شیخ محمد انور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
ریلوے ملازمین کی پنشن کی ادائیگی وفاقی حکومت اپنے ذمہ لے۔
جون کے مہینے کا آغاز ہو چکا ہے، ماہ رواں میں حکومت بجٹ پیش کرے گی، امسال پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنا دوسرا بجٹ پیش کر رہی ہے۔ بجٹ کیسا ہو گا؟ اس حوالے سے شہری حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری ہیں۔ کرونا وائرس، بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے پریشان حال عوام پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے بہت سی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ معاشرے کا ہر طبقہ موجودہ صورتحال میں مشکلات سے دوچار ہے۔ عمران خان نے انتخابات سے قبل الیکشن مہم میں عوام سے بہت سے وعدے کیے تھے جو تاحال پورے تو نہیں ہوئے لیکن عوام اب بھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہر حکومت بجٹ پیش کر کے اسے بہترین بجٹ کا نام دیتی ہے لیکن عام آدمی، دیہاڑی دار مزدور سے لے کر سرکاری ملازم تک سب مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں۔ ملک میں اس وقت تمام تر حکومتی اقدامات کے باجود کرونا جن بوتل میں بند ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ملک میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے باعث لوگ پریشان ہیں۔ اس صورتحال میں مہنگائی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ہر طرف لفظ مہنگائی نے ہاہا کار مچائی ہوئی ہے۔ اس بات کو اہم نہیں سمجھا جاتا کہ حکومت کس کی ہے بلکہ یہ بات اہم سمجھی جاتی ہے کہ کس دور حکومت میں مزدور کو دو وقت کا کھانا اور سر چھپانے کے لیے چھت میسر ہے۔ اس وقت لوگ محنت مزدوری کر کے جو کما رہے ہیں اس میں ان کا گزر بسر مشکل سے ہی ہوتا ہے۔ ملک میں گزشتہ چند سال سے عام آدمی کے لیے آمدنی کے ذرائع تو بڑھ نہیں رہے، الٹا مہنگائی اور بیروزگاری میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ کوئی یوٹیلیٹی بلز ادا نہیں کر پا رہا تو کسی کے پاس مالک مکان کو کرایہ دینے کی گنجائش نہیں، کوئی علاج معالجے سے محروم ہے تو کوئی بچوں کی فیس ادا نہ کر پانے کے باعث پریشانی میں مبتلا ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اپنا عرصہ اقتدار پورا کرتی ہیں اور پھر کسی اور کی باری آجاتی ہے، مگر غریب آدمی کے حالات نہیں بدلتے۔ غریب آدمی کی حالت جوں کی توں ہی ہے۔ پاکستان جب معرض موجود میں آیا تو اس کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور یہ سلسلہ عاقبت نااندیشوں کے باعث آج بھی جا ری ہے۔ عصر حاضر میں ہم گومگو کیفیات سے دوچار ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان آئے روز اپنی تقریر میں ریاست مدینہ کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ملک میں ریاست مدینہ کا نظام رائج کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اللہ کرے کہ اُن کا یہ خواب پورا ہوسکے۔ میں اس مضمون کی وساطت سے وزیر اعظم عمران خان اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ریاست مدینہ کا ایک واقعہ بتانا چاہتا ہوں۔ جب نبی اکرمﷺ اس دنیا سے پردہ فرماگئے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۃ المسلمین بنادیاگیا۔ آپ کا ذریعہ معاش کپڑے کی تجارت تھا، چند روز بعد آپ تجارت کیلئے روانہ ہونے لگے تو حضرت عمربن خطابؓ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین آپ کہاں جارہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ میں اپنی روٹی روزی کمانے کیلئے جارہا ہوں تو اُسی وقت حضرت عمر بن خطابؓ بولے کہ اے امیرالمومنین یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ تجارت کریں اور سلطنت کا نظام کون چلائے گا؟ تو امیرالمومنین نے کہا کہ میں نے اپنے گھر کے نظام کو بھی چلانا ہے۔ حضرت عمربن خطاب نے کہا کہ امیرالمومنین اب آپ کے گھر کا نظام بیت المال سے چلایاجائے گا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے تاریخی الفاظ کہے کہ اے عمر! مدینے کی بستی سے ایک مزدور کی روزانہ اجرت معلوم کرکے آؤ، اگر اُس اجرت میں میرے گھر کا گزارا ہوسکتا ہے تو مجھے منظور ہے ورنہ پہلے مزدور کی اجرت کو بڑھاؤ تاکہ اُس اجرت کے مطابق میرے گھر کا نظام چل سکے۔ خان صاحب! بدقسمتی کہ پاکستان میں امیر، امیر تر اور غریب، غریب ترہوتا جارہا ہے۔ اب جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی کہا ہے کہ پاکستان کے تمام اداروں کی تنخواہ کو یکساں کیا جائے تو پھر بہت اچھا موقع ہے کہ ایک حکم کے ذریعے آپ اس ملک کے تمام ملازمین کی تنخواہوں کو یکساں کرنے کا اعلان کریں، اس طرح ملازمین کی تنخواہوں کی اناملی بھی ختم ہوجائے گی اور اس ملک کے کروڑوں مزدور بھی آپکے لیے دُعاگو ہوں گے اور اس ملک میں ایک انقلاب کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ میں آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ اکتوبر 2005ء میں اس وقت کے وزیر اعظم نے ریلوے مزدوروں کی بیواؤں کے لیے پی ایم پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن بعد میں اس کام کے لیے اضافی فنڈز مہیا نہیں کیے گئے، اسی طرح وقت گزرتا گیا اور 9 فروری 2015ء کو اس وقت کے وزیر اعظم نے اس پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے دوران ملازمت فوت ہونے والے ریلوے ملازمین کے بچوں کی شادی، تعلیم، ہاؤس رینٹ اور بیواؤں کو پلاٹ کے لیے سکیل کے حساب سے واجبات دینے کا اعلان کیا مگر پھر متعلقہ اداروں کو اضافی بجٹ تک نہ دیا گیا اور یوں مزدوروں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی بے بسی کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ محکمہ ریلوے کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے کتنے ہی ریلوے ملازم دوران ملازمت فوت ہوئے، ان کی بیوائیں حکومت کی طرف سے اعلان کردہ واجبات کے حصول کے لیے سالہاسال سے دھکے کھانے پر مجبور ہیں مگر ان کی کسی بھی جگہ بات نہیں سنی جا رہی۔ ایسے بہت سے یتیم بچے روز ریلوے دفاتر کی راہداریوں میں چکر لگاتے عام دیکھے جا سکتے ہیں جن کے والد دوران ڈیوٹی اللہ کو پیارے ہو گئے، محکمے نے انہیں ملازمت تو دے دی مگر بدقسمتی سے پی ایم پیکج کے تحت اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ایم پیکج کے تحت پاکستان ریلوے دوران ملازمت فوت ہو جانے والے ملازمین کی بیواؤں اور یتیم بچوں کا کئی ارب روپے کا مقروض ہے۔ وزیر اعظم عمران خان سے التجا ہے کہ اس مسئلے پر فوری توجہ دی جائے۔ ریلوے اور حالات کے ستائے ان مجبوروں پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں ان کے واجبات کی فوری ادائیگی کی جائے، ریلوے میں کنٹریکٹ، ٹی ایل اے اور پی ایم پیکج پر کام کرنے والے یتیم بچوں کو مستقل کیا جائے۔ حالیہ بجٹ کے حوالے سے بھی محنت کشوں کی وزیر اعظم عمران خان سے استدعا ہے کہ حکومت ان کے معاشی استحصال، مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری اور کنٹریکٹ سسٹم کے خاتمے کے ذریعے انہیں معاشی تحفظ دے۔ گزشتہ ایڈ ہاک الاؤنسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کیا جائے۔ بجٹ، تنخواہوں اور پنشن میں پچاس فیصد اضافہ کیا جائے۔ ریٹائرڈ ملازمین کی گریجوایٹی، پنشن اور بیواؤں کے واجبات ادا کیے جائیں، ریلوے ملازمین کی پنشن کی ادائیگی وفاقی حکومت اپنے ذمہ لے، سکیل ایک سے سکیل سولہ تک کے ملازمین کو ایک اضافی سکیل دیا جائے۔ ریلوے کے تمام ٹیکنیکل ملازمین کو ٹیکنیکل الاؤنس دیا جائے۔ فیڈرل گورنمنٹ اور صوبائی گورنمنٹ کی ہاؤسنگ سکیموں میں ریلوے ملازمین کو شامل کیا جائے۔ یہ ایسے مطالبات ہیں جن پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مہنگائی میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن تنخواہوں میں تو اضافہ نہیں ہوتا۔ اگر کبھی ہوتا بھی ہے تو وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہوتا ہے، جس سے عام آدمی کی معاشی مشکلات میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوتا ہے۔ قومی روزناموں کے صفحات آئے روز کسی نہ کسی محنت کش کی بھوک، فاقوں اور بے کاری کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشی کی خبروں سے ”مزین“ نظر آتے ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کا سب سے بڑا المیہ یہی تھا کہ وہ اپنے اعلان کردہ عوامی فلاح کے احکامات پر عمل درآمد نہ کرا سکیں۔ امید ہے کہ وزیر اعظم عمران خان غریب بیواؤں اور یتیم بچوں کی دعائیں ضرور لیں گے۔ وہ ان کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنائیں گے۔ بجٹ کی آمد آمد ہے، خدا نہ کرے کہ اس بار بھی الفاظ کا گورکھ دھندہ ہو کیونکہ گزشتہ سال کے بجٹ میں بھی ملازمین کو کوئی خاص ریلیف نہیں مل سکا جس کی وجہ سے ملازمین شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ میں ذاتی طور پر بجٹ کو مایوس کن دیکھ رہا ہوں کیونکہ حکومتی حلقے تنخواہوں میں اضافے کی تسلیاں تو دے رہے ہیں لیکن ملک کے موجودہ حالات (کرونا وباء) اور ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو دیکھتے ہوئے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ خدا نہ کرے کہ اس بار بھی ملازمین کو رسوائی ہو۔ ٹیکسوں اور مہنگائی نے ملازمین کو لیموں کی طرح نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ ممبرانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کی اشرافیہ بہت غریب ہے۔ ملک میں ہر طرف لاقانونیت ہے۔ ماضی میں عوام کا مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان تھا اور آج بھی روٹی، روزی، مکان اور سکیورٹی کا مسئلہ لاحق ہے۔ ہم ایٹمی ملک تو ہیں لیکن حیرت والی بات ہے کہ بجلی اور پانی ہمارے پاس نہیں۔ یہ بھی حیرت والی بات ہے کہ دنیا بھر میں لوگ ڈیم بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کے سیاستدان ڈیم نہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں چونکہ خود تو وہ کرسٹل نما محلات میں رہتے ہیں لیکن غریب کی جھونپڑی میں انرجی سیور بھی اُنہیں پسند نہیں۔ ہم وزیر اعظم عمران خان صاحب سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بجٹ کے موقع پر مزدور دوست بجٹ پیش کریں اور ریلوے سمیت تمام قومی اداروں کی نجکاری نہ کرنے کا اعلان کریں۔ ریلوے کی بحالی ملک بھر کے تمام قومی اداروں اور حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔