باغوں کا شہر کوڑے کا ڈھیر
صوبائی دارالحکومت لاہور کے کچرے کا کیا بنے گا؟
شیخ محمد انور
ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں آبادی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچوا ں بڑا ملک بن چکا ہے۔ جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے ہی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی سے لے کر پشاور تک ملک کے بڑے شہروں میں کچرے کا مسئلہ کبھی بھی صحیح معنوں میں حل نہیں ہو سکا ہے۔ ملک کے جس بھی بڑے شہر کی طرف نظر دوڑائیں توکچرے کے حوالے سے صورتحال مخدوش ہی نظر آتی ہے۔ اگر صوبائی دارالحکومت لاہور کی بات کریں تو گزشتہ چند ہفتوں سے پورا شہر کوڑے دان کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہر میں صفائی ستھرائی کی صورتحال دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ جس شہر میں صوبے کیا وزیر اعلیٰ اور گورنر بیٹھے ہیں وہاں یہ صورتحال ہے تو دیگر شہروں کی کیا حالت ہو گی؟
2011ء میں لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے قیام سے پہلے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور شہر میں صفائی کے فرائض انجام دے رہی تھی لیکن لاکھوں افراد کی آبادی پر مشتمل اس شہر میں ایک مربوط ویسٹ مینجمنٹ سسٹم کی کمی تھی۔ اس مقصد کے تحت تجربات کا ایک سلسلہ شروع ہوا اورمارچ 2008ء میں پہلا پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ بنایاگیا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 26 دسمبر 2010ء 2010 ء کو ایک غیر ملکی کمپنی آئیس ٹیک کو کروڑوں روپے کے عوض 18 ماہ کیلئے کنسلٹنٹ مقرر کیا۔ 25 جون 2011ء کو ایک معاہدے کے تحت اربوں روپے کے وسائل سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے حوالے کیے۔ اس کے بعد 2012ء میں ہی دو ترک کمپنیوں البراک اور اوزپاک کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ ان ترک کمپنیوں نے 2012ء سے لے کر 2020ء کے اختتام تک شہر سے کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کام جاری رکھا لیکن معاہدہ ختم ہونے سے قبل ہی لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی اور ترک کمپنیوں کے درمیان تنازع کے باعث مسئلہ پیدا ہوا۔ دسمبر 2020ء میں کچرا نہ اٹھایا جانے کے باعث مسائل نے جنم لیا اور اسی طرح سال 2019ء میں بھی دسمبر کے آخر میں جب کچرا اٹھانے والی کمپنیوں نے عدم ادائیگی پر انکار کر دیا تھا تو بھی یہی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ ان کمپنیوں نے خوب منافع کمایا مگر ان کے ساتھ معاہدے میں جو بات طے ہوئی تھی وہ کسی بھی طور پوری نہیں ہو سکی۔ بظاہر دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے ہاں مینجمنٹ کا فقدان ہے۔ اسی وجہ سے ہم آج تک کروڑوں روپے کا معاہدہ کرنے کے باجود ان کمپنیوں سے بلیک میل ہوتے رہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی کب تک لاہور شہر کو زیرو ویسٹ بنانے کے چھوٹے دعوے کر تی رہے گی؟صوبائی وزیر میاں اسلم اقبال نے بھی لاہور شہر کو زیرو ویسٹ بنانے کی کوشش کر لی ہے اور ا ن کی طرف سے دی جانے والی ڈیڈ لائن 15جنوری بھی گزر چکی ہے لیکن شہر کے مختلف علاقوں میں لگے کوڑے کے ڈھیر لمحہ فکریہ ہں۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے سیاستدانوں سے جب کوئی کام احسن طریقے انجام نہ دیا جا سکے تو پچھلی حکومت پر ملبہ ڈال کر فوراً بری الذمہ ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پچھلی حکومتوں نے تو جو کچھ کرنا تھا کر لیا، اب تو پاکستان تحریک انصاف کے پاس حکومت ہے۔ہیں، انہی لوگوں کے پاس اختیار ہے۔ اگریہ لوگ بے بسی اور ٹال مٹول کے بیانات کے ذریعے وقت گزارنے کی کوشش کرینگے تو پھر عوام کس مسیحا کی طرف دیکھیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل سیاستدان کچھ اور کہتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ان کے تیور ہی بدل جاتے ہیں۔ دنیا ترقی کر رہی ہے اور ہم ابھی تک ماضی کی حکومتوں کو کوسنے کے حوالے کچھ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ عوام کا یہی ایک سوال ہے کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ہمارے بنیادی مسائل حل ہوں گے لیکن اب حقیقت یہ ہے کہ مسائل حل ہونے کے بجائے ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق ملک میں سالانہ قریباً چار کروڑ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ ملک کے بڑے شہروں میں تو کوڑا کرکٹ کے حوالے سے مسائل زیادہ ہیں۔ لاہور میں روزانہ 7 ہزار 510ٹن، کراچی میں 9 ہزار نوسو، پشاور میں 2 ہزارٹن، راولپنڈی میں 4ہزار چار سواور کوئٹہ میں 1250 ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہم آج تک اس طریق کار کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کے ذریعے دنیا کچرے کو کارآمد بناکر منافع کما رہی ہے۔ شہر قائد سے روزانہ کی بنیاد پر جتنا کچرا اکٹھا ہوتا ہے اس قریباً چار سو میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کچرے سے نامیاتی کھاد بھی بنائی جا سکتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک کچرے کو ری سائیکل کر کے متبادل توانائی کے طور استعمال کر رہے ہیں۔ ہم مگر سوائے بے بسی اور باتیں کرنے کے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اب تو ہمیں غیر ملکی کمپنیوں کی محتاجی کے بجائے خود جدید نظام کے ذریعے کچرے کو کام لانا چاہیے تھا۔
ضرورت ہے تو وہ صرف موثر طریقے سے ویسٹ کی مینجمنٹ کرنے کی۔ مگر ہماری حکومت اس طرف توجہ دے رہی ہے اور ناہی ماضی کی کسی حکومت نے اس طرف توجہ دینے کی کوشش کی ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ کو درست خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ ویسٹ مینجمنٹ میونسپل کمیٹی کے ذریعے کرایا جائے تو زیادہ بہتر ہے مگر ایسا نہیں کیا جا رہا۔ ہم اسے غیر ملکی کمپنیوں کے سپرد کرکے کروڑوں روپے کا زیاں کیا ہے۔ ایک طرف ہم توانائی کے بحران سے کسی بھی صورت باہر نہیں آ پا رہے تو دوسری ماحولیاتی آلودگی کے الگ سے مسائل ہیں۔ اب تو سردی ہے اس لیے گزارا ہو رہا ہے۔ جب موسم گرما کا آغاز ہو گا تو ساتھ ہی بجلی کی آنکھ مچولی بھی شروع ہو جائے گی۔ اس لیے اگر کوڑے کو ری سائیکل کر کے توانائی پیدا کی جا سکتی ہے تو اس سے ناصرف بجلی کے بحران سے جان چھوٹے گی بلکہ شہری جو گندگی اور کچرے کے ڈھیروں کے باعث پیدا ہونے والے تعفن سے پریشان ہیں ان کی بھی جان خلاصی ہوگی۔