قُلی، ریلوے کی بے زبان مخلوق


قُلی، ریلوے کی بے زبان مخلوق
ریلوے کی تاریخ جتنی پرانی ہے، اُتنی ہی اس کی داستان
تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
1820ء میں برطانیہ میں ٹرین کا نظام شروع ہوا تو اُس وقت سرجان گلیڈ نامی انگریز نے مسافروں کا سامان اُٹھانے والے نظام کو متعارف کروایا اور اُس کا نام پورٹر رکھا اور پورٹر نے ایک مخصوص لباس پہنا ہوتا تھا اور اُس کا کام مسافر کا سامان اُس کی سیٹ تک پہنچانا ہوتا تھا۔ 1833ء میں انڈیا میں ٹرین کا جب آغاز ہوا تو پورٹر کا نام تبدیل کرکے قُلی رکھ دیا گیا اور اسی طرح پاکستان میں پہلی ٹرین 1861ء میں کراچی اور کوٹری کے درمیان چلائی گئی تو پاکستان میں بھی انہیں قُلیوں کے نام سے ہی پکارا گیا۔ شروع شروع میں قُلیوں کی ماہانہ تنخواہ چھوٹی چھوٹی کمپنیاں دیا کرتی تھیں اور کچھ عرصہ ان کی تنخواہ اُس علاقے کے اہل ثروت بھی ادا کرتے رہے۔ جب مسافر اسٹیشن پر آتا ہے تو سب سے پہلے اُس کی ملاقات قُلی سے ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے قُلی کو ریلوے کی پہچان بھی کہا جاتا ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان کو اسٹیشن ماسٹر صاحبان کے ماتحت کردیا گیا۔ ریلوے اور قُلی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قُلی کا کام ریلوے کیلئے لازم و ملزوم بلکہ ناگزیر ہے مگر وطنِ عزیز میں قُلی کا حال ابتر ہے۔ قُلی وہ مخلوق ہے جو ریلوے کے مسافروں کا بوجھ اپنے سر اور کندھوں پر اُٹھاتا ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر ٹرین کی آمد اور چُھک چُھک اور وسل کے ساتھ ہی پلیٹ فارم پر ہرجانب زندگی دوڑنے لگتی ہے جیسے مردہ جسم میں کسی نے جان ڈال دی ہو۔ مسافروں کی بھیڑ میں ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم پر سامان کو منتقل کرتے قُلی کا جسم ٹرین کی جانب ساتھ ساتھ گھومتا ہے۔ خون پسینے سے کمائی گئی رقم کا 40% حصہ یہ غریب قُلی اپنے ٹھیکیدار کو ادا کرتے ہیں۔ دوسری طرف کچھ قُلی ٹھیکیدار کے کارِ خاص ہوتے ہیں جو کہ بغیر نمبر مسافروں کا سامان اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور نمبر والے قُلی بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ ریل کا پہیہ چلتا ہے تو ان قُلیوں کی روزی روٹی چلتی ہے اور اگر کسی وجہ سے ریل کا پہیہ جام ہوجاتا ہے تو ان کی روزی روٹی بھی جام ہوجاتی ہے۔ ابھی تک پرانے نظام کے تحت قُلی کو 40 کلو وزن اُٹھا کر لے جانے کی اجرت صرف 30 روپے ملتی ہے جو کہ مہنگائی کے اس دور میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ قُلی کا کام گدھے سے بھی زیادہ سخت اور مشکل ہے کیونکہ جب قُلی سامان اُٹھاتا ہے تو سامان کا سارا وزن اس کے سر، گردن، کاندھوں اور ریڑھ کی ہڈی پر ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے اکثر و بیشتر قُلیوں کو گردن کے درد اور مہروں کے کھسکنے کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ناکافی غذا اور بھاری بوجھ کا اُٹھانا مرے کو مارے شاہ مدار کے مترادف ہے۔ اگر ایسے میں قُلی بیمار پڑ جائیں تو نظام زندگی بند ہوجاتا ہے۔ ریلوے پلیٹ فارم پر قُلی ہر وقت مسافروں کے منتظر نظر آتے ہیں۔ کرونا وبا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دھیاڑی دار طبقہ کی طرح قُلیوں کا بھی کوئی پُرسانِ حال نہ تھا کیونکہ ٹرینیں اور ٹرانسپورٹ بند ہو جانے کی وجہ سے یہ لوگ اپنے گھروں میں بھی نہیں جا سکتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے شروع ہوتے ہی سب سے پہلے ریلوے اجتماعی سوداکار یونین کے صدر حافظ سلمان بٹ کی اپیل پر امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے لاہور ریلوے اسٹیشن اور پھر پشاور ریلوے اسٹیشن پر خود آ کر قُلیوں میں راشن تقسیم کیا۔ اس طرح ملک بھر کے تمام بڑے اسٹیشنوں پر الخدمت فاؤنڈیشن کی طرف سے قُلیوں کو راشن تقسیم کیا گیا اور پھر وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے لاہور ریلوے اسٹیشن پر خود آ کر قلیوں میں راشن تقسیم کیا اور ان کی ہدایت پر ملک بھر کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں راشن تقسیم کیا گیا جو کہ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے کی طرح تھا اور یہ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ پلیٹ فارم پر ایک قُلی سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگا کہ اب جسم میں طاقت ختم ہو چکی ہے، مجبوری کام کروا رہی ہے۔ ہمارا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے کہ صاحب قُلی چاہیے، میں یہ سارا سامان اکیلا ہی اُٹھا لوں گا۔ یہ الفاظ آپ کو ملک بھر کے بڑے اسٹیشنوں پر اکثر سننے کو ملتے ہیں۔ جب ریلوے قُلی میرے ساتھ بات کر رہا تھا تو ایک دم وسل کی آواز آئی تو وہ بیچارہ دیوانہ وار بھاگ اُٹھا۔ پلیٹ فارم پر ہر طرف سرخ قمیضوں میں ملبوس قلیوں کی دوڑیں شروع ہوگئیں۔ ان کی اس بے بسی کی کیفیت دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا کہ بھوک انسان کو کیسے کیسے ناچ نچاتی ہے۔ حکومتیں آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لیکن یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان ریلوے کی موجودہ انتظامیہ ماضی کی ریلوے انتظامیہ کی طرح ریلوے کے حالات کو سدھارنے پر توجہ دے رہی ہے وہاں انہیں قُلیوں کی فلاح و بہبود کا بھی احساس ہوگیا ہے اور انتظامیہ نے ان کی حالت زار کو بہتر بنانے کیلئے سوچ بچار شروع کر رکھی ہے۔ اس کے نتیجے میں شاید ان بے زبان قلیوں کی قسمت بھی جاگ جائے۔ سالہا سال سے رائج ٹھیکیداری نظام کی چکی میں بیچارہ قُلی بُری طرح سے پسے جا رہا ہے۔ ریلوے ملازمین کی تو اجتماعی سوداکار پریم یونین موجود ہے جو گاہے بگاہے اپنے ملازمین کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف صدائے احتجاج کرتی ہے مگر بدقسمتی کہ قلیوں کی اپنی کوئی تنظیم نہیں جو ان کے حالات زندگی کو تبدیل کروانے کی طرف توجہ مبذول کروائے۔ اس کے نتیجے میں قلیوں کے حالات نسل در نسل بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی، کسی کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ قُلیوں کی حالت زار پر ترس کھائے۔ مجھے خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطابؓ کا مشہور قول یادآ گیا کہ آپؓ نے فرمایا تھا کہ اے عمر اگر دریائے دجلہ کے کنارے کتا بھوکا سوگیا تو اللہ کو کیا جواب دے گا۔ یہی خوف تھا کہ وہ سارا دن گھوڑے کی پشت پر اور رات کو مصلے پر کھڑے ہوکر اللہ سے رو کر دُعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر آج انسان کس طرح زندگی بسرکر رہا ہے، ہمارا اللہ ہی حافظ۔ قُلی وہ مخلوق ہے جو صبح 4 بجے سے لیکر رات 12 بجے تک پلیٹ فارم پر موجود ہوتے ہیں۔ اُن کو سونا، جاگنا، اُٹھنا اور بیٹھنا پلیٹ فارم پر ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ دور دراز دیہاتوں سے آکر مزدوری کرتے ہیں اور اتنی کم مزدوری میں وہ شہر میں گھر لے کر نہیں رہ سکتے۔ دو وقت کی روٹی کھا کر گزارا کرتے ہیں، ان پڑھ ہونے کے باوجود سلیقہ مند ہوتے ہیں اور اپنی باری کے انتظار میں لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں۔ حیران کُن بات یہ تھی کہ اسٹیشن پر ایس او پی کی وجہ سے ہر قُلی نے ماسک پہنا ہوا تھا اور سماجی فاصلے کے حساب سے کھڑے تھے۔ یوسف نامی قُلی کا کہنا تھا کہ پہلے پیسہ کم ملتا تھا مگر چیزیں سستی تھیں، آٹھ آنے فی پھیرا ہوا کرتا تھا اور روزانہ 20 روپے کما لیا کرتے تھے، آج کل مہنگائی بہت زیادہ ہے، کم از کم قُلی ایک وقت کا کھانا 30 روپے میں کھاتا ہے، اس لیے ہم صرف دو وقت کھانا کھاتے ہیں جبکہ ہماری روزانہ کی بچت 200 سے 300 روپے ہوتی ہے۔ بچوں کا بھی پیٹ پالنا ہوتا ہے، ہم اپنے بچوں سے دور اسی وجہ سے رہتے ہیں کہ ہم چند پیسے اکٹھے کرکے اپنے دیہاتوں میں بھجوا سکیں۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی ہمارے بارے میں سوچنا چاہیے کہ ہم بھی اسی ملک کے شہری ہیں، ہم ووٹ بھی دیتے ہیں مگر ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ہماری وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان صاحب سے اپیل ہے کہ ہمیں بھی قومی دھارے میں شامل کیا جائے، ہمیں بھی سرکاری ملازمین کی طرح مراعات دی جائیں تاکہ ہم بھی اپنے دل کے ارمان پورے کر سکیں، ہمیں بھی چھٹی ملے، ہمارے بھی بچے سکولوں میں پڑھنا چاہتے ہیں، جب بچے ہمیں کہتے ہیں کہ ہمیں سکول میں داخل کرواؤ تو ہم اُن کے سامنے بے بسی کے ساتھ سرجھکا کر کھڑے رہتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ہم اُن کو اپنے گاؤں کی مسجد میں قرآن پاک پڑھنے ڈال دیتے ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے آج ہر انسان پریشان ہے اور اکثر مسافر اب اپنا سامان خود اُٹھانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ 30 روپے بھی بچ جائیں۔ اب اگر وہ اپنا سامان خود اُٹھا لیں گے تو ہماری روزی روٹی کاکیا بنے گا؟ پاکستان میں نہ تو قلیوں کی کوئی یونین ہے اور نہ ہی فلاح و بہبود کا کوئی ادارہ۔ قُلیوں کے مطابق ان کی کوئی نہیں سنتا۔ میں چند سال قبل لندن کے شہر برمنگھم گیا تو اپنے کزن کے ساتھ ایک گھر میں جانے کا اتفاق ہوا، اُنہوں نے بہت اچھی مہمان نوازی کی۔ گفتگو کے دوران اُنہوں نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ میں ریلوے میں ملازم ہوں۔ کہنے لگے کہ آپ نے کبھی پلیٹ فارم پر قُلیوں کو دیکھا ہے؟ یہ جملہ بولتے ہی اُن کی آنکھوں میں پانی آ گیا۔ وہ فوراً اپنے کمرے میں گئے اور ایک بہت بڑی تصویر لے کر آئے جو کہ قُلی کے لباس میں تھی۔ جب میں نے اُن کی تصویر دیکھ کر اُن کے والد کا نام بتایا تو وہ دھاڑیں مار کر رونے لگے اور کہنے لگے کہ آج ہر انسان حقیقت کو چھپاتا ہے۔ میں ایک قُلی کا بیٹا ہوں، ہم چار بھائی ہیں اور چاروں بھائی لندن کی پرنسپل پوسٹوں پر کام کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں صرف اتوار کے دن چاول پکاکرتے تھے کیونکہ ہم چاروں بھائی والد کے ساتھ اسٹیشن پر جاکر سامان اُٹھایا کرتے تھے تاکہ زیادہ مزدوری اکٹھی کر سکیں اور برٹ کالونی کے ایک سرونٹ کوارٹر میں رہتے تھے۔ ہمارے اکثر و بیشتر قُلی پڑھے لکھے ہیں اور لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ قُلی کا بیٹا ان پڑھ رہے اگر محنت کرے گا تو وہ بھی بڑے عہدوں پر تعینات ہو سکتا ہے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے