تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
سانحہ مچھ، مظلوم ہزارہ برادری انصاف کی منتظر
آج دل بہت بوجھل ہے۔ سال 2020ء تو کرونا وبا کے زیر سایہ گزرا تو سال 2021ء کے آغاز میں ہی ملک کے مختلف حصوں میں پے درپے رونما ہونے والے دلخراش واقعات نے تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی فورس کے اہلکاروں نے 21 سالہ بے گناہ نوجوان اسامہ ندیم ستی کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، ابھی اسامہ ندیم ستی کے بہیمانہ قتل کا زخم بھرا نہیں تھا کہ بلوچستان کے علاقے مچھ میں دہشت گردوں نے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کوئلے کی کان میں کام کرنے والے 11 مزدوروں کو نجانے کس جرم کی سز ا دیتے ہوئے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلا دیا۔ ہزارہ برادری کے مقتولین کو ابھی دفنایا نہیں گیا تھا کہ صوبہ پنجاب کے علاقے حاصل پور میں ملزمان نے اہل خانہ کے سامنے ایک جوان لڑکی کی عصمت دری کرتے ہوئے جس طرح مدینے کی ریاستی رٹ کو چیلنج کیا وہ لمحہ فکریہ ہے۔کیا اب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اس حد تک بے بسی کا شکار ہیں کہ وہ قانون شکن عناصر کوکسی بھی صورت نکیل نہیں ڈال سکتے؟کبھی زینب جیسی ننھی کلیوں کو انتہائی سفاکی کے ساتھ جنسی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی موٹروے پر کسی خاتون کو بچوں کے سامنے حوس کا نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ ملکی حالات خرابی کی طرف جا رہے ہیں اور ارباب اختیار کو ادراک ہی نہیں ہے۔ اگر اسامہ کا قتل انسداد دہشت گردی کی کارروائی تھا تو اس کے شواہد کہاں ہیں؟ کیا وہ مسلح تھا؟ اس کے پاس سے کون سے مہلک ہتھیار برآمد ہوئے تھے؟ اسے سامنے سے فائرنگ کر کے مارا گیا تھا۔ اب تک کے شواہد کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار ایک بے گناہ نوجوان شہری کے بیجا قتل کے مرتکب ہوئے۔ یہ ایسے واقعات ہیں جن کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے واقعات کے حوالے سے جہاں انسانیت کا سر شرم سے جھک رہا ہے وہاں یہ سوال بھی جنم لے رہا ہے کہ ریا ست کہاں ہے؟ ماضی میں بھی ہزارہ قبیلے کے مختلف افراد کو شناخت کے بعد موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ نجانے کب دہشتگردی سے نجات ملے گی؟آخر کب تک بے گناہوں کے خون سے یونہی ہولی کھیلی جاتی رہے گی؟ اس ملک کا ہر شہری قابل احترام ہے، اس کا تعلق چاہے کسی بھی فرقے، مسلک، ذات برادری یا مذہب کے ساتھ ہو، اس ملک کے ہر شہری کے جان ومال اور عز ت و آبرو کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے، مگر شاید ریاست اپنی یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا نہیں پا رہی۔ سانحہ مچھ میں مرنے والوں کے لواحقین انصاف کے لیے کوئٹہ میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ وزیر داخلہ شیخ رشید، وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال، وفاقی وزیر علی زیدی اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری دھرنے کے شرکا کو منا نہیں سکے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی سانحہ ہوا یا کوئی ایسا واقعہ ہوا جس میں انصاف کے لیے متاثرین نے دھرنا دینے کو ترجیح دی تو ایسے ہی متعلقہ اداروں کے افراد یا حکومتی وفد آئے جھوٹی تسلیاں دی گئی، وقتی طور پرعوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر رات گئی بات گئی۔ اگر کسی کو یقین نہیں آرہا تو سانحہ ساہیوال آج بھی انمٹ نقوش چھوڑے تاریخ کے گرد آلود اوراق میں محفوظ ہے۔ ملک میں انصاف کے نام پر انصاف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ہر روز چیخ چیخ کر حالات کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہا ہے مگر یہاں فکر کسے ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن ہے، یہاں کسی کو کرسی بچانے کی فکر ہے تو کوئی نیب زدگان کے ٹولے کے ذریعے عوام کی بے بسی اور محرومیوں کو سیڑھی بنا کر پھر سے اقتدار کے مزے لینے کا خواہش مند ہے۔ اس ملک میں عوام کا کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔ وہ سیاستدان جو پہلے اپوزیشن میں ہوتے ہیں حکومت میں جاتے ہی ان کے ضمیر مردہ ہو جاتے ہیں اور یونہی اقتدار ختم ہوا پھر سے ان کے ضمیر جاگ اٹھتے ہیں اور انہیں عوام کے مسائل نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردوں نے جس بے دردی کے ساتھ 11مزدوروں کو شناخت کے بعد ابدی نیند سلایا اس سے ایک ہی تاثر سامنے آ رہا ہے کہ ہمسایہ ملک بھارت پاکستان کو فرقہ ورانہ فسادا ت کی آگ میں جھونکنے کا خواہش مند ہے۔ افغانستان میں درجنوں بھارتی سفارتخانے تخریب کاری کے ٹریننگ سینٹروں میں تبدیل ہو چکے ہیں جہاں دہشتگردوں کو تربیت دے کر پاکستان کے مختلف حصوں میں بھیجا جاتا ہے تا کہ ملک کا امن تباہ ہو سکے۔ حالات اور وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری حکومت کو فی الفور اپنی ترجیحا ت میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ جب تک حکمران ہمدرد، عوامی جذبات اور احساسات کو سمجھنے والے نہیں ہوں گے اس وقت تک بہتری ناممکن ہے۔ سانحہ مچھ کے حوالے سے جس قدر بھی افسو س کیا جائے کم ہے۔ اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اس صوبے کی اپنے محل وقوع کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت ہے۔ اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خیبر پختونخوا، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ و پنجاب اور مغرب میں ایران واقع ہے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ مچھ بلوچستان کے ضلع بولان کی ایک تحصیل ہے۔ جس کی آبادی ہزاروں افراد پر مشتمل ہے۔ یہ علاقہ کوئلے کی پیداوار کے لحاظ سے بہت مشہور ہے۔ دریائے بولان کے کنارے واقع اس علاقے میں ملک کی سب سے بڑی جیل بھی واقع ہے۔ جس میں میر غوث بخش بزنجو، میر گل خان نصیر، فیض احمد فیض، خان عبدالغفار خان، خان ولی خان، سجاد میر، محمد حسین عنقا، آغا عبدالکریم خان اور میر عبدالواحد کرد جیسی نامور شخصیات قید ر ہی ہیں۔افسوس یہاں کام کرنے والے مزدور کبھی کانوں میں ہونے والے دھماکوں کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں تو کبھی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ محکمہ معدنیات کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ نو سالوں کے دوران 530 سے زائد کان کن کوئلہ کی کانوں میں حادثات کا شکارہوکر شہیدہوئے ہیں۔ بلوچستان کی کانوں سے نکلنے والے کوئلے کا شمار دنیا کے بہترین کوئلے میں کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں مچھ کے علاوہ ہرنائی، مارگٹ، مارواڑ، دکی اور چمالانگ میں بھی کوئلے کی کانیں موجود ہیں۔ بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیا میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقے میں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔ کوئلے کی ان کانوں میں سوات، کوہستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مزدور کام کرتے ہیں۔ بلوچستان کے پانچ اضلاع میں 2500 کوئلے کی کانیں موجود ہیں جن میں 60 ہزار کے قریب محنت کش کام کرتے ہیں۔ یہ بھی اکثر سننے میں آتا رہتا ہے کہ چمالانگ، مارگٹ اور مارواڑ کے سوا بلوچستان کے زیادہ تر علاقوں میں کان کنوں کی سکیورٹی کے غیر موثر انتظامات ہیں۔ مچھ بھی کان کنی کے لحاظ سے ایسا ہی علاقہ ہے یہاں بھی سکیورٹی کے خاطرخواہ انتظامات نہیں ہیں اور نہ ہی ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے اس حوالے سے توجہ دی گئی ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پانچ سو سے زائد ہزارہ برادر ی کے افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔ غریب محنت کش کان کنوں کا قتلِ عام محض11 انسانوں کا قتل قانون اور قانون نافذکرنے والے اداروں کے وقار کا قتل ہے۔ ان 11 محنت کشوں کا قتل دشمن سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔وہ چاہے ہزارہ برادی ہو یا کوئی اور ہرپاکستانی کے جان ومال کی حفاظت ناگزیر ہے۔