تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
شاداب وادیوں میں ہوائیں ابدی مسرت کے گیت گاتی چلتی ہیں۔
وادی سوات میں پہاڑی دامنوں پر ان گنت چشمے والہانہ انداز میں پھوٹتے ہیں۔
برف پوش چوٹیوں، مرغزاروں اور آبشاروں کی سرزمین جو سیاحوں کیلئے جنت سے کم نہیں۔
سکندر اعظم کے تاریخی الفاظ ”ماں تم نے تو ایک سکندر کو جنم دیا ہے اور یہاں پر ہرپتھر کے پیچھے سکندر پڑا ہے“۔
گاہے بگاہے میں پاکستان کے مختلف علاقوں، شہروں اور ملکوں میں جاتا رہتا ہوں اور مجھے بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی دنیا میں بنائی ہوئی جنتوں کو دیکھنے کا بہت شوق ہے۔ میرے کچھ دوست پشاور اور سوات میں رہتے ہیں، میں نے اُن کے ساتھ پروگرام بنایا اور پھر میں لاہور سے بذریعہ ٹرین پشاور روانہ ہوا اور اگلے دن صبح 11بجے اپنے چند دوستوں محمد انور خان، اشرف علی ہوتی، داؤدالرحمن، ارشد خان اور اپنی فیملی کے ہمراہ سوات کی سیر کیلئے روانہ ہوئے۔ سوات پاکستان کے شمال مغربی کونے میں کشمیر سے قدرے جنوب مغرب میں واقع ہے جہاں اسے ناقالِ عبور بلند برفانی چوٹیاں کشمیر سے علیحدہ کرتی ہیں۔ اس کے شمال میں چترال کا علاقہ ہے جس کی حدیں پاکستان کو افغانستان اور روس کے ہمسایہ ملکوں سے ملاتی ہیں۔ جنوب میں مالاکنڈ ایجنسی اور ضلع مردان ہے۔ مشرق میں اس کی حدیں امب اور دریائے سندھ اور مغرب میں ریاست دیر کے درمیان حد فاصل قائم کرتی ہیں۔ کالام کے کوہستانی علاقہ کو چھوڑ کر ڈسٹرکٹ سوات کا رقبہ چار ہزار مربع میل اور آبادی تقریباً بیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ وادی کی لمبائی 80 میل ہے اور دریائے سوات کے دونوں طرف بارہ میل کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ وادی سوات تک پہنچنے کیلئے مالاکنڈ کے دشوار گزار سلسلہ ہائے کوہ کو عبور کرنا پڑتا ہے جس کے بعد جب سیاح اس وادی میں قدم رکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے۔ پوری وادی سبز اور برف پوش پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے دامن میں زمین کی کوکھ سے چپہ چپہ پر ہزاروں کی تعداد میں شیریں پانچ پانیوں کے چشمے پھوٹتے ہیں اور اس کے پہاڑوں میں بے شمارودلنواز آبشار بلندیوں سے بے تابانہ انداز میں بے پناہ گیتوں کی نغمگی اور موسیقیت لیے نیچے اترتے ہیں۔ سوات اپنے مرغزاروں، چشموں اور ندی نالوں کے سحرکیلئے ہی مشہور نہیں بلکہ یہ وادی سندھ کی بے شمار کہی ان کہی داستانیں بھی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ یہاں بودھ مت دور کی یادگاریں بھی بکثرت ملتی ہیں گندھارا تہذیب کے آثار بھی۔ اس نے سکندر و پورس کے معرکے بھی دیکھے اور محمود غزنوی کے لشکروں کے بھی قدم چومے۔ سکندر اعظم 327 قبل مسیح میں افغانستان کے راستے سوات آیا، یہاں کے قبائل سے لڑائی کے دوران تاریخ میں پہلی بار شدید زخمی ہوا اور یہی زخم بعد میں اس کی موت کا سبب بن گیا۔ سوات کے لوگوں کی بہادری کو دیکھتے ہوئے سکندر کے منہ سے یہ تاریخی جملے بے ساختہ نکلے ”ماں تم نے تو ایک سکندر کو جنم دیا ہے اور یہاں پر ہرپتھر کے پیچھے سکندر پڑا ہے“۔ سلطان محمود غزنوی نے ایک ہزار سال قبل پوری وادی کو فتح کیا۔ محمود غزنوی کی تعمیر کردہ مسجد آج بھی موجود ہے۔ 29 جولائی 1969ء کو ریاست سوات پاکستان میں شامل ہوگئی۔ وادی سوات حسن کی بارات ہے، امیر کی غزل ہے، خیام کی رباعی ہے۔ ایک ایسی کہانی ہے جو الف لیلہ کی کہانی سے زیادہ دلچسپ اور دلکش ہے۔ کسی نے اس کو فردوس بریں کے لقب سے نوازا تو کسی نے جنت کا ٹکڑا قرار دیا، کچھ لوگ اسے مشرق کا سویٹزرلینڈ بھی کہتے ہیں۔ سرسبز گھنے جنگلات فلک بوس و برف پوش کوہسار اور ان کوہساروں کی چوٹیوں پر گنگناتی ندیاں، دریا، آبشاریں اپنے حسن و رناعی کی عظمت کی بناء پر ہر ایک سے خراج تحسین حاصل کرلیتے ہیں۔ پھلوں سے بھرے باغات، لہلہاتے پھولوں سے لدی وادیوں کے حامل سوات میں سیاحتی سیزن سارا سال ہی ہوتا ہے۔ سیروتفریح کا بہترین موسم مئی جبکہ سیاحتی سیزن اور رش جون سے اگست تک ہوتا ہے۔ یہاں سید احمد شہیدؒ نے انگریزوں کے خلاف حق و باطل کے معرکے بھی گرم کیے اور آزادی کے بعد اس سرزمین نے شخصی آمریت اور قوانین کے جبرواستبداد کا ایک بدترین دور بھی دیکھا۔ جن لوگوں نے کشمیر دیکھا ہے وہ سوات کو اس کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔ اس کی سیر کرتے وقت سری نگر اور بارہ مولا کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں اگرچہ سری نگر سوات سے بھی ایک ہزار فٹ زیادہ بلندی پر واقع ہے مگر وادی سوات کے دیہات اور دامن کوہ اتنے ہی سرسبزوشاداب ہیں۔ دریائے سوات کے بیچوں بیچ دریائے سوات 80 میل تک گام بہ گام آبشار بناتا ہوا بہتا ہے۔ دریا کے ساتھ ساتھ ایک بڑی اور پختہ ”جرنیلی“ سڑک بنی ہوئی ہے جو سرحدی چوک لنڈاکی سے شروع ہو کر بحرین تک چلی گئی ہے۔ اس کی لمبائی تقریباً 70 میل ہے۔ اس سے آگے کالام تک 24 میل لمبی خطرناک پہاڑی سڑک ہے۔ کالام دنیا کی گہماگہمی سے دور برفانی چوٹیوں اور ندی نالوں میں گھرا ہوا خطہ کوہ ہے جہاں سارا سال سکیٹنگ اور دوسرے برفانی کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ ان بلند ترین پہاڑیوں میں دو بڑی اور پرسکون جھیلیں بھی ہیں۔ دونوں کے درمیان 8 میل کا فاصلہ ہے اور بعض لوگ انہی جھیلوں کو دریائے سوات کا منبع کہتے ہیں۔ کالام کے پہاڑوں پر نہایت گھنے جنگلات ہیں اور یہاں سے عمارتی لکڑی کاٹ کر دریا میں بہادی جاتی ہے۔ دریا میں 80 میل تک سفر کرنے کے بعد اسے لنڈاکی میں نکال لیاجاتا ہے۔ سوات کا سب سے اونچا پہاڑ مانکیال ہے جس کی بلندی 18750 فٹ ہے۔ اس پورے پہاڑ پر سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ یہ برف کبھی نہیں پگھلی اس لیے اس سے سیاہ سرخ، سبز اور کئی دوسرے رنگ پھوٹتے ہیں۔ بحرین سیدوشریف (مرکزی مقام) سے 40 میل شمال کی طرف واقع ہے۔ لنڈاکی سے شروع ہونیوالی بڑی سڑک کا سلسلہ یہاں ختم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک انتہائی حسین سیرگاہ ہے۔ دریاکے بے پناہ شور اور ان گنت چشموں اور نالوں کی موسیقیت اور بے پناہ حسین مناظر چند لمحوں کیلئے یہ سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ کیا کائنات اس سے زیادہ حسین بھی ہوسکتی ہے؟ یہاں وادی بہت ہی تنگ ہوجاتی ہے اور دریا کاپاٹ تنگ ہونے کی وجہ سے پانی کا بہاؤ بڑاتیزہوجاتا ہے۔ خاص بحرین کے مقام پر دریا کا ایک بڑا مضبوط اور قدیم طرز کا لکڑی کا پل بناہوا ہے۔ پہاڑی پہلو پر ایک بہت بڑی اخروٹ کی لکڑی کی مسجد بھی بنی ہے جس میں لکڑی کے علاوہ کوئی چیز استعمال نہیں کی گئی۔ بحرین سے 5 میل اس طرف یعنی سیدو سے 35 میل آگے سڑک پر ایک دوسرا خوبصورت مقام مدین واقع ہے۔ یہاں بھی دریا تنگ پاٹ میں بہتا ہے۔ اس پر ایک خوبصورت آہنی پل بنایاگیا ہے، پہاڑی پہلوؤں پر سیب، انگور اور سنگترے کے باغات اور لاتعداد چشمے پھوٹتے ہیں۔ یہاں پہاڑوں کے آغوش میں ایک بڑا خوبصورت یورپی طرز کا ہوٹل بھی ہے۔ سیدوشریف ریاست کا صدر مقام ہواکرتا تھا۔ یہ جگہ سرحدی چوکی سے 20 میل اور 315 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ قدیم و جدید طرز کی خوبصورت سی بستی ہے۔ مرغزار ایک اور خوبصورت سی آبادی ہے جو سیدوشریف سے نومیل دور مغربی سمت میں واقع ہے۔ یہاں گنجان جنگل اور بافراط چشمے ہیں اور سابق ریاست سوات کے پانی کا سفید سنگ مرمرکا خوبصورت محل بھی ہے جہاں ملکہ الزبتھ نے بھی اپنے دورہ پاکستان میں قیام کیا تھا۔ منگورہ ریاست کا سب سے بڑا شہر ہے جو لنڈاکی سے 19 میل دور اور سیدوشریف سے ایک میل جنوب میں واقع ہے۔ اس کا بڑا حصہ نوتعمیر ہے۔ سیدوشریف سوات کا مرکزی مقام ہے اور یہاں سے چاروں طرف سڑکیں پھوٹتی ہیں۔ سوات میں تمام ترسیاحوں کیلئے ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ اس علاقے میں بہت سی معدنیات اور کانیں موجود ہیں۔ سیدوشریف اور منگورہ سے دور تمام سمتوں میں بلندوبالا پہاڑی سلسلے اور گھنی اور سرسبزوشاداب وادیاں پھیلتی چلی گئی ہیں۔ مبنر کی وادی تو ایک لحاظ سے سوات کی وادی سے بھی بہتر ہے۔ اس کا اپنا حسن اور دل کشی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سیداحمدشہیدؒ نے سکھوں سے جنگ لڑی تھی۔ درہ کڑاکڑ میں ہروقت حسن و سلوک کا طلسم چھایارہتا ہے اور دیکھنے والا مسحور ہوکررہ جاتا ہے۔ اسی طرح قوس نما درہ چمبیلا بھی پراسرار آسمانی حسن میں لپٹا نظر آتا ہے۔ سوات کے بالائی علاقے کالام میں کوہ پیمائی کے شاندار مواقع ہیں۔ یہ برفانی کھیلوں کا بہت بڑا مرکز بھی ہے۔ سیاحوں کی سہولت کیلئے بھی یہاں ہوٹل موجود ہیں۔ کالام میں مچھلی کی افزائش کا خاص اہتمام کیا گیا ہے اور یہاں پر ٹراؤٹ کی مچھلی بہت مشہور ہے۔ موسم کے لحاظ سے سوات کو سال کے کسی بھی حصے میں دیکھاجاسکتا ہے۔ اپریل اور مئی میں یہاں باغات پھلوں سے لدجاتے ہیں۔جولائی، اگست میں سرسبزوادی دھل دھلا کر اور نکھر جاتی ہے اور نومبر دسمبر میں جب برف پہاڑوں کے قدموں تک کو چھپالیتی ہے تو وادی کا حسن اور بھی سحرانگیز ہوجاتا ہے۔ بہار کے موسم میں دریائے سوات کے ساتھ ساتھ اس کے دونوں کناروں پر میلہ لگتا ہے اور اس کے حسین و خوبردباشندے بہار کا رقص و نغمہ سے استقبال کرتے ہیں۔ الغرض سوات اس خطۂ ارض کا نام ہے جس کی شاداب وادیوں میں ہوائیں ابدی مسرت کے گیت گاتی چلتی ہے۔ پہاڑی دامنوں پر ان گنت چشمے والہانہ انداز میں پھوٹتے ہیں اور دریا کی نیلی اور چنچل لہریں سرشاری کے عالم میں رقص کناں رہتی ہیں۔ ہم نے ان وادیوں میں اپنی زندگی کے یادگار دن گزارے اور یہ منظر ہر وقت آنکھوں کے آگے چھائے رہتے ہیں۔ حکومت کو ٹورزم پر بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ وادی سوات جنت نظیر وادی ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب