باپ جنت کا دروازہ

تحریر: شیخ محمد انور 2020

ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

باپ جنت کا دروازہ

مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں 

میں نے دیکھا ایک فرشتہ باپ کے روپ میں 

ماواں باج سہارے اوکھے

باپ بنا کنارے اوکھے

زندگی میں رونق ماں باپ سے ہوتی ہے، ان کے جانے کے بعد چاہے جتنی بھی آسائشیں ہوں، چہرے پر یتیمی آہی جاتی ہے۔

میرے والد محترم حاجی اختر حسین (مرحوم) 20 دسمبر 2012؁ء کو اس فانی جہاں سے لافانی جہاں کی طرف سوسال کی عمر پانے کے بعد رخصت ہوئے۔ ان آٹھ سالوں میں بہت مرتبہ کوشش کی کہ والد محترم کے بارے میں لکھا جائے لیکن کبھی بھی قلم نے میرا ساتھ نہ دیا۔ والدین ہر انسان کو بہت عزیز ہوتے ہیں۔ شاید میں آج بھی والدِ محترم کے بارے میں یکسوئی کے ساتھ نہ لکھ سکوں۔ لکھنا چاہوں تو بھی نہ لکھ سکوں۔میرے پاس نہ تو ایسے الفاظ ہیں کہ جو ان کی صفات، ان کی ذات کا احاطہ کرپائیں یا ان کی جو ہم پانچ بہن بھائیوں بلکہ ہم سب گھر والوں سے محبت، الفت اور چاہت تھی اُس کو بیان کرپاؤں۔میرے والد محترم کوئی بہت تعلیم یافتہ تو نہیں تھے بلکہ بہت سادہ اور پکے مسلمان تھے لیکن پھر بھی میری نظر میں وہ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے زیادہ ذہین، حکمت اور بصیرت والے انسان تھے۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کے حوالے سے اپنا فریضہ بخوبی ادا کیا۔ یعنی اپنی اولاد کو حلال کھلایا اور اُن کی بہترین تربیت کی۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں اس لیے والد صاحب کا لاڈلا بھی تھا۔اسی وجہ سے بچپن اور جوانی تک خوب شیطانیاں کرتا رہا اور والد صاحب ہمیشہ نظرانداز کرتے رہے۔ مگر جب بھی کبھی والد صاحب سے مار پڑتی تو نماز چھوڑنے کی وجہ سے پڑاکرتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ میں اور میرا بڑا بھائی شرافت علی خالد نماز کے معاملے میں سستی کیا کرتے تھے تو والد صاحب صبح فجر کی نماز کے وقت ڈنڈا لے لر پلنگ پر آجاتے اور ہمیں زبردستی مسجد کی طرف روانہ کرتے۔الحمدللہ یہ مار پیٹ ہمارے لیے آج مشعلِ راہ ثابت ہوئی۔ ہم نے اپنے والد صاحب کو ہمیشہ محبت اور خوشی بانٹتے ہوئے پایا، اُن کی زندگی کا ایک ہی مقصد خدمت خلق اور دین کی سربلندی کیلئے ہرممکن کوشش کرنا تھا۔ والد صاحب نے ہمیشہ ہم پانچ بہن بھائیوں کی ہرخواہش پوری کی، اچھی تعلیم دلوانے کیساتھ ساتھ ہم سب کی اچھی تربیت بھی کی، ہمیں اچھائی برائی کی پہچان سکھائی، جھوٹ بولنے کو سخت ناپسند کرتے تھے، کہا کرتے تھے کہ بڑے سے بڑا نقصان بھی ہوجائے تو بیٹا جھوٹ مت بولنا۔یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں بھی جھوٹ سے سخت نفرت ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو رات کو جب بھی آنکھ کھلنی تو اپنے ابوجان کو مصلے کی پشت پر دیکھتا، نمازِ تہجد بہت باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور اس وقت خوب زاروقطار روتے تھے، ساری زندگی ماسوائے وہ ایام جب آخری وقت میں وہ بیمار ہوئے،والد صاحب کو نماز تو دور کی بات کبھی تہجد بھی چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ والد صاحب 1917؁ء میں پیدا ہوئے، اُنہوں نے برصغیر کو ٹوٹتے اور پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا، جب پاکستان بنا تو اُس وقت والد صاحب پاکستان بننے سے پہلے بینک آف انڈیا (اسٹیٹ بینک) میں ملازم تھے۔ جب پاکستان بنا تو اُس وقت والد محترم کی عمر 30 برس تھی۔ وہ اکثر پاکستان بننے کے واقعات اور لازوال قربانیوں کی داستانیں سنایا کرتے تھے۔ اُن کے انگ انگ میں پاکستان سے محبت بھری پڑی تھی لیکن جب 1971؁ء میں مشرقی پاکستان ہم سب الگ ہوا تو وہ بہت افسردہ ہوئے۔ وہ پاکستان کے کلچر اور نوجوانوں کی بے راہ روی سے بے حد پریشان ہوتے کہ کیا پاکستان اس لیے بنایا تھا۔ اُس ادارے سے اُن کا سب سے بڑا بیٹا اکبر حسین بطور ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن گریڈ22 ریٹائر ہوئے، اُن سے چھوٹے بھائی محمد علی پی ٹی وی اسلام آباد سے ڈائریکٹر فنانس گریڈ22 ریٹائر ہوئے، اُن سے چھوٹے شرافت بھائی اسٹیٹ بینک سے گریڈ18میں گولڈن شیک ہینڈ لے کر ریٹائر ہوئے کیونکہ اُن کی ہیڈانجری ہوگئی تھی اور راقم الحروف مزدوروں کی دُنیا میں کام کرتاہے۔ میں نے زندگی میں کبھی بھی والدِ محترم کے چہرے پر مایوسی نہ دیکھی، ہر وقت اُن کو اللہ ربُ العزت کا شکرگزار پایا۔ خوش و خرم رہا کرتے تھے، والد صاحب کو سفر کرنے کا بہت شوق تھا، میرے دوست چوہدری منور حسین کھنا ریٹائرڈ گروپ انسپکٹر، ذوالفقار علی ملک(گارڈ)، اقبال طاہر (گارڈ)، محمودالحسن(ٹرین مینیجر) والد صاحب کے بہترین دوست تھے۔ اُن کے ساتھ اکثر ٹرین میں سفر کرتے تھے بلکہ حافظ سلمان بٹ صاحب (اللہ ربُ العزت اُن کو صحت کاملہ عطا فرمائے جو کہ آج کل گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں) کہا کرتے تھے کہ شیخ صاحب! حاجی صاحب کیلئے ایک گارڈ بھرتی کرواؤ جوکہ والد صاحب کو خوب سیرکروایا کرے۔ والد صاحب بہت ہی ہنس مُکھ اور شفیق انسان تھے، میرے دوستوں کے ساتھ بھی اُن کی بہت گہری دوستی تھی۔ ہماری طرح ہمارے دوست بھی والد صاحب کو بہت یاد کرتے ہیں۔ یہ لکھنا بجاہوگا کہ آج ہم جو کچھ بھی ہیں اُن کی جوتیوں کی خاک کی بدولت ہیں۔ ماں کی ممتا کی بات تو الگ ہی ہے پر جو بات والد صاحب کی شفقت اور محبت کی ہے اُس کی مثال بھی کہیں نہیں ملتی۔ اگر آپ کے پاس باپ جیسی دولت ہے تو آپ خوش قسمت انسان ہیں اور اگر آپ اُن کی تابعداری کرتے ہیں اور اُن کی خدمت کرتے ہیں تو آپ قابلِ رشک ہیں۔ اگر آپ اس دولت سے محروم ہیں تو پھر بہت زیادہ نیکیاں اور اچھے کام کرنے چاہییں تاکہ مرحوم والدین کو اس کا اجروثواب مل سکے۔ گلستان میں ہر قسم کے ہزاروں پھول کھلے ہوتے ہیں مگر ان میں سے ایک پھول اپنی الگ رنگت اور خوشبو کی وجہ سے منفرد ہوتا ہے کہ جو کہ پہلی نظر میں ہی دل میں اُتر کر روح میں بس جاتا ہے، سورج کے رُخصت ہوتے ہی بے شمار ستارے آسمان کو مزین کرنے پہنچ جاتے ہیں مگر جب نظر آسمان کی طرف اُٹھتی ہے تو سیدھی چاند پر جا کر ٹھہرتی ہے اور چاند کی چاندنی مکمل طور پر نظر کو اپنے حصار میں لے لیتی ہے۔ خوشبوؤں کی دُکان پر جب ہم پہنچتے ہیں تو مختلف قسم کی خوشبوئیں ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں لیکن ہمارے من کو ان بہت سی خوشبوؤں میں فقط ایک خوشبو بھاتی ہے جسے سونگھتے ہی ہمارے جسم میں تازگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ پہاڑوں کی چٹانوں اور سمندروں کی کوکھ میں بے حساب پتھر ہوتے ہیں لیکن ان میں قیمتی چند ایک ہی ہوتے ہیں جیسے گلستان میں ایک پھول الگ ہی ہوتا ہے، آسمان پر چاند کی حیثیت منفردہے، خوشبوؤں میں ایک خوشبو روح میں سرایت کرتی ہے بے شمار پتھروں میں سے چند ایک قیمتی ہوتے ہیں اسی طرح خونی رشتوں میں والد کا رشتہ منفرد ہوتا ہے۔ والد کا ہونا ایک ایسا احساس ہے جو آپ کو زندگی کے ہرمیدان میں سرخروح کرواتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ والدین کاکوئی نعم البدل نہیں ہے۔ان کاوجود ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے جس کے سائے تلے انسان اپنی ساری عمر گزاردیتا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وقت کیسے گزر گیا۔والدین کی دعائیں ہرلمحہ اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان گنت آزمائشوں کوٹالنے کاسبب بن جاتی ہیں۔والد کا ہونا ایک ایسا احساس ہے جو ڈر اور خوف میں تحفظ اور ڈھال کا کام دیتا ہے، جیسے صحراء میں سایہ ہوتا ہے، جیسے شفاف اور میٹھا چشمہ ہوتا ہے ویسے ہی باپ کا رشتہ ہوتا ہے۔ جیسے پھولوں میں گلاب ہوتا ہے، جیسے انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے ویسے ہی باپ کا رشتہ ہوتا ہے۔ زندگی صحرا ہے، کھارا چشمہ ہے، مرجھایا ہوا پھول ہے، سچ تو یہ ہے کہ والدین کے بغیر یہ دنیا ایک قبرستان کی مانند ہے۔ ماں باپ بہت انمول ہیں۔ حکم خدا ہے کہ ان کو اُف تک نہ کہو۔ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ اُنہوں نے مجھے بچپن میں محبت اور شفقت سے پالا تھا۔ قرآن پاک میں اللہ ربُ العزت نے پانچ مرتبہ اللہ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ اللہ ربُ العزت نے فرمایا کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ شکر ادا کرو میرا بھی اور والدین کا بھی، اگر تمہارے پاس والدین میں سے کوئی بھی بڑھاپے کی عمر تک پہنچ گیا ہے تو کبھی اُن کا دل نہ دُکھانا اور کبھی اُنہیں اُف تک نہ کہنا، کبھی چھاتی چوڑی کرکے اُن کے ساتھ بات نہ کرنا۔ کندھے جھکا کر بات کرنا، ادب سے گفتگو کرنا، انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بہت سے رشتے اس کے آس پاس ہوتے ہیں اور وہ سب رشتے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتے ہیں لیکن ایک رشتہ جو مرتے دم تک انسان کے ساتھ رہتا ہے وہ رشتہ ماں باپ کا ہوتا ہے۔ باپ کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ باپ شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت، ٹھنڈک، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا سایہ ہمارے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِ سایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بدقسمت وہ ہے جو ماں باپ کی قدر نہ کرسکا۔ ماں باپ کی قدر تو اُن سے پوچھیں جن کی قسمت میں ماں باپ کی محبت اور شفقت بھری چھاؤں نہیں ہے۔ میں اگر والدین پر ساری زندگی بھی لکھوں تو یہ زندگی کم پڑجائے۔ میں نے اپنے والد محترم کے طرزِ عمل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُنہوں نے ہمیں سکھایا ہے کہ کس طرح ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے انہیں خوشی خوشی ادا کرنا چاہیے۔ ان کی طرف سے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے، میں اور میرے بہن بھائیوں نے بھی ہمیں سونپے ہوئے ہر چھوٹے اور بڑے کام اور ذمہ داری کو دیانتداری سے انجام دیا۔ اگر کنبہ کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا، تناؤ کم ہوگا اور رشتہ خوشگوار ہوگا۔ اس کے برعکس جب لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کو متعدد بار یاد دلانے کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر بھی وہ انھیں پوری نہیں کرتے ہیں، ایسے خاندانوں میں بچوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، گھر والوں کے مابین اکثر تنازعات پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تناؤ کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں ایسے خاندان میں پیدا ہوا جہاں لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کیلئے کافی پختہ ہیں اور ہمیں وہی سکھایا۔ میرے والد نے ہم سب بہن بھائیوں کو اچھی صلاحیتیں دی ہیں اور ہمیں برتری بخشی ہے۔ وہ صرف ہمارے والدین ہی نہیں بلکہ ایک بہت اچھے دوست بھی تھے۔ باپ کی موجودگی سورج کی مانند ہوتی ہے،سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے لیکن اگر سورج موجود نہ ہوتو اندھیرا چھاجاتا ہے، باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے۔ باپ کی عزت کرو تاکہ اس سے فیض یاب ہوسکو۔ باپ کی باتیں غور سے سنوتاکہ دنیا والوں کی نہ سننی پڑیں۔ باپ کے سامنے سرجھکا کر رکھا کرو تاکہ اللہ تم کو دنیا میں بلند کردے۔ باپ کا سخت انداز اور ماں کا دھیمالہجہ ہمارے معاشرے میں گھر کے ماحول کو معتدل اور متوازن رکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ماں باپ ہیں، اگر باپ نہ ہوتو زندگی کی دوڑ میں اچھا مشورہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ماں کی خدمت سے جنت تو مل جاتی ہے لیکن دروازہ اُس وقت کھلتا ہے جب باپ کی عزت کی جائے۔ مفت میں صرف ماں باپ کا پیار ملتا ہے اُس کے بعد دنیا کے ہر رشتے کیلئے کچھ نہ کچھ چکانا پڑتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دُعا گو ہوں کہ اللہ ربُ العزت اُنکا ساتھ انبیاء، صدیقین اور مقربین کیساتھ نصیب فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں تبدیل فرمائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے،تمام گناہوں، خطاؤں اور کوتاہیوں سے درگذرفرمائے،تمام بھلائیوں،نیکیوں اور حسنات کو قبول فرمائے، اپنے سایہ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اے اللہ جن کے والدین اس دنیا سے رخصت فرما گئے ہیں اُن سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما۔ آمین۔ 

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے