسیع جنگلات کے پروگراموں پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس نئے پروگرام کے تحت توقع کی جا رہی ہے کہ باقاعدہ جنگلات ایریا کے علاوہ شاہراہوں، رابطہ سڑکوں، نہروں، رابطہ نہروں، پارک ایریاز، قومی سیرگاہوں اور تفریحی مقامات پر مزید درخت لگائے جائیں۔ درخت قومی گندنی کا حصہ ہونے کے علاوہ گھر اور خاندان کے محاسن میں ایک فطری اضافہ بھی ہے۔ یہ سائے اور آسودگی کا باعث ہے، درختوں سے ہرابھرا آنگن خوش بختی اور نیک شگونی کی علامت ہے، چنانچہ درخت کی حفاظت اور نیا درخت لگانا خاندان کی آسودگی میں اضافہ کرنے کے مترادف ہے اور صدقہ جاریہ بھی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں پانی، ہوا اور مٹی میں جو زہرگھولاجا رہاہے اس کا فوراً تدارک کیا جانا چاہیے۔ قدرت کے عطیات اور فطری ذخائر کا بے دریغ استعمال بند کیا جانا چاہیے۔ صنعتی علاقوں میں ٹریفک کا ہجوم محدود اور سایہ دار درختوں کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں تیزی سے پھیلتی ہوئی نامیاتی اور غیرنامیاتی کثافتوں کو روکا جائے۔ حکومت چین کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ دھان کی فصل کو محفوظ کرنے کیلئے چڑیوں اور دیگر چھوٹے پرندوں کو زہریلے مادوں کے سپرے کے ذریعے مارنا شروع کردیا نتیجتاً جب چاول کی فصل پک کر تیار ہوئی تو مقدار کے لحاظ سے آدھی سے زیادہ فصل مختلف قسم کے کیڑوں مکوڑوں اور دیگر حشرات نے برباد کردی چنانچہ حکومت چین نے چھوٹی چڑیا یا اس سائز کے تمام پرندوں کو کسی بھی طریقے سے مارنے پر پابندی عائد کردی۔ پرندوں اور بعض دوسرے جانداروں کا وجود اگرچہ بظاہر نقصان کا باعث بنتا ہے لیکن ان کی افادیت بہرحال مسلم ہے۔ جانوروں اور پرندوں کا تحفظ اور ان کی نسلی بقاء بذات خود ماحولیاتی آلودگی میں ایک فطری توازن قائم رکھتا ہے۔ پاکستان کے جنگلات میں بڑے جانور مثلاً شیر، چیتا اور ریچھ وغیرہ نہ ہونے کے برابر ہیں اسی طرح ہرنی اور بارہ سنگھا بھی اب خال خال ملتے ہیں، باز، شکرا، عقاب، مرغابی وغیرہ کی تعداد بھی شکار کے باعث گھٹتی جا رہی ہے۔ اگر ادارہ تحفظ ماحولیات نے بروقت اقدام نہ کیا اور ایسے قیمتی جانور کو محفوظ کرنے کیلئے شکار پر مکمل پابندی عائد نہ کی تو خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ برسوں کے دوران ہمارے جنگلات ماحولیاتی ویرانگی کا ایک بھیانک منظر پیش کریں گے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب