تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
وادی کاغان کا یادگار سفر
وادی کاغان کو خوبصورت اور پرسرار جھیلوں کی ملکہ کہاجاتا ہے۔
ہم چار بھائیوں اور ہمشیرہ کی فیملی نے وادی کاغان کے سفر کا پروگرام بنایا۔ ہم اپنی پانچ گاڑیوں میں لاہور سے صبح 6 بجے روانہ ہوئے اور تقریباً شام کو 5 بجے مانسہرہ سے ہوتے ہوئے بالا کوٹ پہنچ گئے۔ بالا کوٹ کے مقام پر دریا کا پانی پورے زوروشورسے بہہ رہا تھا۔ رات ہم نے ایک مقامی ہوٹل میں گزاری، وہاں کی مشہور چپلی کباب اور خمیری روٹی کھائی اور ایسا ہاضمے دار پانی کہ تھوڑی دیر بعد ہی کھانا ہضم ہوگیا۔ ہوٹل والوں نے ہماری قہوے سے تواضع کی، رات کو ہم نے اسی ہوٹل میں قیام کیا اور صبح اُٹھ کر ہم اپنی منزل شوگراں کیلئے روانہ ہوگئے۔ شوگراں وہ مقام ہے جسے ایشیاء کا سویٹزرلینڈ بھی کہاجاتا ہے۔ شوگراں پہنچنے پر ہم نے ہوٹل میں سامان رکھا اور وہاں سے جیپیں لے کر ہم سری پائے کیلئے روانہ ہوگئے۔ اللہ ربُ العزت میرے والد محترم کی مغفرت فرمائے جب ہم دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے سری پائے پر پہنچے تو والد صاحب نے کہا کہ بیٹا جاؤ اور میرے لیے سری پائے لے کر آؤ۔ میرے بہنوئی جو کہ آج اس دنیا میں نہیں ہیں اُنہوں نے کہا کہ ابا جی یہاں پر سری پائے نہیں ملتے یہ تو جگہ کا نام ہے۔ والد صاحب نے مجھے ڈانٹا کہ اتنے خطرناک راستے پر مجھے کیوں لے کر آئے ہو؟ میں تو سمجھا تھا کہ یہاں پر سری پائے ملیں گے۔ تم نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ شام تک ہم نے سری پائے پر وقت گزارا اور واپس شوگراں آکر ہوٹل میں قیام کیا۔ کمروں میں ہیٹر ہونے کے باوجود بہت ٹھنڈ تھی۔ اگلے دن ہماری منزل ناران تھی، کاغان میں ہم نے ناشتہ کیا اور ایک گھنٹے بعد ناران کیلئے روانہ ہوگئے۔ راستے میں خوب یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھیں، نومبرکا مہینہ ہونے کی وجہ سے شدیدٹھنڈ تھی۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم ناران پہنچ گئے اور ناران میں ہم نے ہوٹل میں قیام کیا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد ہم جیپوں کے ذریعے جھیل سیف الملوک چلے گئے اور جھیل سیف الملوک بھی قدرت کا شاہکار ہے۔ دن بھر ہم نے جھیل سیف الملوک کی سیر کی اور شام ہوتے ہی ہم دوبارہ ناران آگئے۔ اگلے روز ہم لالہ زار کیلئے روانہ ہوئے، ڈائیور نے سفر سے پہلے ہی بتادیا کہ لالہ زار کا سفر بہت خطرناک ہے، یہ سنتے ہی میں نے اپنے بھائیوں کے بچوں کو الگ الگ گاڑیوں میں بٹھادیا، میرے بھائی اور والد صاحب کہتے رہے کہ تم یہ کیا کررہے ہو، لیکن میں نے کچھ نہ بتایا۔ دراصل اس کے پیچھے ایک خوف تھا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو پوری فیملی کا نقصان نہ ہو۔ تھکا دینے والا اور پُرخطر سفر کرنے کے بعد ہم لالہ زار پہنچے۔ وہاں پر بہت ٹھنڈاموسم تھااور ہرطرف بلند و بالا چیڑ کے درخت شاں شاں کررہے تھے۔ قدرت کی رعنائیاں دیکھنے کی جگہ ہے، اللہ ربُ العزت نے سچ کہا کہ تم میری کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ شام کو واپس ناران آگئے اور اگلے دن بابوسرپاس کیلئے روانہ ہوگئے۔
وادی کاغان کو جھیلوں کی سرزمین کہاجاتا ہے۔ اس لحاظ سے بھی وادی کی اہمیت سے انکار مناسب نہیں ہے۔ وادی کی جھیلوں میں سے ایک خوبصورت اور قابل دید جھیل لولوسر ہے۔ ہندکو زبان میں لولو کا مطلب لمبی چیز کو کہتے ہیں۔ جبکہ سر سے مراد چوٹی کے ہیں۔ جھیل لولوسر کی لمبائی تقریباً 3 کلومیٹر ہے۔ جھیل کی اس قدر لمبائی کی بناء پر اس کو لولوسر کا نام دیا گیا ہے۔ جھیل لولوسر سب سے بڑی اور طویل جھیل ہے۔ ناران سے جھل کھڈ کا فاصلہ تقریباً 50 کلومیٹر ہے جبکہ جھل کھڈ سے جھیل لولوسر کا فاصلہ 15 کلومیٹر ہے اور اس سفر کو طے کرنے کیلئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے۔ جھیل لولوسر تک پہنچنے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ جھل کھڈ کے مقام سے روانہ ہوئے تو میرے تجسس کا پیمانہ اس لیے بھی لبریز تھا کہ جھیل تک جانے والا کچا اور ناہموار ٹریک گلگت تک پہنچتا ہے۔ جھیل کی طرف جاتے ہوئے دائیں جانب بلندوبالا اور برف سے ڈھکے ہوئے خطرناک پہاڑ ہیں اور بائیں جانب خوفناک گہرائی جس میں دریا کنہار بہہ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سطح سمندر سے بلندی نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیا۔ سڑک پر تنگ اور خطرناک موڑ سفر کو مزید پرہیبت بنارہے تھے۔ منظر بدلتے گئے، ٹریک محدود، راستہ ناہموار سفر کو اور بھی زیادہ ہیبت ناک بنارہا تھا۔ ڈرائیور ہر لمحے احتیاط برت رہا تھا کیونکہ آنکھ جھپکنے میں بھی احتیاط کی ضرورت تھی وگرنہ کہیں سے کہیں۔ تجربہ کار ڈرائیور کے بقول اس راستے کا ٹریک وادی کاغان کے تمام راستوں سے چھوٹا، مشکل اور خطرناک ہے۔ ان کے بقول جھیل لولوسر کی طرف سفر کرنا سوئی میں دھاگہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ گویا کہ یہ انتہائی مشکل سفر تصور کیاجاتا ہے۔ اس راستے پر سفر کرنا واقعی دل گردے کا کام تھا، جوں جوں آگے بڑھتے گئے میرے گھر والے حیران و پریشان ہونے لگے۔ راستے میں ڈرائیور نے اپنی، میری اور میرے گھر والوں کی ہمت باندھی، ہم سب مسلسل سفر کی دُعا پڑھتے جارہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں بذات خود بہت خوفزدہ ہوگیا تھا، ہمارے ہمراہ 4 جیپیں تھیں، میں نے اپنے تینوں بچوں اور اہلیہ کو الگ الگ جیپ میں بٹھایا اور یہی ترتیب میں نے اپنے بھائیوں کے بچوں میں بھی رکھی تاکہ خدانخواستہ کوئی حادثہ ہوجائے تو کوئی نہ کوئی فیملی کا ممبر بچ جائے۔ یہ الفاظ لکھنے کے بعد بھی یہ احساس ہونے لگا ہے کہ میں جھیل لولوسر کے حسن و رعنائی کا ذکر کررہا ہوں یا سیاحوں کو اس کے ہیبت ناک مناظر سے ڈرا رہا ہوں۔ راقم نے جھیل لولوسر کے حوالے سے اپنے گھر والوں کے تذبذب کا جو حال بیان کیا ہے وہ تو سفر اور زندگی کا استعارہ ہے۔ دوران سفر ایک عجیب نکتہ سمجھ میں آیا کہ انسان آخر کتنا کمزور ہوتا ہے جو اتنے بڑے بڑے دعوے کرتا ہے مگر جب خطرے اور پریشانی میں ہوتا ہے تو کتنا عاجز ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی انسان اللہ پاک کی پناہ کو اپنے لیے نعمت تصور کرتا ہے اور اس کے فضل و کرم کو اپنی زندگی کی سلامتی سمجھنے لگتا ہے۔ البتہ خوشی کے عالم میں اس قادر مطلق کو بھول جاتا ہے اور اپنا مقصد حیات چھوڑ دیتا ہے جو کہ انسان کے فطری جذبے کے برعکس ہے۔ تاہم انسان کو ہر حال میں اسی وحدہ لاشریک سے اپنی لولگانی چاہیے۔ ہمیں شب و روز اس کی اطاعت میں گزارنے چاہییں اور ہر آن ہر گھڑی اس کے فضل و کرم کا طلبگار ہونا چاہیے۔ حقیقت میں انسانی زندگی کا مقصد بھی یہی ہے اور الحمدللہ راقم الحروف اس حقیقت کا قائل ہے۔ جھل کھڈ سے تقریباً 7 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مقام ”بیسل“ آتا ہے۔ یہ گاؤں قبائلی لوگوں کا مسکن ہے۔ ہم جب گاؤں میں سے گزرے تو اس وقت یہاں ایک جرگہ لگا ہوا تھا اور پنچائیت کسی فیصلے میں مصروف تھی۔ بیسل سے تھوڑے فاصلے پر ایک خوبصورت چشمہ بہتا ہے جو راستے کو کاٹتا ہوا دریائے کنہار میں گرتا ہے۔ ہماری جیپ اس چشمے سے ذرا فاصلے پر تھی کہ ایک چھوٹا سالڑکا بھیڑوں کا ریوڑ لے کر آرہا تھا۔ بھیڑیں راستے میں چل رہی تھیں جس کی وجہ سے ہماری گاڑی آگے نہیں جاسکتی تھی۔ بھیڑوں کے ساتھ جو چرواہا تھا اُس نے بھیڑوں کو سائیڈ پر کیا اور ہماری گاڑی آگے چلی۔ جھل کھڈ سے چلتے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم جھیل لولوسر پہنچے۔ جھیل لولوسر سطح سمندر سے تقریباً 1400 فٹ بلند ہے۔ جھیل کا پانی اپنے اندر ایک بھرپور کشش رکھتا ہے اور یہ اپنی طرف مائل کرتا ہے۔ پانی میں اس حد تک کشش ہے کہ انسان پانی کے قریب جانے سے ڈرتا ہے۔ جھیل کے کناروں پر رنگ برنگے پھول اس کے حسن اور کشش میں اضافہ کرتے ہیں۔ جھیل کے کنارے پر جھکے ہوئے پھولوں کا عکس جھیل پر پڑتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے سیاہ رنگ کی چادر میں بے شمار رنگین نگینے جڑ دئیے گئے ہوں۔ جھیل لولوسر سے بابوسرٹاپ کا فاصلہ تقریباً 11 کلومیٹر ہے اور تقریباً 1 گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ جھیل کے مشرقی کنارے کے ساتھ ساتھ 2کلومیٹر ”گیٹی داس“ سے ہوتی ہوئی سڑک بابوسرپاس تک پہنچتی ہے۔ آگے شمالی علاقہ جات یعنی نادرن ایریا شروع ہوجاتا ہے یعنی چلاس ور گلگت کے علاقے آتے ہیں۔ جھیل پر مختصر قیام کے دوران ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ یہ کھانا ہم ناران ہوٹل سے تیار کروا کر ساتھ لائے تھے۔ جھیل کے گردونواح میں آبادی کا کوئی تصور نہیں ہے بلکہ دور دور تک پرسکون ماحول، عجیب و غریب اداسی اور سناٹا انسان کے دل و دماغ پر ایک خوف طاری کردیتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں غیر انسانی مخلوق کا بسیرا ہے۔ جھیل کے آس پاس پہاڑوں کے تنگ اور بڑے بڑے پتھروں میں پڑے ہوئے شگاف عجیب ہیبت کا پتہ دیتے ہیں۔ کالے اور پھٹے ہوئے پہاڑوں کے نیچے پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یوں رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے کسی گرتی ہوئی چیز کو ٹیک لگادی گئی ہو۔ ان کی طرف دیکھنے سے لگتا ہے یہ ابھی گرنے والے ہیں۔ ان کے گرنے کا خطرہ لمحہ بھر میں پیدا ہوجاتا ہے۔ پہاڑوں کی ہیبت میں عجیب و غریب شکلیں دکھائی دیتی ہیں۔ جھیل کے ارد گرد بڑی قیمتی قسم کی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ حکماء اور سنیاسی لوگ اکثر جڑی بوٹیاں لینے یہاں آتے ہیں۔ یہاں ایک ایسا پودا بھی پایا جاتا ہے جسے سونگھ لیا جائے تو آدمی فوراً بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اس پودے کو ”چاؤ“ کہتے ہیں۔ مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ یہاں جھیل پر اکثر اوقات پریاں اترتی ہیں۔ یہ سب باتیں سن کر یہاں کا ماحول اور بھی زیادہ سحرانگیز لگتا ہے۔ اس کے اطراف کا یہ عالم ہے کہ یہاں خاموشی کے ڈھیرے ہیں اور عجیب تصورات کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ وادی کی جانب آنے والے اکثر سیاح صرف جھیل سیف الملوک اور ناران کو ہی وادی کاغان سمجھتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ بیشتر خوبصورت مقامات ان کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ جھیل سیف الملوک اور ناران وادی کی سیاحت میں مرکزی کردار ہیں تاہم سیاحوں کو وادی کے دیگر مقامات جن میں جھیل لولوسر، جھیل دودی پت سر، جھیل جھل کھڈ، نوری ٹاپ اور وادی کا آخری مقام بابوسرپاس شامل ہیں ضرور دیکھنے چاہییں اور قدرت کی رنگینیوں سے مزین ان مقامات سے کماحقہ لطف اندوزی حاصل کرنی چاہیے۔ اس جھیل کا پانی گہرا زمرد اور سیاہی مائل رنگت کا حامل ہے۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کی ایک اندھی بیٹی نے لولوسرجھیل کے پانی سے اپنی آنکھیں دھوئیں تو اس کی بینائی لوٹ آئی تھی۔ سردیوں میں یہ جھیل برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے جبکہ گرمیوں میں برف مکمل طور پر ختم تو نہیں ہوتی بلکہ پہاڑوں پر قدرے بچ جاتی ہے جس کی بناء پر موسم بہت خوشگوار رہتا ہے۔ جھیل لولوسر سے تقریباً 7 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت چشمہ آتا ہے چونکہ یہ چشمہ راستے میں سے گزرتا ہے اس لیے اس پر سے گزرنا ضروری تھا۔ جہاں سے چشمے کا پانی بہہ رہا تھا وہاں پتھر ہی پتھر پڑے تھے۔ یہاں سے گزرتے ہوئے ہماری جیپ پتھروں کے دوران پھنس گئی اور ممکن تھا کہ گاڑی پھسل جاتی اور۔۔۔۔۔ ڈرائیور نے خوب زورآزمائی کی مگر گاڑی نہ نکل سکی۔ یہاں ایک زبردستی خاموشی کا اندازہ پہلی بار ہوا جس نے بعد میں ہمیں ایک طوفان اور خوف و ہراس کی طرف اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہمارے حوصلے پست ہوگئے اور ہم پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ ڈرائیور نے دیگر جیپوں کا انتظار کیا۔ دوسری دو جیپوں کے آجانے سے ہم سب کے حوصلے قدرے بلندہوگئے۔ ڈرائیور نے اپنی تکنیکی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے جیپ کو باہر نکالا۔ باقی سفر بھی احباب نے کافی پریشانی میں گزارا۔ جھیل لولوسر کا سفر راقم الحروف کی سیاحتی زندگی کا ایک شاندار اور حیرت انگیز سفر تھا اور یہ سفر ایک یادگار تجربہ اور ناقابل فراموش حیثیت اختیار کرگیا۔ ہماری ساری فیملی اس سفر سے خوب لطف اندوز ہوئی۔ میری فیملی کے حوالے سے بھی یہ سفر ایک شاندار اور دلفریب سفر تھا۔