محمد بن قاسم: ایک عظم فاتح 2020

تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
محمد بن قاسم: ایک عظم فاتح
تاریخ اسلام میں محمد بن قاسم کی شجاعت اور حسن اخلاق کے کارنامے سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔
محمد بن قاسم: اس نوجوان فاتح نے ظلم و طغیان کے اندھیروں میں اسلامی عدل کو متعارف کروایا۔
آج کل صرف ایک کردار ارطغل غازی منظر عام پر آیا تو زمانہ دیوانہ ہوگیا جبکہ ہماری تاریخ ایسے ہزاروں جانبازوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستانی قوم ارطغل غازی کے ڈرامے کو خوب ذوق و شوق سے دیکھ رہی ہے اور اس ڈرامے نے دنیا بھر میں دھوم مچائی ہوئی ہے اور کفار کو خاصی پریشانی محسوس ہورہی ہے کیونکہ اس میں جہاد کے فلسفے کو اُجاگر کیا گیا ہے۔ دراصل مسلمان کی زندگی ہی جہاد ہے، اس کا اُٹھنا، بیٹھنا، کھانا پینا سب جہاد ہی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ عظیم جرنیلوں سے بھری پڑی ہے۔ مثلاً محمد بن قاسم، خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، سلطان محمد غزنوی، سلطان محمد تغلق، امیر تیمور، امام الدین زنگی، شیرشاہ سوری، ٹیپو سلطان اور نہ جانے کتنی ہی ایسی عظیم شخصیات ہیں جن سے اسلام کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ میری کوشش ہے کہ ان سب جرنیلوں کے بارے میں لکھا جائے تاکہ نوجوان نسل روشناس ہو۔ محمد بن قاسم کا پورا نام عماد الدین محمد بن قاسم تھا جو بنو امیہ کے ایک مشہور سپہ سالار حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا۔ فاتح سندھ محمد بن قاسم 75 ہجری کو طائف(سعودی عرب) میں پیدا ہوئے اور یہیں بچپن کا زمانہ گزرا۔ جب حجاج بن یوسف عراق کے گورنر مقرر ہوئے تو اُنہوں نے ثقفی خاندان کے بڑے بڑے لوگوں کو مختلف عہدوں پر فائز کیا اور انہی بڑے لوگوں میں محمد بن قاسم کے والد قاسم بھی تھے جو بصرے کے گورنر مقرر کیے گئے۔ حجاج بن یوسف کو بچپن ہی میں محمد بن قاسم کی صلاحیتوں اور جرأت مندی کا بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ جب محمد بن قاسم کی عمر 15سال ہوئی تو حجاج بن یوسف نے ان کو کردوں کے مقابلے کیلئے بھیجا جنہوں نے ایران میں بغاوت کردی تھی۔ محمد بن قاسم نے کردوں کو شکست دے کر بغاوت کا خاتمہ کردیا جس سے ان کی شہرت ہوئی اور وہ اس قابل سمجھے جانے لگے کہ یہ ایک باکمال سپہ سالار اور عظیم فاتح ہے۔ محمد بن قاسم عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کا داماد اور چچا زاد بھائی تھا اور اس نے اس وقت سندھ کی سرزمین کا رخ کیا جب یہاں کے عوام کی حالت ناگفتہ بہ تھی ان کیلئے سخت اور جابرانہ قسم کے قوانین نافذالعمل تھے۔ انہیں اسلحہ رکھنے اور گھوڑے پر زین ڈالنے کی ممانعت تھی اور حکم تھا کہ ننگے پاؤں اور ننگے سر چلا کریں۔ ایسے قوانین اور حکومت و رعایا کے درمیان اس سقم کا امتیاز چونکہ اسلام کی روح کے خلاف تھا اس لیے مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ وہ یہاں کے درودیوار کو اسلام کی روشنی سے منور کریں اور ظلمت کفروشرک مٹا کر توحید کا پرچم لہرا دیں۔ محمد بن قاسم کو اس خطۂ ارضی کی طرف آنے کا اللہ تعالیٰ نے ایک سبب پیدا کردیا اور اس نے یہاں آکر جس قابلیت و صلاحیت کا مظاہرہ کیا تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سندھ میں راجہ داہر کی حکومت تھی۔ ولید بن عبدالمالک کی سلطنت کی دھاک دور دور تک بیٹھی ہوئی تھی۔ اس وقت کے بڑے بڑے راجے مہاراجے ولید سے دوستی کی تمنا رکھتے تھے۔ لنکا کا راجہ بھی چاہتا تھا کہ ولید سے دوستی بڑھائی جائے۔ اتفاق سے لنکا میں مقیم ایک مسلمان تاجر کا انتقال ہوگیا۔ لنکا کے راجہ نے اس تاجر کے بیوی بچوں کو جہاز میں سوارکرکے عرب بھجوایا اور چند تحائف بھی دئیے۔ جہاز جب سندھ کی بندرگاہ دیبل کے قریب پہنچا تو سمندری ڈاکوؤں نے جہاز کا مال و اسباب لوٹ لیا جب قزاق پکڑ دھکڑ کررہے تھے تو قیدیوں میں سے ایک لڑکی نے حجاج بن یوسف کی دہائی دی وہ اس وقت مشرقی ملکوں کا حاکم اعلیٰ تھا لیکن ڈاکوؤں نے کوئی پرواہ نہ کی اس قافلے کے لوگوں کے ذریعے جب یہ فریاد اور دہائی حجاج بن یوسف تک پہنچی تو اس نے ولید بن عبدالمالک سے حملے کی اجازت مانگی۔ ولید نے حجاج کو اجازت دے دی، حجاج نے حملہ کرنے سے پہلے راجہ داہر کو خط لکھا لیکن اس نے ٹال دیا اور کہا کہ یہ سمندری ڈاکوؤں کا کام ہے حجاج بن یوسف نے یہ سن کر ایک لشکر دیبل کی طرف روانہ کیا۔ اس معرکے میں یکے بعد دیگرے مجاہدین کے جامِ شہادت نوش کرنے کی وجہ سے حجاج بن یوسف کے غصے میں اضافہ ہوتا گیا اور اُنہوں نے محمد بن قاسم کی سربراہی میں قافلہ روانہ کیا اس وقت ان کی عمر 17 سال تھی۔ محمد بن قاسم کا بہتر انتخاب وقت کا اہم اور قابل قدر فیصلہ تھا۔ محمد بن قاسم 6 ہزار سوار لے کر خشکی کے راستے دیبل پہنچا کیونکہ یہی وہ مقام تھا جہاں جہاز کو لوٹا گیا تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو گرفتار کرکے بے عزت اور رسوا کیا گیا تھا۔ محمد بن قاسم نے دیبل شہر کا محاصرہ شروع کیا اور یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا مگر کوئی قابل ذکر کامیابی سامنے نہ آئی بالآخر العروس نامی ایک منجینق سے کام لیا گیا جسے 500 آدمی چلاتے تھے اور شہر فتح ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے شہر پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے قیدیوں کو رہا کیا جو لنکا کے جہاز سے گرفتار کیے گئے تھے۔ یہاں راجہ داہر کی بددیانتی اور ناپاک خصلت کے اظہار کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ جو مسلمان مرد اور عورتیں گرفتار کیے گئے تھے اور جن کی ذمہ داری راجہ داہر نے قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے حجاج بن یوسف کے سفیر کو یہ جواب دیا تھا کہ ”یہ سب کام سمندری ڈاکوؤں کا ہے“ ان سب کو بالآخر راجہ داہر کا وزیر سسکار کو محمد بن قاسم کے پاس لایا گیا۔ اس کھلی بددیانتی اور جھوٹ پر مسلمانوں کو بہت طیش آیا۔ بعد ازاں اس علاقے کے لوگوں سے مل کر انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اس خطے کے لوگوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھاجاتا ہے اس لیے وہ اپنے حکمران سے سخت بیزار ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس وقت عہد کرلیا کہ وہ دکھی انسانیت کو اس جبرواستحصال سے نجات دلا کر رہیں گے چونکہ وہ عزم صادق لے کر اس خطے میں ظہور پذیر ہوئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بے پناہ مدد فرمائی۔ راجہ داہر کی فوجوں نے جب محمد بن قاسم کی آمد کی خبر سنی تو وہ دروازے بند کرکے قلعوں میں بند ہوگئیں۔ چاروں طرف خندقیں کھود کر مسلمانوں نے شہر کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ محمد بن قاسم نے آخر کار قلعہ مندر کے گنبدوں پر پتھروں کی بارش کردی۔ ایک پتھر گنبد کو لگا جس کے ٹوٹنے سے شہر میں ہلچل مچ گئی۔ مسلمانوں نے قلعے کی فصیل پر چڑھنا شروع کردیا۔ آخر کار کوفے کے ایک بہادر سپاہی نے مندر پر اسلامی پرچم لہرا دیا اور دیبل کے حاکم نے محمد بن قاسم کی اطاعت قبول کرلی۔ دیبل کا قلعہ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے برہمن آباد کا رخ کیا جہاں راجہ داہر مقیم تھا۔ دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد دونوں فوجوں میں مقابلہ ہوا۔ راجہ داہر کی فوج کو عبرتناک شکست ہوئی اور وہ خود بھی جنگ میں مارا گیا۔ اس کے بعد کم و بیش دو سال کی قلیل مدت میں اسلام کے جواں ہمت سپہ سالار نے پورے سندھ اور ملتان کا علاقہ فتح کرلیا کیونکہ راجہ داہر کی زندگی کا سورج غروب ہوگیا تھا۔ برہمنوں نے اس کی لاش کیچڑ میں چھپا دی۔ مسلمان فاتحانہ انداز میں داخل ہوئے۔ محمد بن قاسم نے لاش کی تلاش شروع کرائی تو کیچڑ سے برآمد ہوئی۔ محمد بن قاسم کے سامنے راجہ داہر کا سرلایا گیا جسے راجہ کی کنیزوں نے پہچان لیا۔ محمد بن قاسم نے سرکودیکھ کر خدا کا شکرادا کیا، شکرانے کی نماز ادا کی اور راجہ داہر کے سر کو حجاج بن یوسف کے پاس عراق بھیج دیا۔ فتح کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں اسلامی نظام رائج کیا، وہاں کے لوگوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا، ہندوپجاریوں اور ہرہمنوں کو بتوں کی پرستش کی اجازت دے دی اور ان پر محصول عائد کیا جو کہ آمدن کے مطابق ادا کرنا پڑتا تھا۔ یہ حسن سلوک اور انصاف تھا جس کی وجہ سے محمد بن قاسم نے لوگوں کے دل جیت لیے اور وہاں کے لوگوں نے خود بڑھ چڑھ کر محمد بن قاسم کی حکومت قبول کرلی۔ آہستہ آہستہ اس خطے کے وہ لوگ جو محمد بن قاسم کے خلاف تھے، محمد بن قاسم کو دیوتا ماننے لگے۔ محمد بن قاسم ایک عظیم فاتح تھا کیونکہ اس نے عوام کو ایک بہت ظالم اور جابر شخص سے نجات دلائی تھی حتیٰ کہ راجہ داہر قتل ہوگیا، سندھ کے باشندے اپنی سابقہ دشمنیوں کی وجہ سے مسلمان فاتحین سے انتہائی سخت برتاؤ کی توقعات رکھتے تھے لیکن انہیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ محمد بن قاسم نے ہر خاص و عام کیلئے معافی کا اعلان کیا اور کسی نوع کی سخت پابندی نہ لگائی گئی حتیٰ کہ شہر کا نظم و نسق بھی ہندوؤں کو دے دیا۔ دیبل کا عامل ایک پنڈت کو بنایا گیا جو قبل از فتح بت خانے کا محافظ تھا۔ ہندوؤں کے وظیفے اور ان کی جائیدادیں ہندوؤں کے پاس رہیں بلکہ ان کو سرکاری خزانہ سے امداد دی گئی اور ان کے واجبات بھی بدستور قائم رہے اور کسی بھی شخص کو سندھ چھوڑنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ فاتح سندھ نے مفتوحین سے مثالی سلوک کی بہت بڑی مثال قائم کی اور جب اسے حجاج بن یوسف کی وفات کی خبر ملی تو اس نے اپنی عظیم الشان فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ خلیفہ ولید عبدالمالک کی وفات کے بعد جب سلمان بن عبدالمالک خلیفہ بنا تو اس نے محمد بن قاسم کو جیل میں قید کروادیا جہاں اس عظیم جرنیل اور بہادر انسان کا حالت قید میں انتقال ہوگیا۔ ان کا نام تاریخ اسلام میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ محمد بن قاسم کو اس عظیم فتح کے باعث ہندوستان اور پاکستان کے مسلمانوں میں ایک مسیحا کا اعزاز حاصل ہے اور اسی لیے سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے۔ باب الاسلام سندھ برصغیر پاک و ہند کا وہ مبارک و مقدس خطہ سرزمین ہے جہاں دین حق کی شمع سب سے پہلے روشن ہوئی۔ سندھ روہڑی کے قریب واقع اروڑ کے مقام پر آکر محمد بن قاسم نے پڑاؤ ڈالا اور وہاں پر اُنہوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی جس کی آج صرف ایک دیوار اور دروازہ موجود ہے۔ بدقسمتی کہ ہم مسلمان اس تاریخی ورثے کی حفاظت نہ کرسکے۔ الحمدللہ راقم الحروف کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس مسجد میں شکرانے کے نوافل ادا کیے اور میں اپنے حکمرانوں سے درخواست گزار ہوں کہ اس تاریخی ورثے کی حفاظت کی جائے اور محمد بن قاسم کی تعمیر کی گئی اس مسجد کو دوبارہ سے تعمیر کیا جائے۔ دو تین سال کے مختصر وقت میں دیبل سے ملتان تک ایک وسیع علاقہ اسلام کی آغوش میں آگیا۔ لشکر اسلام اور غازی محمد بن قاسمؒ کی مبارک و متبرک آمد کے بعد سندھ پر اسلام کے عادلانہ معاشی، معاشرتی، روحانی، اخلاقی، تہذیبی، تمدنی اور متوازن و منصفانہ سیاسی نظام کے بڑے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ حضرت محمد بن قاسمؒ روح اسلام سے سرشار وہ غازی تھے جنہوں نے معاشرتی عدل اور معاشی انصاف کا عملی مظاہرہ کرکے اہل سندھ کے دلوں کو جیت لیا۔ غازی محمد بن قاسمؒ اور انکے صالحین رفقاء نے اپنی کامل دینداری، دیانتداری، ایمانداری، بلند کرداری، خوش اخلاقی، اسلامی اخوت و محبت اور مساوات و مروت سے مقامی لوگوں کو دین حق کی طرف راغب کیا۔ سندھ کے عوام انکے بہتر حسن و سلوک، ہمدردی، احسان اور اسلام کی برکات و انعام و اکرام کو دیکھ کر جوق درجوق اسلام میں داخل ہوگئے۔ سندھ کے ظالم و جابر، آمروکافر اور فاسق و فاجر راجہ داہر کے خلاف سینہ سپرہوگئے اور غازی محمد بن قاسمؒ کے ہمنوا و حمایتی بن کر برہمن سامراج کے راج کو ہمیشہ کیلئے سندھ سے ختم کردیا۔ آج تک برہمن سامراج کو سندھ پر غلبہ نصیب نہیں ہوا اور نہ ہی انشاء اللہ تعالیٰ قیامت تک ہوگا۔ حضرت غازی محمد بن قاسمؒ نے قرآن و روحانی اور اسلامی تعلیمات و حضرت محمد ﷺ کی شریعت نافذ کرکے کفروشرک،بت پرستی، بے حیائی، برکرداری اور بدمعاشی، بداخلاقی اور بداعمالی کے جاہلانہ، کاہلانہ، عامیانہ، کافرانہ، جابرانہ، ظالمانہ اور آمرانہ نظام نحوست کو ختم کردیا اور سندھ میں کفر کے تابوت میں آخری کیل گاڑ دی اور سندھ کو برصغیر میں باب الاسلام کے لازوال شرف سے مشرف کردیا اور سندھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اسلامی اقدار اور روایت کی امین بن گئی۔ محمد بن قاسم امت مسلمہ کے قابل فخر فرزند تھے انہوں نے سندھ کے سرکش ہنود کے خلاف جہاد کے ذریعے نہ صرف دیارہند میں مسلمانوں کی عظمت کا سکہ بٹھا دیا بلکہ ان کے غیرت اسلامی کے جذبہ ہی کی بدولت آگے چل کر برصغیر میں مسلمانوں کی عظیم مملکت ”پاکستان“ کا وجود ممکن ہوا اس لحاظ سے مسلمانوں کے عظیم المرتبت جرنیل محمد بن قاسم کی آمد پاکستان کیلئے ایک اعزاز ہے۔ سندھ کے عوام نے محمد بن قاسم کو دیکھا، ان کا پیغام سنا اور اسے سچا تسلیم کیا اور یہیں سے دین اسلام پورے برصغیر میں پھیلا۔ محمد بن قاسم اور ان کے ساتھیوں نے اس حصہ کو فتح نہ کیا ہوتا تو جنوب مشرقی ایشیاء کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی اور مسلمانوں کیلئے اس علاقے میں کوئی مسجد نہ ہوتی۔ چنانچہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ محمد بن قاسم کی فتح تحریک پاکستان کی طرف پہلا قدم تھا کیونکہ 10 رمضان المبارک 92 ہجری کو سندھ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد پڑی اور سندھ کو باب الاسلام ہونے کا فخر حاصل ہوا۔ فتح سندھ اسلامی تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ہے یہ دیکھ کر دنیا حیرت زدہ ہوجاتی ہے کہ ایک 17 سالہ نوجوان چند ہزار جانبازوں کو ساتھ لے کر دور دراز کے فاصلے سے سرزمین ہند کی اجنبی حدود میں داخل ہوتا ہے اور اس کے سامنے یہاں کے بڑے بڑے راجاؤں، مہاراجاؤں کی بے پناہ مادی قوت بے بس ہوکررہ جاتی ہے۔ محمد بن قاسم کے پاس محدود وسائل تھے۔ مختصر سی جماعت تھی اور راستہ نہایت دشوار گزرا مگر اس باکمال سپہ سالار اور عظیم فاتح نے اسلام دشمنوں کو نہ صرف اقتصادی اور مادی لحاظ سے فتح کیا بلکہ ان کے دل و دماغ بھی اسلام کیلئے مسخر کرلیے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے