سال تو سارا ہی گمنامی میں کٹ جاتا ہے
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
تحریر: شیخ محمد انور 2024ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
مزدور کہنے کو تو ایک محنت کش اور غریب طبقہ سمجھا جاتا ہے لیکن اگر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو یہ بہت ہی قابل احترام ہے۔ یہ اپنی دن رات کی محنت سے وہ کارنامے انجام دیتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے لیکن اس کیلئے افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو اس کے حقوق ادا کیے جاتے ہیں اور نہ ہی اس کی محنت کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ محنت کش افراد گھروں اور عمارتوں کو حسین اور خوبصورت بنا کر ملک اور شہر کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں اپنے خون پسینے کی محنت سے وہ غلہ اور اناج تیار کرتے ہیں جو ہماری صحت کا ضامن بنتا ہے۔ مزدور اپنے رزق کی خاطر دوسروں کے گھروں کی تعمیر میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں اور اپنے لیے زمین پر ایک گھر بھی نہیں بناسکتے۔ دوسروں کی فرمائشوں کے مطابق گھروں کی تزئین و آرائش میں ساری زندگی گزار دیتے ہیں لیکن اپنے لیے خوشی کا ایک لمحہ بھی نہیں سمیٹ سکتے۔ ہمارے معاشرے میں مزدوروں کی مراعات اور سہولیات کا کوئی خیال نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ مزدوروں کے عالمی دن پر جو خاص ان کیلئے سال میں ایک بار آتا ہے اس پر بھی یہ غریب مزدور چھٹی نہیں کرتا۔ اپنے اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کیلئے نہ سردی، نہ گرمی، نہ بارش،نہ دھوپ کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا یہاں تک کہ آرام کی پرواہ بھی نہیں کرتا اور آخری سانس تک محنت کش مزدور ہی رہتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا دامن ہمیشہ خالی ہی رہتا ہے۔
شہر میں مزدور جیسا دربدر کوئی نہیں
جس نے سب کے گھر بنائے اس کا گھر کوئی نہیں
مزدوروں کے حقوق پر پروگرام کرنے والے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار کرنے والے جن کے بچوں کے علاج بھی دوسرے ممالک میں ہوتے ہیں، مزدور کے روز و شب سے واقف نہیں ہوتے اور اس دن مزدوروں کے حق میں لمبی لمبی تقاریر کرنے لینڈ کروزر پر آتے ہیں لیکن صرف تقریروں سے مزدوروں کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ تقاریر میں حکومتی سطح پر مزدوروں سے بہت سے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن اگلے سال یکم مئی کو مزدوروں کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ ان سیمیناروں میں اگر کبھی جانے کا اتفاق ہو تو غور کیجیے گا کہ ان تقریبات میں آپ کو وہ حضرات نظر ہی نہیں آئیں گے جن کیلئے یہ تقریبات منعقد کی گئی ہوں۔ کیونکہ وہ مزدور ہیں اور انہیں کسی نے دعوت ہی نہیں دی۔ مثال کے طور پر اگر انہیں دعوت دی بھی گئی ہو تو پھر بھی وہ تقریب میں شامل نہیں ہوسکیں گے کیونکہ وہ تو مزدور ہے اور اُسے پتہ ہے کہ اگر آج کام نہ کیا تو گھر خالی ہاتھ لوٹنا پڑے گا تو بچوں کو کھانا کیسے کھلاؤں گا۔ مزدور بچوں سے ڈرتا ہے کیونکہ بچے ہی اُس کا سب کچھ ہوتے ہیں۔ اگر ایسے ہی لیبر ڈے منانا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس دن کو منانا چھوڑ دیں کیونکہ جن کیلئے ہم یہ دن مناتے ہیں اگر وہ آرام نہیں کرسکتے اور چین کی نیند نہیں سو سکتے تو کیا فائدہ ایسی چھٹی کا اور اس دن کو مزدوروں کے نام سے منسوب کرنے کا۔
تعمیروترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے
جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں
آپ خود اندازہ کرلیں گے کہ ہم موجودہ دور میں کتنے نازک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ دنیا کے تقریباً 80 ممالک میں آج یکم مئی لیبر ڈے کے طور پر منایاجارہاہے۔ لیکن کبھی کسی نے غور نہیں کیا کہ نابالغ بچوں سے جو محنت مزدوری کروائی جاتی ہے وہ کس زمرے میں آتی ہے اور نہ ہی کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہمارے ملک میں موجود کتنے ہی بچے محنت مزدوری کرکے اپنا گزر بسر کررہے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی معصوم بچے ہیں جن کے نرم اور نازک ہاتھوں میں کتابیں کھلونوں کی جگہ اینٹ اور سیمنٹ جیسی چیزیں ہوتی ہیں۔ کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے جنہیں میں اور آپ چھوٹا کہتے ہیں یہ اپنے گھر کے بڑے ہوتے ہیں۔ ان کا دل بھی کرتا ہے کہ ہم اچھا لباس پہنیں، اچھا کھانا کھائیں، خوشی سے رہیں، پڑھائی لکھائی کریں، کھیلا کودا کریں مگر وقت انہیں ان کے بچپن سے کھینچ کر بڑا ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔
نیند آئے گی بھلا کیسے اسے شام کے بعد
روٹیاں بھی نہ میسر ہوں جسے کام کے بعد
آج کے دن پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک کے مزدور ”یوم مئی“ کے موقع پر شکاگو کے محنت کش رہنماؤں اور ان کے ہزاروں جانشینوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے 1886 ء میں دنیا کے مختلف ممالک کی مزدور تحریکوں میں انسانیت کی بقاء کیلئے اپنی جانیں قربان کردیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں سے تقریباً سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انہیں اجرت بھی بہت کم دی جاتی تھی اور صنعتوں کے مالکان اسی کشمکش میں لگے رہتے تھے کہ مزدور اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کریں۔ اگر کوئی مزدور باقی مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا تھا یا پھر مار دیا جاتا تھا۔ لیکن چاہے انسان جتنا بھی ظلم کرلے ایک نہ ایک دن حق غالب آہی جاتا ہے۔ صنعتوں کے مالکان کے خلاف مزدوروں نے تنظیم بنالی اور مطالبہ کیا کہ وہ لوگ 8گھنٹے کام کریں گے۔ اس مطالبے کے اگلے ہی دن کئی مزدوروں کو گرفتار کرلیا گیا اور اُن پر مقدمات درج کردئیے گئے۔ کئی مزدور لیڈروں کو پھانسی اور قید کی سزائیں ہوئیں لیکن آخر کار یہ تنظیم زور پکڑتی گئی، ملازمین کی قربانیوں اور ہڑتالوں کی وجہ سے آخرکار مزدوروں کا مطالبہ مان لیا گیا اور اب کوئی بھی مزدور 8گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرتا۔یکم مئی محنت کشوں کی فتح کا دن ہے۔ شکاگو کے شہیدوں نے محنت کی عظمت کا لازوال نقش قائم کیا۔ اس دن سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور حکومت نے مزدوروں کی تحریک کو کچلنے کیلئے ان نہتوں پر بے دریغ طاقت کا استعمال کیا اور نہتے مزدوروں پر گولیاں برسادیں۔ مزدور حقوق کے حصول کیلئے مزدوروں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ بے شمار مزدور موقع پر شہید ہوگئے، بے شمار مزدوروں کو سولی پر لٹکا دیا گیا۔ امریکہ کے شہر شکاگو کی سڑکیں خون سے سرخ ہوگئیں اور بالآخر ان قربانیوں کے نتیجے میں صنعت کاروں اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 1886ء میں بیس گھنٹے مشقت کی بجائے آٹھ گھنٹے ڈیوٹی لینے کا حکم جاری ہوا۔اس طرح مزدوروں کے یہ الفاظ درست ثابت ہوئے اور یوم مئی دنیا بھر میں محنت کشوں کا عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شکاگو کے مزدوروں نے مزدوروں کے حقوق کیلئے بہت بڑی قربانی دی اور مزدوروں پر ہونے والے ظلم استحصال کو ختم کرنے کی نوید سنائی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کو آٹھ گھنٹوں میں متعین کروایا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کیونکہ کسی استحصالی ریاست یا حکومت کے خلاف لڑنا کوئی آسان کام نہیں اور نہتے مزدوروں کا مسلح سپاہیوں سے ٹکرانا نہایت مشکل ہے لیکن جب کوئی شخص یا طبقہ اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے جنگ آزما ہوجاتا ہے تو پھر وہ ہر طاقت سے ٹکرا جاتا ہے لیکن ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ دین اسلام میں مزدور کی محنت کی عظمت کا تصور بہت اعلیٰ اور برتر ہے۔یوم مئی کے دن مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا مگر اس واقعہ کے ڈیڑھ صدی گزر جانے کے بعد بھی پاکستان کے محنت کشوں کا طبقاتی نظام پر احسان بھی کچھ کم نہیں جو انتہائی کم اجرتوں پر مہنگائی سے لڑتے لڑتے روز جیتے اور روز مرتے ہیں، میرے نزدیک موجودہ دور میں مزدور کو صرف بیروزگاری، غربت اور مہنگائی کا سامنا ہے بلکہ گیس اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ہزاروں صنعتیں بند اور لاکھوں محنت کش بے روز گار ہوگئے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام نے آج سے 1400 سال پہلے مزدور کے حقوق متعین کردئیے تھے اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسلام کے ماننے والے معاشرے اور ممالک میں ہی مزدوروں کو ان کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔ پاکستان میں مزدور کی جو حالت ہے اُسے صرف مزدور ہی سمجھ سکتا ہے۔ ہر سال یکم مئی کے موقع پر مزدوروں کے حقوق کے بارے میں پروگرام ہوتے ہیں اور پروگرام بھی وہ لوگ کرتے ہیں جن کو مزدوروں کے حالات کا علم بھی نہیں ہوتا۔ اس دن حکمران مزدوروں کیلئے کچھ اعلانات کرتے ہیں، ٹی وی پر پروگرام ہوتے ہیں، اخبارات مزدوروں کی حمایت اور حقوق سے بھرے ہوتے ہیں اور حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان کا دل مزدوروں کیلئے پسیج گیا ہو۔ مگر افسوس کہ یہ دن آتا ہے اور مزدوروں کی مشہوری کرتے کرتے گزر جاتا ہے لیکن مزدوروں کے حالات نہیں بدلتے۔ آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے ہمیشہ سے مزدوروں کو اُن کے حقوق سے محروم رکھنے کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔اس دن مزدوروں کی محرومیوں اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر مگرمچھ کے آنسو بہانے والے خود محلوں اور بنگلوں میں رہتے ہیں اور ان کی اولادوں کی سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی فیس لاکھوں میں ہے، ان کو کیا علم کہ مزدور کیا ہوتا ہے اور غربت کس چیز کا نام ہے۔ صرف جلسے جلوس کرنا اور تقاریر کرنا ہی لیبر ڈے کا حصہ نہیں بلکہ اُن کو ان کے جائز حقوق دلوانا، وقت پر اجرت دینا، اجرت بڑھانا، کام تھوڑا لینا، مزدور کو مزدور نہیں بلکہ انسان سمجھنا یہ تمام کام بھی لیبر ڈے کا ہی حصہ ہیں۔ حکومت کو مزدوروں کی فلاح و بہبود سے کسی قسم کی کوئی دلچسپی نہیں ہے لہٰذا آج مزدور دشمنی میں نجکاری، چھانٹیاں اور برطرفیاں عام ہو چکی ہیں، تنخواہوں میں تاخیر، ریٹائر ملازمین اور بیواؤں کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر، ریٹائرملازمین اور بیواؤں کی پینشن میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔ مزدور یونینوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں مزدور تحریک بدترین بحران کا شکار ہے۔ پاکستان ریلوے جیسے سب سے بڑے ادارے میں انتظامیہ اور حکومت ریفرینڈم سے مسلسل فرار اختیار کیے ہوئے ہے۔ یوم مئی بین الاقوامی طور پر مزدوروں کی عید یا بڑے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو مناتے ہوئے مزدور شکاگو کے شہیدوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
میرا تعلق مزدوروں کی دنیا سے ہے اورمیں پاکستان ریلوے میں تقریباً 39 سال نوکری کرکے ریٹائرہوگیا ہوں۔ کیونکہ میں شروع دن سے ہی پریم یونین کے جھنڈے تلے مزدوروں کی سربلندی کیلئے جدوجہد کررہا تھا۔ اُس جھنڈے کو تھاما تھا جس کے سربراہ پاکستان کی مشہورومعروف شخصیت سابق رکن قومی اسمبلی جس کے بارے میں شاید شاعر نے کہا کہ:
جو چلے تو سیل رواں
گر رُکے تو کوہِ گراں
میری مُراد حافظ سلمان بٹ ہے جو کہ 28 جنوری 2021ء بروز جمعرات اس فانی دنیا سے لافانی جہاں کی طرف رخصت ہوگئے۔ اُس کے بعد پریم یونین کی صدارت کی ذمہ داری مجھ ناتواں کے کاندھوں پر ڈال دی گئی۔ اس دوران میں نے لنڈی کوتل سے چمن، چمن سے دالبندین، دالبندین سے کراچی، کراچی سے چک امرو تک ریلوے میں دو مرتبہ اسٹیشن سے اسٹیشن سفر کیا۔ میں نے دیکھا کہ جتنا استحصال مزدور کا کیا جارہا ہے تو میرے نزدیک اللہ کا عذاب تو پھر آنا ہی ہے۔ اس ادارے میں 12 ہزار سے زائد بچے اپنی جوانی ریلوے پر لُٹا چکے مگر آج تک اُن کو عارضی ملازمین یعنی ٹی ایل اے ملازمین کہا جاتا ہے۔ نہ تو وہ کسی اور ادارے میں نوکری کے قابل رہے کیونکہ وہ اپنی عمر کی حد پار کرچکے ہیں اور نہ ہی ریلوے اُن کو مستقل کرنے کو تیار ہے۔ آپریشنل کیٹگری میں ایک ملازم کو ٹیکنیکل الاؤنس ملتا ہے تو دوسرے ملازم کو نہیں ملتا۔ ایک ملازم کو آپریشنل الاؤنس ملتا ہے تو وہ دوسرے کو نہیں ملتا۔ جب تک اس ادارے میں استحصال جاری رہے گا تب تک اس ادارے میں خیروبرکت آنا بہت مشکل ہے۔ عید کے فوراً بعد ریلوے میں مزدوروں کے حقوق کیلئے تحریک چلانے کا پروگرام ہے۔ اس ادارے میں آج بھی مزدور 16 گھنٹے اور بعض اسٹیشنوں پر 24گھنٹے ڈیوٹی کرنے پر مجبور ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ریلوے میں ہزاروں آسامیاں خالی ہیں اور اُن کی جگہ بھرتیاں نہیں کی جارہیں۔ ملازمین کی بے شمار کمی ہے اس وجہ سے لوگوں کو مجبوراً 24 سے 48گھنٹے ڈیوٹی کرنی پڑتی ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ ایک طرف تو ملک میں بے روز گاری ہے اور دوسری طرف عوام کو نوکریاں نہ دینا سوالیہ نشان ہے۔ میں حیران ہوں کہ تنخواہ جب بھی رُکتی ہے تو ریلوے کے غریب ملازمین کی ہی رُکتی ہے۔ میں نے کبھی نہیں پڑھا کہ کسی ممبرانِ اسمبلی، کسی وزراء اعلیٰ، کسی سینیٹر، عدلیہ کے ملازمین، پیرامیڈیکل سٹاف، سیکرٹریٹ، سروسز کے ملازمین کی تنخواہوں میں تاخیر ہوئی ہو۔ جب بھی تاخیر ہوتی ہے تو ریلوے کے غریب ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر واجبات میں ہی ہوتی ہے۔ مہنگائی کے اس تیز ترین دور میں ایک مزدور اتنی کم آمدنی میں اپنے بیوی بچوں کو کیسے پالتا ہے؟ مہنگائی کی رفتار اس قدر بڑھ رہی ہے کہ متوسط اور متمول طبقات کیلئے بھی مہینے بھر کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔ کئی ایسے مزدور بھی ہیں جو یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں اور ان کے حالات عام مزدوروں سے بھی بدتر ہیں کیونکہ انہیں کبھی کام ملتا ہے اور کبھی پورا دن انتظار کے بعد بھی خالی ہاتھ اپنے گھر واپس لوٹنا پرٹا ہے۔ مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر کئی تقاریب، ریلیاں، جلسے جلوس اور تقاریر منعقد ہوتی ہیں، حکومت کے اعلیٰ افسران اور عہدیدار مزدوروں کیلئے جو وعدے کرتے ہیں وہ آج تک کبھی پورے نہیں ہوسکے۔ تقریباً ہر سال بجٹ میں مزدوروں کیلئے نئی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہے جس پر عمل درآمد نہیں ہوتا اور تمام وعدے یونہی ہوا میں اُڑ جاتے ہیں۔
لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی
یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی