مرد قلندر، مرد درویش، مجاہد اسلام سید منور حسن مرحوم ۲۰۲۰

تحریر: شیخ محمد انور(مرکزی سینئر نائب صدر پاکستان ریلوے پریم یونین سی بی اے) 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
آہ! مرشد بھی چلے گئے
امیرجماعت اسلامی سید منور حسن، دلوں پر راج کرنے والی ہردلعزیز شخصیت
آہ! وہ الفاظ کہاں سے لاؤں کہ دلوں پر راج کرنے والی ہردلعزیز شخصیت جس کا احترام نہ صرف پاکستان کا ہر مکتبہ فکر کے لوگ، نوجوان طبقہ بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے رہنماء سید منور حسن (مرحوم) کے بارے میں کچھ تحریر کرسکوں۔ قرون اولیٰ کے دور کے مسلمانوں کی جھلک مرحوم میں نظر آتی تھی۔یہ وہ شخص جس نے اپنی تمام زندگی اسلام کی سربلندی اور فروغ کیلئے وقف کررکھی تھی، خاموش طبع، سنجیدہ، نپی تلی بات کرنا اُن کا خاصہ تھا۔ دوسری بڑی بات یہ کہ اگر کوئی پرتکلف جماعتی کھانا ہوتا تھا تو اُس میں بھی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے تھے۔ صرف ایک کھانے پر کناعت کرتے تھے۔اگر اُن کے سامنے زبردستی مختلف کھانے رکھ دیے جاتے تو وہ تب بھی ایک ہی کھانا پسند کرتے تھے۔ اذان کے ساتھ ہی دنیا کے تمام کام چھوڑ کر مسجد میں جاتے، اُن کی یہ کوشش ہوتی کہ مؤذن کے ساتھ والی جگہ پر بیٹھوں۔ خواہ اسمبلی کا اجلاس ہویا جماعت اسلامی کی شوریٰ کی میٹنگ ہو، خواہ کوئی بھی اہم ترین کام ہو، اذان ہوتے ہی ہر کام کو چھوڑدینااُن کی زندگی کا اصول تھا۔ وہ کراچی میں 120 گزکے گھر میں رہتے تھے۔ سید منور حسن (سابق امیرجماعت اسلامی) اگست1941کو دہلی میں پیدا ہوئے، والد محترم کا نام سید اخلاق حسین تھاجوکہ دہلی کے ایک عزت دار خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ایک مقامی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے، اُن کی والدہ صاحبہ بچوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔ سید منور حسن صاحب جب 6سال کے تھے تو اُنہوں نے پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا، والدین کے ساتھ ہجرت کی تو اُنہوں نے بے شمار ماؤں، بہنوں اور شیرخوار بچوں کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا، جگہ جگہ خون میں لپٹی لاشیں دیکھیں۔ اتنی چھوٹی عمر میں اُن کے ذہن میں پاکستان سے والہانہ محبت رچ بس گئی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مرتے دم تک پاکستان کی سالمیت اور بقاء کیلئے حق وصداقت کی آواز بنے رہے۔ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت اُن کی آواز کو دبا نہ سکی اور وہ جرأت مندانہ انداز میں اپنا بیانیہ ڈٹ کردیتے رہے اور آخری دم تک اپنے مؤقف پر قائم رہے۔ سید منور حسن نے ابتدائی تعلیم جیکب لائن کے ایک سکول سے حاصل کی، 1963؁ء میں جامعہ کراچی سے ایم اے سوشیالوجی کیا اور 1966؁ء میں جامعہ کراچی سے عمرانیات اور اسلامیات میں ایم اے کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے، انہوں نے بائیں بازو کی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے اپنی طلباء سیاست کا آغاز کیا، 1959؁ء میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے، زندگی میں انقلاب 1960؁ء میں آیا جب اُنہوں نے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتابوں کو پڑھا تو متاثر ہوکر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارواں میں شمولیت اختیار کرلی۔ 1964؁ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ منتخب ہوگئے۔ 1967؁ء میں جمعیت سے فارغ ہوکر جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور 1977؁ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لیکر قومی اسمبلی کے رکن بنے۔ 1992؁ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر1993؁ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیاگیا۔ مارچ 2009؁ء میں سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے اور 2014؁ء تک اسی عہدے پر کام کرتے رہے۔ زندگی میں کئی بار ایسے لمحات میسر آئے کہ منصورہ میں ان کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی اور منصورہ کی جامعہ مسجد میں اُن کے پیچھے نماز بھی ادا کی۔ جمعۃ المبارک کو اُن کا خطاب بھی سنا۔ آج وہ منظر آنکھوں کے سامنے آرہا ہے تو آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہیں۔ سابق رکن قومی اسمبلی، صدر پاکستان ریلوے پریم یونین حافظ سلمان بٹ کے برخودار جبران بٹ کے دعوت ولیمہ میں شرکت کیلئے بیماری کے باوجود خصوصی طور پر لاہور تشریف لائے تو شادی کا پنڈال ہم بیٹے کس کے؟سید کے، ہم بھائی کس کے؟ سید کے، ہم بازو کس کے؟ سید کے، کے فلک شگاف نعروں سے گونج اُٹھا۔ پچھلے دنوں میں سوشل میڈیا پر سید منور حسن صاحب کا انٹریو سُن رہا تھا جو کہ بی بی سی نے لیا تھا، جب اُن سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے اثاثے ظاہر کیوں نہیں کرتے تو آپ نے کہاکہ اثاثے ہوں تو ظاہرکروں، یہ جس گھر میں، میں رہتا ہوں یہ گھر بھی میری اہلیہ کا ہے۔ اگر کوئی درددل رکھنے والا میری بات کو سنے تو میں مقروض ضرور ہوں اور میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ بیٹی اور بیٹے کی شادی کے موقع پر جس میں وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی، گورنر اور وزراء بھی شامل تھے اور ملک کی اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔ سیدمنور حسن صاحب نے اُن کی تواضع دودھ اور رس کے ساتھ کی تھی اور جو تحفے تحائف گھر میں آئے وہ اُسی روز جن میں گولڈ کے زیورات اور قیمتی تحائف شامل تھے، وہ تمام سامان اکٹھا کرکے جماعت کے دفتر بھجوادئیے کہ یہ تحائف امیر جماعت کے منصب کو ملے ہیں، ان پر میرا کوئی حق نہیں۔سابق رکن قومی اسمبلی سید منور حسن 5 سال امیر جماعت اسلامی اور 22سال سیکرٹری جنرل رہنے کے بعد جب جماعت اسلامی کی امارت سے فارغ ہوئے اور کراچی کی طرف روانہ ہوئے تو لاہور ائیرپورٹ پر میڈیا کے نمائندے نے جاتے ہوئے اُن سے پوچھا کہ آپ کا سامان کہاں ہے؟ تو آپ نے کیا خوب جواب دیا کہ اس بیگ میں میرے کپڑے ہیں اور یہی میرا اثاثہ ہے۔ اُنہوں نے خلفاء راشدین کے دور کی یاد تازہ کردی۔ وہ کچھ دنوں سے علیل تھے اور شہرکراچی کے مقامی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ امیرجماعت اسلامی سید منور حسن 26 جون بروز جمعۃ المبارک فانی جہاں سے لافانی جہاں کی طرف روانہ ہوگئے، جس سے نہ تو کسی کو انکار اور نہ ہی فرار ممکن ہے۔ میرا یہ ایمان ہے کہ جمعہ کے روز آسمان پر فرشتوں نے سید منور حسن کا استقبال کیا ہوگا۔ اُن کے بعد پیدا ہونے والا یہ خلاکبھی پُر نہ ہوسکے گا۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے