شعبہ تعلیم اس سال بھی لاوارث

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2020؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
شعبہ تعلیم اس سال بھی لاوارث
یکساں تعلیمی نصاب کا نفاذ وقت کا تقاضا
24جنوری ورلڈ ایجوکیشن ڈے کے حوالے سے خصوصی تحریر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 24 جنوری کو عالمی یوم تعلیم منایا جاتا ہے۔ 3 دسمبر 2018ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے تعلیم کا دن منانے کی قرارداد منظور کی تھی، جس کا مقصد امن اور ترقی کے لیے تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ سنگین مسائل سے دوچار ہے اور یہاں ہنگامی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تعلیمی عمل کو معیاری بنانے کے لیے نت نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دنیا بھر میں آج بھی 61 کروڑ 70 لاکھ بچے اور بالغ افراد بنیادی ریاضی کو پڑھنے اور سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ایک طرف دنیا تعلیم کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کر کے ترقی کی منازل طے کر رہی ہے تو دوسری طرف اتنی بڑی تعداد میں بچوں اور بالغ افراد کا بنیادی تعلیم سے بھی محروم ہونا لمحہئ فکریہ ہے۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ تعلیم کے بغیر قومیں ترقی نہیں کرتی۔ انسان اور حیوان میں فرق بھی تعلیم ہی کے باعث ہے۔ اگر یوں  کہا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا کہ تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کے لئے ترقی کی ضامن ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف مدرسے، سکول، کالج اور یونیورسٹی سے کوئی ڈگری لینا نہیں بلکہ اس کے ساتھ تمیز اور تہذیب سیکھنا بھی ہے تاکہ انسان اپنی معاشرتی روایات اور سماج کا خیال رکھ سکے۔ تعلیم وہ زیور ہے جس سے انسان کا کردار سنورتا ہے۔ تعلیم ایک ایسا عمل ہے، جس کے ذریعے سے ایک فرد اور ایک قوم ناصرف خود آگہی حاصل کرتی ہے بلکہ یہ عمل اس قوم کو تشکیل دینے والے افراد کے احساس و شعور کو بھی نکھارنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے مسائل کی ایک بھرمار ہے۔ دنیا تعلیمی اداروں کو غیر منافع بخش تنظیموں کے ذریعے چلا رہی ہے مگر پاکستان میں صورتحال اس کے بالکل بر عکس ہے۔ ہمارے ملک میں شعبہ تعلیم کو کاروبار بنا لیا گیا ہے۔ ملک میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم کے نام پر عوام کو دونوں  ہاتھوں  سے لوٹ رہے ہیں لیکن ریاست اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ شعبہ تعلیم کو درپیش مسائل کے حل کے حوالے سے سیاسی لیڈران نے باتیں تو بہت کی ہیں لیکن عملی طور پر تعلیمی نظام کی بہتری کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا ہی مظاہرہ کیا گیا ہے۔ صوبہ پنجاب کے دور دراز کے علاقوں سمیت سندھ اور بلوچستان میں سرکاری سکولوں کی حالت زار توجہ کی متقاضی ہے۔ آئے دن میڈیا پر ایسی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کسی سکول میں مویشی بندھے ہوئے ہیں تو کوئی بھوت بنگلے کا منظر پیش کر رہا ہے۔ سندھ میں آج بھی بہت سے سکول بجلی، ٹوائلٹ اور پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔اندونِ سندھ میں تو سکولوں کی تباہی کی اصل وجہ وڈیرہ شاہی ہے۔ جنہوں نے سرکاری سکولوں  کو مویشیوں کے باڑوں میں تبدیل کر رکھا ہے اور سندھ حکومت ان وڈیرو ں کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہے۔کہنے کو تو سندھ حکومت تعلیم کے لیے خطیر رقم مختص کرتی ہے لیکن وہ نجانے کہاں خرچ ہوتی ہے؟ ملک میں سیاسی جماعتیں الیکشن الیکشن کھیل رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کبھی برسر اقتدار آئی تو کبھی ن لیگ نے اقتدار کے مزے لیے لیکن شعبہ تعلیم کی زبوں حالی پر کسی نے توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اب پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت بھی قریباً اڑھائی سال کا عرصہ گزار چکی ہے لیکن تعلیم کے شعبے میں ابھی تک کسی بھی قسم کی کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ موجودہ حکومت کرونا وبا کی آڑ میں اپنی کوتاہی اور نااہلی چھپانے کی کوشش کر رہی ہے مگر ایسا کب تک چلے گا؟ ملک میں یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ بھی ایک مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی انتخابی تقاریر میں نظام تعلیم کو بہتر بنانے اور ملک میں  یکساں نظام تعلیم کا اکثر وعدہ کرتے دکھائی دیے مگر اب جب وہ حکومت میں ہیں تو انہیں اپنا وہ وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کا شعبہ مکمل طور پر صوبائی حکومتوں کے ماتحت ہے۔ ہمارے ملک میں ایک طرف مہنگے نجی تعلیمی ادارے ہیں اور دوسری طرف مدرسے ہیں۔ کیا دونوں خوش دلی سے یکساں نصاب کو رائج کرنے دیں گے؟ ان دونوں باتوں کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔ پاکستان میں 1947ء میں مدارس کی تعداد 247 تھی جو 1980ء میں 2061 اور اب 30 ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ آج بھی ملک میں ایک اندازے کے مطابق اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں جو دنیا میں دوسری بڑی تعداد ہے، دنیا میں تعلیم کی ترقی کے انڈیکس میں ہمارا نمبر 129 میں سے 113 ہے جو بہت شرمناک بات ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے جو مسائل ہیں انہیں جب تک ترجیحی بنیادوں پر حل نہیں کیا جائے گا اس وقت تک بہتری ممکن نہیں ہے۔ آج بھی ہم سو فیصد داخلے کے ہدف سے بہت دور ہیں۔ خصوصاً لڑکیوں کے داخلے، لڑکوں کے داخلوں کی نسبت تشویشناک حد تک کم ہیں۔ داخلے کے بعد اگلا مرحلہ غیر حاضری اور سکول چھوڑنے کا ہے۔ اگر جیسے تیسے بچے بچیوں کا داخلہ ہو بھی جائے تو یہ کیسے یقینی بنایا جائے کہ وہ تعلیم مکمل کیے بغیر سکول نہیں چھوڑیں گے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو تعلیمی نظام کسی بھی صورت ملکی ترقی میں معاون و مددگار ثابت نہیں ہو گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جن ممالک کا دفاعی بجٹ تو اربوں  روپے میں تھا لیکن انہوں نے تعلیمی بجٹ میں  کسی بھی صورت اضافہ نہیں کیا، انہیں آج مختلف قسم کے مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ دنیا میں آج جو قومیں ترقی کی منازل طے کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں، انہوں نے ناصرف تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا بلکہ اپنے تعلیمی نظام کو درپیش ہر مسئلے کو ترجیحی بنیادوں  پر حل کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ورلڈ بینک سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق 2006ء سے لے کر 2018ء تعلیم پر جی ڈی پی کے 2 فیصد سے لے کر 3 فیصد تک ہی خرچ کیا گیا۔ یہ عدد کبھی 3 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکا۔ ناروے میں جی ڈی پی کا 6 اعشاریہ 4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے، نیوزی لینڈ میں 6 اعشاریہ 3 فیصد، برطانیہ میں 6 اعشاریہ 2 فیصد جبکہ امریکا میں 6 اعشاریہ 1 فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایسے ہی ممالک کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور خود کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں شمار کرتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق دنیا بھر کے 77 کروڑ 30 لاکھ نوجوان اور بالغ افراد بنیادی تعلیمی مہارتوں سے محروم ہیں جبکہ تعلیمی عمل کو موجودہ کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ کردہ لاک ڈاؤن سے بے حد نقصان پہنچا ہے۔ جب سے کرونا کی وبا نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے کبھی تعلیمی ادارے کھل جاتے ہیں اور کبھی بند کر دیے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی جانب سے آن لائن کلاسز کے رجحان میں امسال اضافہ دیکھنے میں  آیا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں آج بھی ایک بہت بڑی تعداد دیہاتوں  میں  رہتی ہے، جہان نہ صحیح معنوں میں انٹرنیٹ کی سہولت دسیتاب ہے اور ناہی طلباء کے پاس کمپیوٹر کی دستیابی ہے۔ ملک میں  بجلی کی لوڈشیڈنگ تو موسم سرما میں بھی مکمل طور پر ختم نہیں  ہو سکی تو موسم گرما میں کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی۔ کرونا وائرس نے تعلیم کا بہت حرج کیا ہے۔ کرونا وائرس کے باعث بچوں کو کسی جگہ پر تو اگلی جماعت میں ترقی دے دی گئی ہے تو کسی جگہ شارٹ سلیبس کے زریعے ہی تعلیمی اداروں نے فیسیں کھری کرنے کی کوشش کی ہے۔ میٹرک تک تو کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اس سے بڑی جماعتوں اور خاص کر میڈیکل کی تعلیم کے حوالے سے صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیمی پسماندگی کے بہت سے اسباب ہیں۔ ملک کے تعلیمی اداروں میں کرپشن اور سیاسی مداخلت کے باعث بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ جعلی ڈگریوں کے دھندے نے بھی قابل اور محنتی طلباء کی حق تلفی کی ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب بار کے انتخابات کا سلسلہ جاری تھا تو اس حوالے سے بھی ایک قومی اخبار میں خبر پڑھنے کو ملی کہ پنجاب بار کے انتخابات کے حوالے سے امیدواروں کی ڈگریوں کی تصدیق کرائی جا ئے گی۔ اکثر ایسی خبریں  پڑھنے کو ملتی ہیں۔ ماضی کی بات کی جائے تو سیاستدانوں  کی ڈگریاں  بھی جعلی نکلتی آئی ہیں۔ بی اے کی ڈگری کی جب شرط رکھی گئی تھی تو کتنے بزرگ سیاستدان الیکشن میں حصہ ہی نہیں لے سکے تھے اور ان کی جگہ ان کے خاندان کے کسی اور فرد کو مجبوراً کاغذات نامزدگی جمع کرانے پڑے تھے۔ یہ تو اس ملک میں تعلیم کا حال ہے۔ بی اے کی شرط کے باعث جو لوگ الیکشن نہیں لڑ سکتے تھے۔ایک وقت تھا کہ وہ اسمبلیوں میں بیٹھ کر اس ملک وقوم کے لیے قانون سازی کرتے تھے۔ اگر دیکھا جائے تو جو بندہ خود اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے اس نے عوام کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کرنے ہیں۔ ماضی میں  ایسے ہی پڑھے لکھے افراد تعلیم کی وزارت کے لیے بھی منتخب کیے جاتے رہے ہیں، اب ملک میں تعلیمی پسماندگی کے بھی یہی لوگ اصل میں  ذمہ دار ہیں۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے