تحریر: شیخ محمد انور 2020
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
اخبار بینی میں کمی لمحہئ فکریہ
مطالعہ کا شوق زوال پذیر کیوں۔۔۔!
مطالعہ شوق و ذوق کا محتاج ہوتا ہے جس کسی کو یہ میسر ہو جائے تو پڑھنے والے کی پیاس کبھی نہیں بجھتی یہاں تک کے اس کی سانسیں دم توڑ دیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا ”فیک نیوز“ کا سب سے اہم ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔انٹرنیٹ، کمپیوٹر اور جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے جہاں انسان کی زندگی میں سہولت پیدا ہوئی ہے وہاں بہت سے مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں بہت کچھ بدلتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے رویے اور مزاج تبدیل ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اظہار رائے کی آزادی کے چکر میں ہمارے نوجوان گمراہی کا شکار ہورہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر خبر تو فوری طور پر ہر جگہ پہنچ جاتی ہے لیکن وہ خبر معیاری ہے اس حوالے سے کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے، ایسے حالات میں ضرورت ہوتی ہے قابل بھروسہ ذرائع کی اور دنیا بھر میں اخبارات کو ہی مطالعے کیلئے خبر کا قابل بھروسہ ذریعہ مانا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی افادیت سے انکار تو نہ ممکن ہے لیکن اس کی وجہ سے فحاشی، عریانی اور بے راہ روی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس پر چیک اینڈ بیلنس کیا جائے اور فیک نیو پھیلانے والے کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ ہمارے معاشرے میں بہرحال سوشل میڈیا کے منفی نتائج سامنے آرہے ہیں۔جس مرضی انسان کی عزت کو پامال کر دیا جاتا ہے۔ اے پی این ایس نے گزشتہ سال 25 ستمبر کو ہر سال نیشنل نیوز پیپر ریڈر شپ ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ کیونکہ اس دن دنیا میں پہلی بار 1690ء میں کثیر صفحات پر مشتمل اولین اخبار شائع ہوا تھا۔ ہر سال اس دن کو منانے کا مقصد نوجوان نسل میں اخبار کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور اخبار بینی کو فروغ دے کر ”فیک نیوز“ پر قابو پانا ہے۔ دنیا اتنی تیزی سے بدل رہی ہے کہ جو چیزیں کل تک رائج تھیں آج ان کا رواج ختم ہو گیا ہے، لیکن اخبار ایسی چیز ہے جو ہر تھوڑے بہت پڑھے لکھے آدمی کی زندگی میں داخل ہے۔ لوگ جسمانی غذا، اس کی قلت اور اس قلت کے مضمرات کو سمجھتے ہیں، مگر وہ اس حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام ہیں کہ انسان کو جس طرح جسمانی غذا کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روحانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی غذا بھی درکار ہوتی ہے اور مطالعہ اس غذا کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اخبار صرف خبروں تک محدود رہتا تھا لیکن اب اخبار سماجی خدمات بھی انجام دے رہا ہے۔ جیسے روزگار کے مواقع، مسابقتی امتحانات کی رہنمائی اور اردو کے فروغ کی کوششیں وغیرہ۔ اخبار بینی کا شوق رکھنے والے افراد کی زندگی کبھی پھیکی نہیں پڑتی۔ ان کی معلومات میں دن بدن بے بہا اضافہ ہوتا ہے اور وہ معاشرے کیلئے سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے افراد حالات حاضرہ سے مکمل طور پر آشنا ہوتے ہیں اور آئندہ درپیش حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ذہنی طور پر مکمل تیار ہوتے ہیں کہ آئندہ انہیں کس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس مشغلے کو اختیار کرنے والے کا دماغ کبھی بھی زنگ آلود نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اسے بھرپور استعمال کرتا ہے۔ ایسے افراد جن کا زیادہ تر وقت اخبار اور کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے وہ حقیقت پسند ہوتے ہیں۔بے خبر آدمی کی زندگی بسر کرنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی ساری زندگی سوتے ہوئے بسر کردے۔ اسلئے باخبر رہنے کا ایک اہم ذریعہ کتب بینی اور اخبار کا مطالعہ ہے۔ اخبار ایسی اشاعت کو کہتے ہیں جس میں خبریں چھپتی ہیں۔ اس میں سیاست، فن، تہذیب، کھیل، سماج اور تجارت وغیرہ شعبوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اصطلاحاً کسی واقعے کا براہ راست، بے لاگ اور صحیح بیان جس میں بہت سے افراد کو دلچسپی ہو۔ صحیح خبر ایسے واقعہ کا بیان ہے جس میں کوئی تبصرہ نہ ہو کوئی الزام نہ لگایا گیا ہو، کسی ذاتی رائے کا اظہار نہ کیا گیا ہو۔ کوئی حقیقت مسخ نہ کی گئی ہو اور اپنی جانب سے کسی بات کا اضافہ نہ کیا گیا ہو۔ خبر میں تازگی، قرب زماں و مکاں اور وسعت ہونی ضروری ہے۔ طرز تحریر مؤثر اور دل نشین ہونا چاہیے۔ بعض خبریں مقامی اہمیت کی ہوتی ہیں اور بعض عالمی امن و امان پر اثرانداز ہوتی ہیں جن سے ہر ملک کے عوام کو دلچسپی ہوتی ہے بعض اوقات چھوٹی سی جگہ پر انوکھا یا دلچسپ واقعہ پیش آ جاتا ہے جو لوگوں کی دلچسپی کا موجب بن جاتا ہے۔ خبر کی اہمیت کا تعلق متعدد چیزوں سے ہوتا ہے جن میں خبر کا فوری پن یا تازگی قربت مکانی اثرات یا نتیجہ تعدد حیثیت عرفی تنازع مقدار یا تعداد انوکھا پن شامل ہیں۔ کسی قانون کا نفاذ یا حکومت کا کوئی اعلان عوام پر اثر نداز ہوتا ہو تو یہ بڑی خبر ہے۔ راز بھی خبر کا ایک اہم عنصر ہے۔ بڑے لوگوں کی زندگی یا کردار کے چھپے ہوئے گوشوں میں جھانکنے کا شوق شدید ہوتا ہے۔ کسی معمولی حیثیت کے آدمی کا بڑا کارنامہ یا بڑے آدمی کی چھوٹی سی بات بھی خبر بن سکتی ہے۔ واقعہ، مشاہدہ اور واقعہ نگاری خبر کے عناصر ترکیبی ہیں۔ لیکن صحافی کو قاری کے رجحانات، اپنے اخبار کی پالیسی اور بعض اخلاقی اصولوں کا بھی پاس رکھنا ہوتا ہے۔ اخبارات خبریں بین الاقوامی اور ملکی خبررساں ایجینسیوں کے علاوہ اپنے نامہ نگاروں اور خاص نمائندوں سے بھی حاصل کرتے ہیں۔ اخبارات روز انہ خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ اخبارات عام معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں کئی اہم جان کاری والے مضامین ہوتے ہیں۔ ہر اخبار کے مخصوص ضمیمے ہوتے ہیں۔ یہ ضمیمے ہفتہ واری بھی ہوتے ہیں اور خاص مواقع کے بھی۔ مثلًا اتوار کے ضمیمے اور عید الاضحیٰ کے ضمیمے وغیرہ، جن میں موقع کی افادیت کے حساب سے مضامین چھاپے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ اخبارات موضوعاتی ضمیمے بھی نکالتے ہیں، جیسے کہ سائنسی ضمیمہ، تکنیکی ضمیمہ، ادب کا ضمیمہ، خواتین و اطفال کا ضمیمہ وغیرہ۔ اخبارات میں اخبار کے مدیر کے نام خط کا بھی ایک کالم ہوا کرتا ہے جس میں قارئین اپنے مسائل اور حالات حاضرہ پر تبصروں کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اخبارات کھیلوں کے بارے میں اور خاص طور پر کرکٹ کے میچوں کے پل پل کے واقعات کا کافی تجزیہ کرتے ہیں جو شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس میں تصاویر کا ہونا اور بھی لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہے۔ مطالعہ انسان کی شخصیت کو سنوارتا ہے اس کے اندر اخلاقی قدریں پروان چڑھتی ہیں۔ کتابوں سے حاصل ہونے والا علم کبھی ضائع نہیں جاتا انسان کی زندگی میں مختلف موڑ آتے ہیں ان موڑ پر کیسے ان مسائل کو حل کرنا ان چیزوں کا علم انسان کتابوں کے مطالعہ کے ذریعے سے گزشتہ لوگوں کے تجربات سے سیکھتا ہے، مطالعہ شوق و ذوق کا محتاج ہوتا ہے جس کسی کو یہ میسر ہو جائے تو پڑھنے والے کی پیاس کبھی نہیں بجھتی یہاں تک کے اس کی سانسیں دم توڑ دیں۔ پاکستان کی آبادی 22کروڑ سے زائد ہے اور ملک میں شائع ہونے والے تمام اخبارات و رسائل کی مجموعی اشاعت بیس پچیس لاکھ سے زائد نہیں۔ اخبار کا مطالعہ، مطالعے کی سیڑھی کا پہلا پائیدان ہے، لیکن اس پائیدان کی حالت بھی خستہ ہے۔ اخبارات کے قارئین کا خاصا بڑا حصہ ”مانگ کر“ اخبار پڑھتا ہے۔ جو لوگ خرید کر اخبار پڑھتے ہیں اْن کی اکثریت پورا اخبار نہیں پڑھتی۔ اکثر قارئین اپنی دلچسپی کی خبریں پڑھتے ہیں۔ کم لوگ اخبار کی تمام خبریں ملاحظہ کرتے ہیں۔ اس سے بھی کم لوگ وہ ہیں جو اخبار کے کالم یا اداریہ پڑھتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اخبار کے اکثر قارئین کا مطالعہ، مطالعہ کم اور اخبار کے ساتھ تانک جھانک زیادہ ہوتی ہے۔ اس صورت ِحال نے معاشرے میں ”مطالعے کا قحط“ پیدا کر دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کتب بینی کے ساتھ ساتھ اخبارات کی ریڈرشپ میں کمی کی تو بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے اہم وجہ اخبار کی قیمت میں اضافہ بھی ہے۔ مغربی ممالک میں زیادہ لوگ اخبار پڑھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں اخبارات سستے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں بھی اخبارات کی قیمت میں کمی کی جائے اور حکومت اس سلسلے میں پرنٹ میڈیا کو سہولیات دے تو اخبارکی ریڈر شپ میں پھر سے اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب