اسلام میں قربانی کی اہمیت: عید الاضحی کے حوالے سے آرٹیکل 2020

تحریر: شیخ محمد انور (ریلویز) 2020

فون نمبر: 0333-2250719

ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

اسلام میں قربانی کی اہمیت

عید الاضحی: ایثار و قربانی کی یاد تازہ کرنے کا تہوار

قربانی کے بعد اگر تقویٰ کی صفت پیدا نہ ہوئی تو مقصد پورا نہ ہوا۔

آج کے دن ہر مسلمان کو ذہنی، مالی اور جسمانی قربانی کا عہد تازہ کرنا چاہیے۔

دنیا میں آپ کو کوئی ایسی قوم نظر نہیں آئے گی جو کوئی خاص دن نہ مناتی ہو۔ ان ایام کو منانے میں جو حکمت پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ ہر قوم اپنی تہذیب کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اپنے آباؤ آجداد کے کارناموں پر فخر کرتی ہے اور اپنی آئندہ نسل کیلئے اپنے بزرگوں کے کارناموں کو مشعل راہ قرار دیتی ہے۔ اسلام نے بھی کچھ تہوار مقرر کیے ہیں اور ان کو پوری شان و شوکت، عزت و احترام کے ساتھ منانے کی ہدایت کی ہے۔ ان تہواروں کو منانے سے اسلام کی حقانیت اُجاگر ہوتی ہے اور تمدن اسلامی کے ظہور کی ایک صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ان ایام کو منانے کی اصل اور بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس دن میں جو اہم کارنامہ انجام دیا گیا اُس کی یاد بڑے جوش و خروش اور عقیدت کے ساتھ منائی جائے۔ اسلام کے مقرر کردہ تہواروں میں سب سے اہم دو عیدیں شامل ہیں جن کو دنیائے اسلام کے کونے کونے میں جذبہ ایمانی و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ عیدالفطر رمضان کے اختتام پر منائی جاتی ہے جبکہ عیدالاضحی 10 ذی الحج کو منائی جاتی ہے۔ عید سے مراد عیدالفطر یا عیدالاضحی ہوتی ہے۔ عیدین میں چند مشترک خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ دونوں میں نماز عید پڑھی جاتی ہے۔ نماز عید کا ادا کرنا سنت ہے۔ اس نماز کی صورت باقی نمازوں سے سادہ ترہوتی ہے اس لیے کہ اس میں اذان نہیں دی جاتی اور نہ ہی اقامت کہی جاتی ہے۔ خطبہ نماز عید کے بعد ہوتا ہے۔ عید کی نماز کا وقت طلوع اور زوال آفتاب کے درمیان ہوتا ہے۔ عام طور پر شہر سے باہر کھلی جگہ پڑھی جاتی ہے۔ گوعام مساجد میں بھی عید پڑھ لیتے ہیں۔ قوم کی وحدت اور ہم آہنگی کا وہ منظر جو عیدین پرنظر آتا ہے اپنے تو اپنے، بیگانے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ عید کے موقع پر لوگ نہادھوکر صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، کسی کو نئے کپڑے میسر نہ ہوں تو جو میسر ہوں اس میں سے بہترین لباس کا انتخاب کرتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے ملنے کیلئے جاتے ہیں، مبارکباد دیتے ہیں، اشیائے خوردونوش، زیب و زینت لباس اور دیگر ضروریات زندگی کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ دونوں عیدوں کا آغاز ہجرت نبویﷺ کے بعد ہوا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ مدینے تشریف لائے تو وہاں سال میں دو بار میلہ لگتا تھا جس میں کھیل کود ہوا کرتے تھے۔ حضورﷺ نے پوچھا کہ تمہارے یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہم جاہلیت کے زمانے میں ان دنوں میں کھیلا کودا کرتے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے ان کے عوض تمھیں ان سے بہتر دن دئیے ہیں۔ عیدالفطر اور عید الاضحی۔ اسلام نے جاہلیت کے ان کھیل کود کے دنوں کو بلند مذہبی سطح پر پہنچادیا۔ انہیں عبادت الٰہی کی تقریب اور توحید رسالت کے اعلان کا موقع ملا۔ دوست احباب کے درمیان میل ملاپ کی ایک صورت، غرباء و مساکین میں خیرات و صدقات کی تقسیم کا ایک ذریعہ بنایا اور اُمت مسلمہ کیلئے فلاح دارین کی ایسی صورتیں پیدا کردیں جس میں صرف روحانی پہلو ہی نہیں بلکہ بہت سے عمرانی پہلو بھی شامل ہیں۔ عیدالاضحی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ عید قربان ہے۔ اس کو بڑی عید یا بقر(بکر) عید بھی کہتے ہیں۔10 ذی الحجہ وہ دن ہے جس میں حاجی وادی منیٰ میں قربانی کرتے ہیں اور اس کے تین دن بعد تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان دنوں کو ”ایام تشریق“ کہتے ہیں۔ بھیڑ بکری ہر شخص کی طرف سے ذبح کی جاتی ہے۔ اونٹ یا گائے وغیرہ کی قربانی میں ایک سے سات آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ جانور ایک خاص عمر کے اور جسمانی عیب سے پاک ہونے چاہییں۔ نماز عید کے بعد سے ایام تشریق کے تیسرے دن کے غروب آفتاب تک قربانی دی جاسکتی ہے۔ یہ عید حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے جس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اس قربانی کی عظمت کا اندازہ کرنا ہوتو اس پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے جس میں یہ قربانی عمل میں آئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اللہ سے یوں دُعا کی۔ ”میرے آقا و مولا مجھے فرزند صالح عطا فرما“۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعا قبول فرمائی۔ آپ کی زندگی مسلسل آزمائشوں کی زندگی ہے اور آپ کو جن آزمائشوں سے گزرنا پڑا ان میں غالباً سب سے مشکل مرحلہ یہی تھا کہ اپنے اکلوتے بیٹے اور اس بیٹے کو جسے بڑھاپے کی عمر میں دُعائیں مانگ مانگ کر لیا تھا، قربان کرنے کو کہا۔ عین اُس وقت جب یہ بچہ اس قابل ہوگیا کہ باپ کے ساتھ مل کر اس کا ہاتھ بٹاسکے، خدائے ذوالجلال نے آپ کو خواب کے ذریعے حکم دیا کہ میرے راستے میں محبوب ترین چیز پیش کرو۔ چنانچہ آپ مسلسل تین دن تک اس پر غور کرتے رہے کہ محبوب ترین چیز کیاہوسکتی ہے۔ چنانچہ بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کرلیا مگر مناسب جانا کہ بیٹے سے پوچھ لیا جائے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے جونہی وہ خواب سنا تو ادب سے جواب دیا کہ ”ابا جان! آپ کا خواب سچا ہے اور آپ کر گزرئیے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے“۔ اب اللہ کا نام لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں تو اللہ ربُ العزت ارشاد فرماتے ہیں کہ جب دونوں راضی ہوگئے اور اس اہم اقدام کو کرنے پر تیار ہوگئے اور اُن کو زمین پر منہ کے بل لٹایا اور ذبح کرنے پر آمادہ ہوئے، دوبار ذبح کرنے میں ناکام ہوئے،تیسری بار جب بیٹے کی گردن پر چھری چلانے ہی والے تھے تو رب ذوالجلال نے حکم دیا، اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچا کردکھایا ہے اور اب اس عظیم قربانی کی یاد جاری رہے گی۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے”ہم نے بڑی قربانی کو اسمٰعیل کا فدیہ دیا اور ابراہیم کے بعد آنے والی امتوں میں اس کا ذکر خیرباقی رکھا“۔ قربانی دینے میں اصل چیزتقویٰ، فرمانبرداری اور خلوص نیت ہے۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے”خدا تک نہ تو ان کے گوشت ہی پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے“۔ اس قربانی سے ان لوگوں کی امداد کا سامان بھی ہوجاتا ہے جو مفلوک الحال اور غریب ہیں اور رشتہ داروں میں اس کے سبب محبت بڑھتی ہے۔ اس قربانی کے گوشت کی تقسیم کے لیے جو طریقہ کار مقرر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ رشتہ داروں کیلئے، دوسرا حصہ غرباء و مساکین کیلئے اور تیسرا حصہ اپنی ذات اور اہل و عیال پر صرف کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس تقسیم کا مقصد تمام لوگوں کو عید کی خوشی میں شامل کرنا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم گوشت کی تقسیم اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ بڑے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے رانیں بھیجی جاتی ہیں باقی گھر میں فریج میں ذخیرہ کرلیاجاتا ہے جو کہ غلط طریقہ ہے اور سنت ابراہیمی کی خلاف ورزی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو طریقہ ہمارے مذہب نے ہمیں بتایا اور سکھایا ہے اس پر عمل کیا جائے ورنہ قربانی کرنے کا مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ اس عظیم قربانی کی یاد منانے کا اصل مقصد یہ بھی ہے کہ کوئی قوم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک اس کے عوام میں ایثار و قربانی کا جذبہ نہ پایاجاتا ہو۔ چنانچہ اسلام نے اس قربانی کو درس اور تربیت کیلئے اپنے ہاں رائج کیا تاکہ ضرورت کے وقت ایک مسلمان کسی قربانی سے دریغ نہ کرے۔ یہ قربانی جو بے مثال درس دیتی ہے وہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کیا جائے اور کسی حکم کی تعمیل میں ذرہ برابر بھی سستی نہ کی جائے۔ اگرچہ کتنی ہی مشکل کا کیوں نہ سامنا کرنا پڑے۔ اسی طرح نماز عید سے تبلیغی مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔ لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ایک راستہ سے عیدگاہ میں آئیں اور دوسرے راستے سے واپس جائیں اور دوران آمدورفت بلند آواز سے تکبیر پڑھتے رہیں اور خدا کی حمد وثنا بھی ضرور کریں۔ چنانچہ تکبیرات تشریق جو 9ذی الحجہ کی فجر کی نماز سے شروع ہوتی ہیں اور 13 ذی الحجہ کی عصر کی نماز تک جاری رہتی ہیں ان کے بارے میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل کو اللہ کے نام پر ذبح کرنے لگے تو اللہ نے ان کی قربانی کی مقبولیت کا اعلان فرمادیا چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبہ اطاعت کو دیکھنا اور اس عمل قربانی کے لیے تیار ہوجانے کو دنیا کیلئے ایک مثال کی حیثیت میں پیش کرنا تھا اس لیے آپ کو اس آزمائش میں ڈالا گیا۔ آپ کو یہ بشارت ایک قول کے مطابق حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے دی گئی۔ سب سے پہلے حضرت جیرائیل علیہ السلام نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے اللہ اکبر اللہ اکبر کہا۔ آپ نے اس کے جواب میں تکبیر پڑھی اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ہماری قربانی قبول ہوگئی ہے۔ اس وقت سے آج تک یہی کلمات اونچی آواز سے پڑھے جاتے ہیں یعنی آج کے دن ہر مسلمان پر لازم کردیاگیا ہے کہ وہ گلی کوچوں میں اللہ کا نام بلند کرے۔ اس طرح یہ دن اللہ کی بڑائی بیان کرنے کا دن ہے۔ 

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے