تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2023ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
مینارِ پاکستان پر چڑھی گرد ہمیں یہ بتارہی ہے کہ ”جو قومیں اپنا ماضی اور تاریخ بھول جاتی ہیں تاریخ انہیں بھلا دیتی ہے“
نہ تُو زمیں کے لیے ہے نہ آسمان کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تُو نہیں جہاں کے لیے
23 مارچ 1940ء کا دن تاریخِ پاکستان میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، صرف تاریخِ برصغیر میں ہی نہیں بلکہ تاریخِ عالم میں بھی ایک سنگ میل کی حاصل رکھتا ہے اور یہ ایک تاریخی دن ہے جب قیام پاکستان کیلئے لاہور کے منٹوپارک میں قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں مسلم لیگ نے قرار دادِ پاکستان منظور کی۔ یہ قرارداد شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی۔ اس قرارداد میں پورے برصغیر سے لاکھوں افراد شریک ہوئے تھے۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جو مسلم اکثریتی اور جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ان کی حد بندی ایسے کی جائے کہ وہ خودمختار آزاد مسلم ریاستوں کی شکل اختیار کرلیں۔ قرارداد کے مطابق جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں انہیں آئین کے تحت مذہبی، ثقافتی، سیاسی، اقتصادی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کے تحفظ کی ضمانت دی جائے کیونکہ ہندوستان کا موجودہ آئین مسلمانوں کے حقوق پورے نہیں کرتا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حالات بہت مشکل اور صبر آزما ہیں لیکن قوموں کی تاریخ میں ایسے مرحلے آتے رہتے ہیں جب امید کی شمع بجھنے لگتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی تاریکی اب کبھی ختم نہیں ہوگی لیکن شب سیاہ اپنے ساتھ ہمیشہ ایک صبح نو کا پیغام لاتی ہے کیونکہ یہی نظام قدرت ہے۔ 23 مارچ 1940ء کا دن پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا گیا ہے۔ 1940ء میں برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیا جس میں مسلمانوں کے اکثریت والے علاقوں پر مشتمل علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ شامل تھا۔ 1857ء سے لے کر 1940ء تک برصغیر کے مسلمانوں نے ایک نظریے کیلئے بے بہا قربانیاں دیں لیکن اپنے ابدی اصولوں کو نہ چھوڑا۔ مسلمان معاشی بدحالی کا شکار ہوئے لیکن اُنہوں نے اپنی عزت نفس کو مجروح نہ کیا۔ اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان اپنے حقوق کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنی اہمیت کا ہندوؤں اور انگریزوں کو احساس دلائیں تو پھر تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال کے عظیم خطبہ الٰہ آباد 1930ء جس میں اُنہوں نے مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کی تجویز پیش کی تھی اس کے دس سال بعد عملی جامہ پہنانے کا دن آگیا۔ اگر انگریز ہندوستان سے چلے جاتے تو پھر اقتدار ہندوؤں کو ہی ملتا اور مسلمان ہمیشہ ہندوؤں کی غلامی میں رہتے۔ دونوں الگ الگ قومیں ہیں، دونوں کے مذہب، رہن سہن، ثقافت اور ہر شعبہ الگ ہے۔ ایسے میں ان کا ملاپ یا اکٹھے رہنا ناممکن تھا۔ اسی پس منظر میں 23 مارچ 1940ء کو برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے الگ وجود کا احساس ہندوؤں اور انگریزوں کو دلانا تھا۔ یہی ہمارا دو قومی نظریہ ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور اسی پر پاکستان قائم و دائم ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اس غلط فہمی کی تردید کی کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومیت کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک قوم ہیں۔ ہندو اور مسلمان کبھی متحد نہیں رہ سکتے۔ انگریز کے جانے کے بعد یہ مصنوعی اتحاد ختم ہو جائے گا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ صرف قرار داد تھی لیکن ہندوؤں نے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ اس دن کو اہمیت اور مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس دن تمام مسلمان ایک قوت اور تحریک کے طور پر اکٹھے ہوئے تھے اس سے پہلے ان کی کوئی سرزمین نہیں تھی جہاں وہ اپنے عقیدے اور اپنے مذہب کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کرسکیں اور ایسی سرزمین کے حصول کی لگن نے انہیں یکجا کردیا تھا اور یہ قوم ایک ہی قائد کی سربراہی میں پروان چڑھ رہی تھی یہ دن یہ وقت جسے تمام دنیا نے ایک خواب کی تعبیر میں ڈھلتے ہوئے دیکھا وہ دن وہ وقت 23 مارچ کا تھا اس دن کا حال ایسا تھا جیسا ہمارے اسلام نے ہمیں درس دیا ہے۔ اسلام نے تمام قسم کی فرقہ واریت کو پس پشت ڈال دیا اور رنگ، نسل اور زبان کے فرق کو ختم کر دیا۔ اس دن کوئی سندھی، پنجابی، بلوچی اور پٹھان نہیں تھا بلکہ سب مسلمان تھے اور ایک اللہ کو ماننے والے اور اسی کے پیروکار تھے۔ مسلمان برصغیر پاک و ہند میں ایک فاتح کی حیثیت سے آئے تھے۔ یہاں اپنی سلطنت قائم کرنے کے بعد اُنہوں نے بڑی رواداری کا مظاہرہ کیا اور مقامی لوگوں کی نہ تو تذلیل کی اور نہ ہی اُن سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا۔ دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں مسلمان آٹھ سو سال حکمران رہے اور اس عرصہ میں نہ تو اُنہوں نے ہندوؤں کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھ سو سال حکومت کرنے کے باوجود وہ یہاں اقلیت میں رہے۔ قرار داد پاکستان ہی وہ آغاز تھا جوبالآخر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر صرف سات سال کے عرصے میں وجود میں آیا اور پوری آب و تاب کے ساتھ چمکا۔ لوگ آزادی کی خوشی میں سب کچھ بیچ کر جانیں گنوا کر جب اس زمین پر پہنچے تو دنیا نے بھائی چارے کی ایک اور مثال قائم ہوتے دیکھی۔ آج اس جگہ اس یاد کیلئے مینار پاکستان قائم ہے۔ پاکستان قائم ہوا تو شاید لوگوں کے ساتھ ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ جنگ کسی حد تک ختم ہوگئی اور لوگ آزاد ہوگئے۔ ہر طرف اسلام کا بول بالا ہوگا، ہر طرف ایک آواز ہوگی کہ ہم پاکستانی ہیں۔ لیکن ان لمحات میں شاید آسمان ہنسا ہوگا اور اس کی ہنسی آج پاکستان کے ہر درودیوار سے ٹکراتی محسوس ہورہی ہے۔ جو لوگ کل تک پاکستان کیلئے مر مٹنے کیلئے تیار تھے اور مر رہے تھے وہ ہی آج پاکستان کے حصول کو غلط ٹھہرا رہے ہیں، جو لوگ کل تک صرف پاکستانی تھے وہ آج، سندھی، بلوچی، پنجابی اور پٹھان ہیں۔ آج پنجاب کی حکومت بس پنجاب کی حکومت ہے، بلوچستان میں کیا ہورہا ہے ہم نہیں جانتے۔ ہم نے فرقہ واریت کو دوبارہ سے اپنا کراور غفلت میں سو کر مشرقی پاکستان کھو دیا لیکن اس کے باوجود ابھی تک ہماری آنکھیں نہیں کھل رہیں۔ ہم ایک دوسرے کیلئے مر نہیں رہے بلکہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ مرنے والے بھی ہم ہیں اور مانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ لڑنے والے بھی ہم ہیں اور لڑوانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ لاشیں بھی ہماری، لوگ بھی ہمارے، ملک بھی ہمارا۔ ہر طرف افراتفری، جلوس اور خوف و اشتعال بھی ہمارا، ہر طرف اس جلوس میں جلنے والی گاڑیاں اور لٹنے والی دُکانیں بھی ہماری ہیں۔ ہم خود ہی تماشاہی اور خود ہی تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ آج کا دن پاکستانی عوام کیلئے خوداحتسابی کا دن ہے اور پاکستانی عوام کو چاہیے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں پر غور و فکر کریں تاکہ ہمارا ملک ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں تھا جو تاریخ کے صفحات پر عرصے سے موجود ہو۔ پاکستان ایک تاریخی تجربہ تھا اور اس تاریخی تجربے کے عظیم الشان ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا مقابلہ دو بڑی طاقتوں سے تھا۔ ایک طرف اُس وقت کے سپر پاور انگریز تھے اور دوسری طرف ہندو تھے جوکہ برصغیر کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان بکھرے ہوئے تھے۔ ان کو ایک عظیم لیڈر کی ضرورت تھی جو ان کو اکٹھا کرتا اور ان کی رہنمائی کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں اور انگریزوں دونوں طاقتوں کا مقابلہ کیا اور پاکستان کے عظیم الشان تجربہ ہونے کا یہ ثبوت تھا کہ پاکستانی قومیت کی معروف تعریف یا کسی اور رائج الوقت نظریے کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا۔ مسلمانوں نے نہ تو انگریزوں کے ساتھ سازباز کی اور نہ ہی ہندوؤں کے ساتھ کوئی سودے بازی کی۔ بلکہ یہ اسلام کی ہی طاقت تھی اور اللہ ربُ العزت کا احسانِ عظیم تھا جس کے ذریعے پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اسلام صرف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم الشان تہذیب کا علم بردار ہے۔
تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے ماضی سے کبھی سبق نہیں سیکھا اور نہ حقائق کا کھلے دل سے ادراک کیا ہے۔ پاکستان 75 برس کا ہوچکا ہے۔ اس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی معجزے سے کم نہیں کہ آج بھی خون آلودہ اور ادھورے جسم کے ساتھ کھڑا ہے۔ہماری صفوں میں آج بھی کئی میر قاسم اور میر جعفر موجود ہیں جن کی وجہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جلد ہی ہم نے اپنی قیادت اور کروڑوں مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد سے بدعہدی شروع کردی۔
اگر ہم اپنا خود احتساب کریں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نظریات کی پٹڑی سے اتر چکے ہیں، ہمارے جذبے صرف اپنے مفادات کیلئے محدود ہوکررہ گئے ہیں، کیا ہم نے سوچا کہ پاکستان بننے کے 24 سال بعد 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور مغربی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش آج ہم سے کتنا آگے نکل گیا ہے۔ افسوس پاکستان میں نہ تو قانون نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی قانون کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے آج دن بدن ہم ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے اس وقت تک ان مقاصد اور تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے جنہیں پورا کرنے کی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب