حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں۔

تحریر: شیخ محمد انور 2020

ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کا کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ وہ خوش قسمت ترین عورت ہیں جن کو حضورﷺ کی زوجہ محترمہ 

اور ”ام المومنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا لقب صدیقہ، خطاب ام المومنین، کنیت ام عبداللہ اور لقب حمیرا ہے۔ آنحضورﷺ کبھی کبھی محبت سے بنت الصدیق سے بھی مخاطب فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام عبداللہ کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا، ماں کا نام ام رومان تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ولادت کی تاریخ شوال 9 قبل ہجرت مطابق جولائی 614ء ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں اور ماں کی طرف سے گیارہویں یا بارہویں پشت میں جا کر حضورﷺ سے مل جاتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کی دولت سے مالامال ہوچکے تھے اور آپ کا گھر نور اسلام سے منور ہوچکا تھا اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا توان کو مسلمان پایا۔ غیر معمولی اشخاص اپنے بچپن ہی سے اپنی حرکات و سکنات اور نشوونما میں ممتاز ہوتے ہیں ان کے ایک ایک خط و خال میں کشش ہوتی ہے ان کی روشن پیشانی سے مستقبل کا نور خود بخود چمک چمک کر ان کی عظمت کا پتہ دیتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے تھیں، بچپن ہی میں ان کے ہر انداز سے سعادت اور بلندی کے آثار نمایاں تھے۔ دوسرے بچوں کی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بھی لڑکپن میں کھیل کود کی بہت شوقین تھیں لیکن اس لڑکپن اور کھیل کود میں بھی رسول اللہ ﷺ کا ادب ہر وقت ملحوظ رہتا۔ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ گڑیوں سے کھیل رہی تھیں کہ آنحضورﷺ پہنچ گئے، گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے دائیں بائیں دو پر لگے ہوئے تھے، آپ نے استفسار فرمایا ”عائشہ! یہ کیا ہے؟ جواب دیا کہ گھوڑا ہے آپ نے فرمایا گھوڑوں کے تو پر نہیں ہوتے“۔ انہوں نے برجستہ کہا ”کیوں نہیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑوں کے تو پر تھے“ آپ اس بے ساختہ پن کے جواب پر مسکرا دئیے، اس واقعہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی فطری حاضر جوابی، مذہبی واقفیت اور ذکاوت ذہن کا اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی شادی کی تاریخ میں اختلاف ہے، علامہ بدرالدین عینی نے شرح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا نکاح ہجرت سے دو برس پہلے بعض جگہ تین برس پہلے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈیڑھ برس پہلے ہوا تھا۔ بعض اور روایتوں میں ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے تین برس بعد آنحضورﷺ نے حضرت عائشہؓ سے نکاح کیا تھا اور بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا اسی سال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا نکاح ہوا۔ بیوی کا سب سے بڑا فرض شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے نو برس کی شب و روز کی طویل صحبت میں آپ کے کسی حکم کی کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ اندازواشارہ سے بھی کوئی بات ناگوار محسوس کی تو فوراً ترک کردی۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہیں تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں سے ایک حجرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا مسکن تھا۔ آپ زہد وقناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں، اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا تو آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لے کر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتی تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کر اُٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضورﷺ کی وفات کے بعد اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بڑے شوق سے دروازہ پر ایک مصور پردہ لٹکایا، آپﷺ نے اندر داخل ہونے کا قصد فرمایا تو پردہ پر نظر پڑی فوراً تیوری پر بل پڑگئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ یہ دیکھ کر سہم گئیں اور عرض کی ”یارسول اللہﷺ قصور معاف مجھ سے کیا خطاسرزد ہوئی؟ فرمایا جس گھر میں تصویریں ہوں اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے“ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فوراً پردہ چاک کرڈالا۔ رسول پاکﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بھی برابر چاشت کی نماز پڑھاکرتیں اور فرماتی تھیں کہ اگر میرے باپ بھی قبر سے اٹھ کر آئیں اور منع کریں تو میں نہ مانوں گی۔ ایک دفعہ ایک عورت نے آکر پوچھا کہ ”ام المومنین! مہندی لگانا کیسا ہے“جواب دیا کہ میرے محبوب کو اس کا رنگ پسند تھا لیکن بو پسند نہ تھی، حرام نہیں تم چاہے لگاؤ چاہے نہ لگاؤ“۔ گھر میں اگرچہ خادمہ موجود تھی لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپﷺ کا کام خود اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں۔ آٹا خود پیستی تھیں، خود کھانا پکاتیں، بستر اپنے ہاتھ سے بچھاتیں، وضو کا پانی خود لاکر رکھتیں تھیں۔ آنحضورﷺ کے سر میں اپنے ہاتھ سے کنگھا کرتیں، آپ کے کپڑے اپنے ہاتھ سے دھوتیں، مسواک کی صفائی کی غرض سے دھویا کرتی تھیں اور گھر میں آپ کا کوئی مہمان آجاتا تو مہمان کی خدمات انجام دیتیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں، جو موجود ہوتا سائل کی نذر کردیتیں۔ ایک دفعہ ایک سائلہ آئی جس کی گود میں دو ننھے بچے تھے، اتفاق سے گھر میں اس وقت کچھ نہ تھا صرف ایک چھوہارا تھا اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں میں تقسیم کردئیے۔ رقیق القلب بھی بہت تھیں، بہت جلد رونے لگتی تھیں، حجتہ الوداع کے موقع پر جب نسوانی مجبوری سے حج کے بعض فرائض ادا کرنے میں معذوری آگئی تو اپنی محرومی پر بے اختیار رونے لگیں۔ آنحضورﷺ نے تشفی فرمائی تو قرار آیا۔ نبی اکرمﷺ کی لاڈلی بیوی ہونے کے باوجود ہر وقت اللہ سے ڈرتی رہتی اور دُعا فرماتیں کہ اے اللہ قبر کی منزل کو آسان فرما دے۔ یہ خوف ہم سب کیلئے ایک مشعل راہ ہے۔ اللہ کو یاد کرکے کثرت سے رویا کرتی تھیں اور ہر وقت اللہ سے عافیت مانگتی رہتی تھیں۔ علمی حیثیت سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف عورتوں پر اور امہات المومنین پر اور خاص خاص صحابہ پر بلکہ چند بزرگوں کو چھوڑ کر تمام صحابہ پر فوقیت عام حاصل تھی۔ خود رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ ”آدھا علم حمیرا سے حاصل کرو“۔ 58ء میں رمضان کے مہینہ میں بیمار پڑیں، چند روز تک علیل رہیں، رمضان کی 17 تاریخ بمطابق 13 جون 678ء کو نماز وتر کے بعد شب کے وقت وفات پائی۔ جنازہ میں اتنا ہجوم تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا۔ حضرت ابوہریرہؓ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور حسب وصیت جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔ حضرت عائشہؓ کے علاوہ دوسری ازدواج مطہرات بیوہ ہوکر آنحضرت ﷺکے حبالہ عقد میں داخل ہوئی تھیں اس بناء پر ان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ ہی تنہا خالص فیضان نبوت سے مستفیض تھیں۔ لڑکپن کا زمانہ جو تعلیم و تربیت کا زمانہ ہے ابھی شروع ہوا ہی تھا کہ اللہ ربُ العزت نے کاشانہ نبوت میں پہنچا دیا کہ ان کی ذات اقدس پر نور اور کامل بن کر دنیا کی نصف لطیف آبادی کیلئے شمع راہ بن جائے۔ 

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے