تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2020ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
غیراسلامی کلچراور اس کے مضر اثرات
کلچر تہذیب و ثقافت کا دوسرا نام ہے، کسی قوم کو پہچاننے کیلئے ہم اس کے رسم و رواج، ادب و آداب، مذہب، لباس، رہن سہن، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، زبان، روایات و تاریخ، علم و ہنر پر نظر ڈالتے ہیں اور فوراً سمجھ میں آجاتا ہے کہ وہ انگریز ہے، جاپانی ہے، چینی ہے یا فرانسیسی۔ جس قوم کا کوئی کلچر ہی نہ ہو وہ زیادہ دیرتک زندہ نہیں رہ سکتی۔ مسلمانوں کا کلچر کسی خاص علاقے کے رسم و رواج اور زبان وغیرہ پر موقوف نہیں یہ بالکل جدا اور نرالا کلچر ہے۔ اس کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے اور یہ عالمی کلچر ہے علاقائی نہیں۔ ایک شخص مسلمان ہوتے ہی اپنے انگریزی، جاپانی اور چینی جیسی تشخص کو کھو بیٹھتا ہے اور ملت اسلامیہ میں شامل ہوکر امت واحدہ کا فرد بن جاتا ہے، اس دن سے اس کا ہر فعل ظاہری ہو یا باطنی، قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے، مسلمان برصغیر ہندو پاک میں ایک ہزار سال تک ہندوؤں کے ساتھ رہ کر بھی اپنے اسلامی تشخص کو برقرار رکھ سکا کیونکہ اُس کی تہذیب و ثقافت ہندوؤں کے کلچر سے بالکل جدا تھی۔ گوجر، جاٹ،راجپوت ہندوستان میں داخل ہوئے مگر اپنی انفرادیت کو قائم نہ رکھ سکے اور ہندو کلچر کے زیراثر آکر اس میں جذب ہوگئے۔ اسی منفرد اسلامی کلچر کی وجہ سے تحریک پاکستان کی ابتداء ہوئی جس کا نعرہ سرسید احمد خان نے یہ لگایا کہ مسلمان ہندو قوم سے الگ ہیں، علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی نجاح نے اس تحریک کو عملی جامہ پہنایا اور ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا جہاں وہ ایسا معاشرہ قائم کرسکیں جو قرآن و سنت کے مطابق ہو اور اس میں وہ کامیاب ہوگئے اور ۴۱ اگست ۷۴۹۱ء کو ہندوستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ ہندو نے اس کو گنوا کر دو ٹکڑوں میں تقسیم کے مترادف سمجھا اور پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ پہلے تو اُسے طاقت کے بل بوتے پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور ۵۶۹۱ء میں ہم پر جنگ مسلط کردی گئی مگر جب اس میں ناکامی ہوئی تو مشرقی پاکستان میں بغاوت کرانے کی کوششیں شروع کردی اور جب حالات سازگار ہوگئے تو ۱۷۹۱ء میں اپنی فوجیں بھیج کر اور بغاوت کو تقویت دے کر مشرقی پاکستان کو علیحدہ کراکے اس کو بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بھی ان کے دل کی بھڑاس نہیں نکلی کیونکہ وہ تو اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں بلوچستان کے شہر مچھ میں ہونے والی دہشتگردی بھی راء کا کارنامہ ہے۔ مغربی پاکستان سے ٹکر لینا آسان نہیں، تقسیم کے وقت پنجاب کے مشہور سوشلسٹ لیڈر رام منوہر لوہیانے امرتسر میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے لیے یہ آسان نہیں کہ ہم پاکستان کو طاقت کے ذریعے بھارت میں شامل کرسکیں مگر ہم وہاں کلچرل انقلاب لاکر اس ملک کو باآسانی تباہ کرسکتے ہیں۔ اس لیے بھارت یہ حربہ آزمانا چاہتا ہے، وہ نووار پیکٹ کی تجویز پر غور کرنے کیلئے آمادہ نہیں مگر دوستی کی پینگیں بڑھانا چاہتا ہے، وہ آزادانہ تجارت کا قائل ہے، وہ ثقافتی طائفوں کے تبادلوں پر مصر ہے، یہ کون نہیں جانتا کہ اسلامی ثقافت اور ہندو کلچر میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم تو پہلے ہی سے مغربی کلچر سے کافی متاثر ہیں، ہم کو ان کی موسیقی پسند ہے، ان کے ناچ گانے پسند ہیں، ہمارا نوجوان مغربی طرز کے ناچ گانے وغیرہ کا ماہر ہے، وہ اپنا زیادہ وقت انگلش فلمیں دیکھنے میں گزارتا ہے، وہ عریانی اور فحاشی کی طرف مائل ہے، مغلوں کے زوال کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے بھی موسیقاروں، طوائفوں، مصوروں اور شاعروں کی سرپرستی کی اور انہیں اتنا ابھارا کہ طبلچی وزیر اور صوبیدار بنے۔ اکبر اور جہانگیر کے درباروں میں انہوں نے اور ترقی کی، محمد شاہ رنگیلے کے دور میں ہر قسم کی بدکاری، شراب خوری، جوابازی، ظلم و ناانصافی تہذیب کا جزو بن گئے۔ ہر گلی کوچے میں بازاری عورتیں اور ناچنے والیاں آباد ہوگئیں، پھر کیوں نہ زوال آتا، ۷۵۸۱ کی جنگ آزادی کے بعد شہزادے بھکاری بنے اور شہزادیاں نوکرانیاں بنیں، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں یہ حشر تو ان کا ہونا ہی تھا۔ اب مسلمان کسی قدر بیمار ہوئے ہیں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی طرف مائل ہیں، اگر اس موقع پر ہم نے ہندو کلچر کو پاکستان میں قدم جمانے کا موقع دیا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔ ہم موہنجوداڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا اور گندھارا کی تہذیبوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں اور یہ کہہ کر فخر کرتے ہیں کہ ہم ان تہذیبوں کے وارث ہیں، ان کا اسلامی تہذیب و ثقافت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ کعبہ جو پاکستان سے بہت دور عرب میں واقع ہے وہ ہمارا اسلامی مرکز ہے، آب زم زم کا چشمہ جو وہاں اُبل رہا ہے وہ ہر مسلمان کے سینے کو سیراب کررہا ہے۔ اسی صحراء سے اُٹھنے والے آخری نبیﷺ ہم کو ہماری منزل کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ہمارے اقوال و افعال اور ہمارے افکار قرآن و سنت کے ڈھانچے میں ڈھل کر نکلتے ہیں اور یہی ہماری تہذیب و ثقافت ہے۔ اس کا علاقائیت سے اور علاقے کے رسم و رواج رہن سہن اور زبان وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے اقوال اطواروافعال و افکار سب اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کے تابع ہیں اور محض اللہ کی رضا جائی کیلئے ہیں۔ اس میں سے جو بھی قرآن و سنت کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا وہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں شامل نہیں۔ کیا ہم اسی وقت کا شدت سے انتظار کررہے ہیں کہ قرآن و شمشیر و فرس چھوڑ کر ہم طاؤس و رباب و رقص و سرور ہی کو زندگی کا نصب العین بنالیں۔ فرانس کی تہذیب ہو یا چین کی تہذیب، موجودہ زمانہ کی سائنسی ترقی ہو یا مادی ترقی، عقل کی جدتیں ہوں یا آزادیئ خیال کی پرواز ان سے اسلامی تہذیب و ثقافت میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جوعلوم و فنون و خیالات اس ڈھانچے سے مطابقت نہیں رکھتے وہ ان کو رد کردیتا ہے۔ اس لیے اسلام کو تو ان سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہاں البتہ مسلمان اگر غیراسلامی خیالات و علوم و فنون سے متاثر ہوجاتے ہیں تو وہ دائرہ اسلام سے نکل کر گمراہی کی راہ پر چل نکلتے ہیں جس کا حساب و کتاب آخرت کے دن ہوجائے گا۔ ہمارے اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو پوری لگن کے ساتھ اسلامی راستے پر ہی گامزن ہیں۔ وہ انشاء اللہ طوفانِ بادوباراں سے گزرتے ہوئے جنگلوں و صحراؤں کو چیرتے ہوئے منزلِ مقصود تک ضرور پہنچ جائیں گے جس کی نشاندہی اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کردی ہوی ہے۔ ایسے ہی پُرجوش نوجوانوں پر اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا انحصار ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب