بجٹ تماشا بڑھتی ہوئی سیا سی و معاشی ناہمواریاں،سرکاری ملازمین مایوسی کا شکار

تحریر: شیخ محمد انور
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
بجٹ تماشا
بڑھتی ہوئی سیا سی و معاشی ناہمواریاں،سرکاری ملازمین مایوسی کا شکار
12 جون کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے دوسرا وفاقی بجٹ برائے سال 2020-21ء پیش کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ کرونا وائرس کے باعث عوام ناصرف پریشان ہیں بلکہ معاشی مشکلات سے بھی دو چار ہیں۔ ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کرونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں ا? رہا ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں 7294 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا۔ حکومت نے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کے بغیر 3 ہزار 4 سو 37 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار نے ماضی کے وزرا کی طرح الفاظ کے گورکھ دھندے میں الجھا کر اپنی طرف سے بہترین بجٹ پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اپوزیشن جماعتوں سمیت معاشرے کے مختلف طبقات ناصرف حالیہ بجٹ سے ناخوش ہیں بلکہ وہ حکومتی کارکردگی سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ بجٹ میں پیش کئے جانے والے اعداد و شمار تو شاید عوام کی اکثریت کے پلے نہیں پڑتے لیکن بلواسطہ یا بلاواسطہ بجٹ بہرحال ہر شخص کو کسی نہ کسی حوالے سے متاثر کرتا ہے۔ بجٹ کے اچھے یا برے متوازن یا غیر متوازن کا فیصلہ، ملک کے موجودہ معاشی حالات اور عوام کو درپیش مشکلات اور ان کے حل کو دیکھتے ہوئے ہی کیا جا سکتا ہے۔ مگر آج کے دور میں عوام کے بڑے مسائل میں مہنگائی، بے روزگاری، صحت اور تعلیم کی ناکافی سہولیات اور سماجی و معاشرتی ترقی کے یکساں واقع نہ ہونا ہیں۔ بجٹ میں محنت کش طبقات اور سرکاری ملازمین کیلئے کچھ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بننے والے بجٹ میں ملازمین کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا، کرونا سے تو شاید ملازمین بچ جائیں مگر مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے ملازمین کا زندہ رہنا محال نظر آتا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ملازمین اور پنشنرز کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کر کے ان کو زندہ درگور کرنا چاہتی ہے۔ سرکاری ملازمین انصاف کی حکومت سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے کہ بجٹ میں ان کو اچھا ریلیف ملے گا مگر بجٹ نے ملازمین کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ عوام نے بجٹ سے قبل حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں لیکن بجٹ کے بعد سب خواب اور ساری امیدیں دم توڑ گئیں۔ سرکاری ملازمین تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین پنشن میں اضافہ نہ ہونے کے باعث مایوسی کا شکار ہیں۔ افراط زر سے عام آدمی کی قوت خرید میں ہونے والی کمی کی وجہ سے توقع تھی کہ تنخواہوں میں اضافہ ہو گا۔ ریلیف نہ ملنے کی صورت میں اب سرکاری ملازم امسال دس فیصد کم خریداری کر سکیں گے۔ پاکستان ان دنوں تاریخی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ کرونا وبا کی وجہ سے آج ہر پاکستانی کی جان خطرے میں ہے۔ بجٹ میں عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملا، اگر ریلیف ملا ہے تو امیر طبقے کو ملا ہے۔ بجٹ میں عام آدمی کو صرف اور صرف تکلیف دی گئی ہے۔ جون 2013ء میں ڈالر کی قیمت 100 روپے تھی اور پانچ سال بعد جون 2018ء میں اس کی قیمت میں صرف 15 روپے اضافہ ہوا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں ایک سال میں تیس فیصد کمی ہوئی اور جون 2019ء میں ڈالر 150 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔ اگلے ایک سال کے دوران ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ ہوا اور مئی 2020ء میں فی ڈالر 165 روپے تک جا پہنچا۔ اب ایسے حالات میں مہنگائی تو بڑھتی رہی اور مزید بڑھ رہی ہے لیکن عوام کی مشکلات کو کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ گزشتہ 15 سال میں پہلی بار وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ حکومت نے گزشتہ مالی سال 2019-20ء کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا تھا۔2010-11 ء میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں تنخواہوں میں سب سے زیادہ 50 فیصد اضافہ کیا گیا تھا۔ ملک میں  مہنگائی اور مزدور کی اجرت کی بات کی جائے تو آج سے 12 سال پہلے مزدور کی کم از کم اجرت 6 ہزار روپے تھی جسے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2 ہزار روپے کا اضافہ کر کے 8 ہزار روپے کیا گیا۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت کے پہلے مالی سال میں کم از کم اجرت 10 ہزار روپے مقرر کی تھی اور آخری مالی سال میں یہ اجرت بڑھا کر 15 ہزار روپے مقرر کی۔تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے پہلے مالی سال میں کم از کم اجرت میں 2500 روپے کا اضافہ کیا اور ساڑھے 17 ہزار روپے کر دی گئی۔ مگر حالیہ بجٹ میں کم از کم اجرت 17500برقرار رکھ کر حکومت نے مزدور طبقہ پر احسان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کیا وزیر اعظم عمران خان یہ نہیں جانتے کہ گزشتہ ایک سال میں مہنگائی میں کس حد تک اضافہ ہوا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافہ نہ کرنا کسی بھی صورت درست اقدام نہیں  ہے۔ شاید حکمران طبقہ یہ بات بھول رہا ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس سرکاری ملازمین ہی دیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین پرامید تھے کہ حکومت بجٹ 2020-21ء میں 2016ء،2017ء،2018ء اور 2019ء کے ایڈہاک ریلیف الاؤنس کو ضم کر کے پے سکیل روائز کرے گی۔ سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔ مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ حکومت اس وقت سکیل ایک کے ملازمین کو 1367روپے ہاؤس رینٹ دے رہی ہے اور مہنگائی کے اس دور میں اتنے پیسوں  میں مکان کرایہ پر نہیں ملتا، اسی طرح میڈیکل الاؤنس 1500 روپے دیتی ہے لیکن اس میں ملازمین اپنے بیوی بچوں کا علاج کرانے سے قاصر ہیں۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے ملازمین کے لیے مہنگائی کے باعث زمین تنگ ہو چکی ہے۔ ملک میں تو بجلی اور گیس کے بل مان نہیں تو کم تنخواہ یا پنشن میں لوگ گزارہ کیسے کریں گے۔ حکومت نے کرونا بجٹ کے ذریعے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ملک سے فی الحال نہ کرونا وبا ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور نا ہی بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت مہنگائی اور بے روزگاری کے جن کو بوتل میں بند کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے ملک میں بہتری لانے کی کوشش کی لیکن وہ ابھی تک کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہو سکے۔ تحریک انصاف اپنے اقتدار کے نصف کے قریب پہنچ چکی ہے مگر ابھی تک وہ گزشتہ حکومت کو لعن طعن کر کے وقت گزار رہی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ایک متوازن اور غریب آدمی کو ریلیف دینے والا بجٹ پیش نہیں کر سکی۔ اگر ماضی کی بات کی جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن بہتر بجٹ پیش کرتی رہی ہیں۔ بلکہ جب ملک میں دہشت گردی عروج پر تھی اور ملکی معاشی حالات بھی بہتر نہیں تھے اس دور میں بھی ن لیگ نے سرکاری ملازمین کو مایوس نہیں کیا تھا لیکن موجودہ حکومت نے کرونا وائرس کو جواز بنا کر سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ جو ہاتھ کیا ہے وہ کسی بھی صورت قابل تعریف نہیں ہے۔ ممبران اسمبلی اور دیگر چند اداروں کی تنخواہوں میں بجٹ سے چند ماہ قبل اضافہ کر دیا گیا اور بجٹ کے موقع پر ملازمین کو سرخ فیتے کا نشان بنا دیا گیا۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ غریب اور متوسط طبقات کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں، روپے کی قدر میں غیر معمولی کمی ہوئی ہے، غریب اور متوسط طبقات کی آمدن نہ ہونے کے برابر ہے، اب بھی ملازم پیشہ طبقہ حکومت کی طرف دیکھ رہا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ ملازمین کو مایوس کرنے کے بجائے ان کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہوئے تنخواہوں میں پچاس فیصد اضافہ کرے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے