تحریر: شیخ محمد انور (ریلویز) 2020
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش تک
مشرقی پاکستان سے علیحدگی کا المیہ
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کو اب 49 برس کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ہر سال 16 دسمبر کے موقع پر مختلف لوگ اس کی علیحدگی کے بارے میں مختلف اسباب و محرکات لکھتے ہیں۔ بعض کے نزدیک صرف بھارت اور روس ذمہ دار ہیں۔ حالانکہ بیرونی طاقتیں اپنے مفاد کیلئے اس وقت سرگرم ہوتی ہیں جب اندرونی معاملات و اضطراب کا نقشہ ان کی صوابدید کے مطابق ہوجائے۔ 16 دسمبر 1971ء پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جس کے پس پردہ جہاں محلاتی سازشیں، اپنوں کی غداریاں، نام نہاد دوستوں کی بیوفائیاں اور دشمنوں کی ریشہ دوانیاں کارفرماتھیں، وہیں ملک عزیز میں عرصہ دراز سے روا رکھی جانے والی ناانصافی نے بھی ایک محرک کے طور پر کام کیا۔ مورخ جب پاکستان کے دولخت ہونے کی تاریخ رقم کررہا تھا تو وہیں محب وطن، اتحاد اسلامی کے داعی اور اسلامی نظام کیلئے جدوجہد کرنے والے افراد کی طرف سے پیش کی جانے والی لازوال قربانیوں کے مناظر بھی دیکھ رہا تھا۔ یہ ہماری تاریخ کا وہ روشن باب ہے جسے ہمارا میڈیا قوم کے سامنے لانے سے کتراتا رہا ہے حالانکہ یہ ان افراد کے تذکرے پر مبنی ہے جنہوں نے آخری لمحات تک اپنے لہو سے نظریہ پاکستان کی آبیاری کی اور جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں پر ہر اول دستے کے طور پر کام کیا۔ آج نوجوانوں کی اکثریت شاید البدر بنگال کے کسی ایک شہید کے نام سے بھی واقف نہ ہو۔ یہ تو ہمارے میڈیا اور محب وطن قلمکاروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئی نسل کو ان بیدار مغز، باہمت اور باکردار نوجوانوں کی قربانیوں سے آگاہ کریں جنہوں نے نظریہ پاکستان کے تحفظ کیلئے اپنی جان و مال قربان کردی تاکہ آج کے نوجوان انہی کرداروں کو اپنا آئیڈیل بنا کر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوجائیں۔ 16 دسمبر سقوط ڈھاکہ کا سانحہ پاکستانی قوم کیلئے ایک عظیم المیہ تھا، غیرت کا تقاضا تھا کہ قوم اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتی جب تک ہندو کانگریس سے جس کی قیادت برہمنوں کے ہاتھ میں ہے انتقام نہ لے لیتی لیکن قوم نے اس سانحہ کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ اللہ ربُ العزت کا یہ احسان عظیم ہے کہ اللہ ربُ العزت نے ہندو کو مکمل کامیابی سے ہمکنار نہ کیا اور تقسیم بنگال کی منسوخی کے سانحہ کی طرح اس میں بھی اسے جزوی کامیابی حاصل ہوئی اگرچہ ملت اسلامیہ یا پاکستانی قوم کو جو نقصان پہنچنا تھا وہ پہنچ چکا تھا۔ تقسیم بنگال کی منسوخی کیلئے ہندوؤں نے جس دہشتگردی کا مظاہرہ کیا تھااس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی لیکن اس تقسیم سے ہندو کا مقصد اول و آخر برصغیر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچانا تھا۔ تقسیم بنگال کی تنسیخ سے ہندو کو بنگال اس حالت میں نہ ملا جس حالت میں وہ تقسیم سے قبل تھا بنگال سے بہار، اریسہ آسام اور اس کا پہاڑی علاقہ اس سے الگ کردیا گیا تھا لیکن قیام پاکستان سے پھر سے بنگال میں ایک مسلم اکثریت کا صوبہ وجود میں آگیا تھا اور مشرقی پاکستان کا قیام ہندوؤں کے سینے پر ہر وقت مونگ دلتا تھا۔ اس لیے انہوں نے مشرقی پاکستان کو چاروناچار تسلیم کرلیا بطور ایک الگ ریاست کے لیکن اس کے خلاف ہندوکانگریس کی سازشیں متواتر جاری رہیں حتیٰ کہ یہ علاقہ ایک نئے ملک کے طور پر وجود میں آگیا اس سے پاکستان آدھا رہ گیا لیکن وہ علاقہ ہندو کا تابع مہمل بھی نہ بنا اور بدستور مسلم امہ کے دھارے سے منسلک رہا اور اس طرح اندراگاندھی کے اس دعویٰ کی تردید ہوگئی کہ ”دوقومی نظریہ کو بحرہند میں غرق کردیا گیا ہے“۔ 16 دسمبر ہماری تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے کہ جب 1971ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو ایک بین الاقوامی سازش کے تحت دولخت کردیاگیا اور ہم تاریخی حقائق کو جانتے ہوئے بھی شخصیات اور اداروں پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں اور اُس عظیم المیے سے سبق حاصل کرکے اپنا قبلہ درست کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یوم سقوط مشرقی پاکستان آج کا دن قوم کو وارننگ کا دن ہے۔ آج کا دن کشمیر کے مظلوم انسانوں کو یاد کرنے کا بھی دن ہے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آج کا پاکستان ہی وہ حقیقی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا، جس کی تشریح چوہدری رحمت علی نے کی اور جس کو حقیقت کا روپ برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے جام شہادت نوش کرکے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں دیا۔ 1965ء کی جنگ ستمبر میں پاکستان کے عوام کے مثالی اتحاد جذبہ حب الوطنی اور پاکستان کی مسلح افواج کی بہادری نے ملک دشمنوں کو ایک بار پھر جمع کیا اور یہودی سامراج کو فکرلاحق ہوئی کہ 10کروڑ مسلمانوں (1965ء میں متحدہ پاکستان کی آبادی 10 کروڑ تھی) کا یہ جذبہ حب الوطنی اور مسلح افواج کے تقدس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت مستقبل میں ہمارے لیے خطرہ ہے چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت نہیں رہنا چاہیے۔ اس لیے ملک کو توڑ دیا جائے۔ پاکستان کے مشرقی صوبے میں غربت کی وجہ سے جو احساس محرومی پیدا ہوئی ہے اسے مزید ہوادی جائے۔ اربابِ اختیار دن رات اقتدار کے نشے میں چور رہتے تھے اور اسی وجہ سے وہ ملکی معاملات کو چلانے کی صلاحیت سے عاری ہوچکے تھے اور ہماری شکست کی ایک بڑی وجہ ہماری قیادت کی یہی بدکرداری تھی جس کا ہمارے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور ہم پستیوں میں گھرتے چلے گئے حتیٰ کہ اپنا ایک بازو گنوا بیٹھے۔ آج 49 سال گزرنے کے بعد جب ہم موجودہ حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں انداہ ہوتا ہے کہ آج ایک بار پھر ہم اُسی صورتحال کا شکار ہوچکے ہیں جیسی 1971ء میں تھی۔ افسوس کہ قوم نے قائد اعظمؒ کی اس نصیحت پر کان نہ دھرے اور ملک کا ایک حصہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے، اب یہ بحث فضول ہے کہ اس علیحدگی کا ذمہ دار کون تھا۔ علیحدہ ہونے والے اور علیحدہ کرنے والے آج یکساں طور پر مشکلات میں گرفتار ہیں۔ اب پھر سے ایک ہونے کا دور ہے اور مسلمان تو ایمان کے اشتراک کے ناطے سے ایک ہیں چاہے وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں بھارت خود ٹکڑے ٹکڑے ہورہا ہے۔ 1971ء میں بھی امریکہ نے پاکستان کو ساتویں بحری بیڑے کی آڑ میں دھوکہ دیا تو آج بھی ہم اُسی امریکہ کی گود میں بیٹھے ہیں اور وہ ہمارے ہی فوجی جوانوں کو خاک و خون میں نہلا رہا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا دلخراش واقعہ امت مسلمہ کی تاریخ میں سقوط غرناطہ کے بعد بدترین واقعہ ہے جس نے مستقبل پر بہت گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے اگر ہم آئندہ ایسے واقعات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں فوری طور پر امریکی گود سے نکل کر آزادانہ داخلہ و خارجہ پالیسیاں تشکیل دینا ہونگی کیونکہ آج تک پاکستان کو ملنے والے کم و بیش تمام ہی دکھ واشنگٹن سے ہی ہو کر آتے ہیں۔