تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2023ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
میرے محسن، میرے مربی، میرے بھائی اکبر حسین کچھ دیر قبل اللہ کے حضور پیش ہو گئے۔
13 اپریل 2021ء یکم رمضان المبارک کی صبح 10:30 بجے کے قریب مجھے ایک افسوس ناک خبر ملی کہ میرے محسن، میرے مربی، میرے بھائی اکبر حسین کچھ دیر قبل اللہ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ میں اُس وقت خود کرونا جیسی وباء میں مبتلا تھا اور گھر میں زیرِ علاج تھا۔ یہ سننا تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ ہم سب ایک بار پھر یتیم ہو گئے ہیں۔ جسم تو کرونا کی وجہ سے پہلے ہی لاغر ہوچکا تھا اکبر بھائی کی خبر کے بعد ایسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے ململ کے دوپٹے کو خاردار جھاڑیوں پر پھینک کر کھینچ لیا ہو۔ اس خبر کے سننے کے بعد میرے گھر پر گہرا سکوت چھا گیا۔ دوستو! رشتے خون کے نہیں بلکہ احساسات کے ہوتے ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم روزانہ اس طرح کے واقعات پڑھتے ہیں کہ محض چند ٹکوں یا زمین کے چند مرلوں کے لالچ کی خاطر بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے، انسان لالچ، ضد، انا اور خود غرضی میں انسانیت کی تمام حدیں عبور کرجاتا ہے، مگر ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بھائی کی موت کا صدمہ دوسرے بھائی کی کمر توڑ دیتا ہے۔ میاں محمد بخش صاحب نے بھائی کی جدائی کے غم کو یوں بیان کیا ہے کہ:
بھائیاں باہج محمدا کنڈ ننگی
بھاویں مغر قبیلے دی جنج ہووے
کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دوچار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے۔ جب کسی انسان کی کسی قریبی ہستی کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔ میں نے پچیس سال کی عمر میں 1987ء میں اپنی والدہ کو کھو دیا تھا اور 2012ء کو اپنے والدِ محترم کو بھی کھو دیامگر بھائیوں کی موجودگی میں مجھے یتیمی اور مسکینی کا اتنا زیادہ احساس نہ ہوا کیونکہ والدِ محترم کی کمی بھائیوں نے ہر مرحلہ پر پوری کی مگر اب اکبر بھائی کے چلے جانے کے غم نے عملاً نڈھال کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ہم سب تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہیں اور جہاں سوائے صبر کے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ کہنے کو تو یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہی ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ زندگی بسر کرنے والے اکثر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں اور اُن کی عارضی یا دائمی جدائی دلوں میں گھاؤ ڈال جاتی ہے پھر اکبر بھائی جیسے محسن جو کہ ایک اچھے دوست کے روپ میں ہوں تو اُن کی جدائی کا زخم اور بھی زیادہ گہرا ہوتا ہے کہ اپنوں کی جدائی بھی اپنوں کی محبت کی طرح بے مثال ہوتی ہے۔ کسی قریبی شخص کے انتقال کے فوراً بعد زیادہ تر لوگ پہلے کچھ گھنٹون اور دنوں تک شدید بے یقینی کا شکار ہوجاتے ہیں انہیں یہ یقین نہیں ہوتا کہ ایسا ہوچکا ہے۔ کسی بھی چیز کے کھو جانے لیکن خاص طور پر کسی خونی رشتے کی موت کے بعد انسان غم کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ تمام مراحل اپنا وقت لیتے ہیں لہٰذا ان کو جلدی سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ ہم عموماً زیادہ دُکھی تب ہوتے ہیں جب کسی ایسے شخص کو کھو دیں جس سے آپ کا شب و روز کا تعلق ہو اور جس کے ساتھ آپ کا بچپن اور جوانی ساتھ گزری ہو۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ 16 رمضان المبارک 2021ء میں میرے تایا ذات بھائی ہدایت کریم جوکہ انڈیا کے شہر گنگوہ میں رہتے ہیں اُن کا جواں سالہ بیٹا جس کے ساتھ میرا بہت گہرا تعلق تھا، بہت پیار تھا اُس کو میں نے سعودی عرب بھجوانے میں کلیدی کردار ادا کیا اب وہ ایک تناآور درخت بن چکا تھا، اپنے بوڑھے والدین کا سہارا تھا، ایک بہترین فوٹوگرافر تھا جوکہ اپنے چھوٹی بھائی کی فیملی اور والدین کو بڑے احسن انداز سے اُن کی دیکھ بھال کرتا تھا مگر اللہ کا حکم کہ یہ بھائی بھی کرونا کا شکار ہو گیا اور کرونا سے لڑتے ہوئے 16 رمضان المبارک 2021ء کو اللہ ربُ العزت کے حضور پیش ہوگیا۔ میرے تایا ذات بھائی محمد حاجی مرحوم کا برخودار محمد اکرام جوکہ اسٹیٹ بینک سے بطور آفیسر ریٹائرہوئے وہ بھی اپنی بیماری سے لڑتے ہوئے 16 رمضان المبارک کو جمعۃ المبارک کے روز اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں۔ یہ دونوں ایسے رشتے ہیں کہ جن کے ساتھ ایک خون کی طرح گاڑھا رشتہ ہے اور ان دونوں کی ناگہانی موت نے مجھے اور میرے خاندان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیاہے۔ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ یہ دونوں بھائی میرے والدمحترم کے انتہائی فرمانبردار تھے اور میرے والد صاحب ہمیشہ ان دونوں کی نگہداشت ذاتی طور پر کیا کرتے تھے اور اپنی اولاد سے زیادہ ان دونوں سے پیار کیا کرتے تھے۔
مرنے والے تو اس فانی دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر اپنے چاہنے والوں کیلئے دْکھوں کی ایک فصل بو جاتے ہیں۔ اس فصل میں ہجر و کرب کے بیل بوٹے اُگتے رہتے ہیں اور جانے والوں کی یاد دلاتے ہیں لیکن یاد بھی وہی لوگ آتے ہیں جو صاحب کردار اور خوش اخلاق ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایسے ہی لوگوں کو زمانہ یاد رکھتا ہے، بے شک انسان کو اس کا اعلیٰ کردار ہی اعلیٰ منصب عطا کرتا ہے۔ جھکتی وہی شاخیں ہیں جن پر رنگ برنگے پھل موجود ہوتے ہیں، ویسے تو فی زمانہ ایسے لوگوں کی بھی کسی صورت کمی نہیں جو اپنے ہی ہم منصب ساتھیوں اور دوستوں کا ہر لمحہ برا ہی چاہتے ہیں، کسی کو آگے بڑھتا نہیں دیکھ سکتے، نہ ہی زبان سے اچھی بات کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے عمل سے کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
موت برحق ہے اور ہر کسی نے اس دنیا کے بھرے میلے کو خیرباد کہہ کر اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ اچھا انسان وہی ہے جو اپنی ذات اور اپنے عمل سے کسی کو ہرگز نقصان نہ پہنچائے۔ میرے بڑے بھائی اکبر حسین جو والد محترم کی وفات کے بعد میرے لیے والد کی حیثیت رکھتے تھے، بھی ایک ایسے ہی نیک دل انسان تھے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے کردار اور گفتار میں اعلی ٰ درجے پر فائز کر رکھا تھا۔ وہ کم بولتے لیکن عمدہ بولتے تھے، لوگوں کے بارے میں درست اندازے لگانے میں بھی ماہر تھے۔ وہ چلے گئے لیکن اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور رشتہ داروں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
دنیا میں کسی نعمت کے چھن جانے سے انسان کا غمگین ہونا فطری تقاضا ہے۔ 13 اپریل یکم رمضان المبارک 2021ء کا سورج طلوع ہوتے ہی یہ افسوس ناک خبر دے گیا کہ ہمارے خاندان کا چمکتا آفتاب اپنی روشنی بکھیر کر ہمیشہ کیلئے غروب ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ہر طرف سے اناللہ واناالیہ راجعون اور مغفرت کی دْعائیں دی جانے لگیں۔ چند لمحوں میں تمام عزیز و اقارب، دوست و احباب اور رشتہ دار کرونا کے خوف کے باوجود اکٹھے ہو گئے۔ نہرو پارک گراؤنڈ جس میں اکبر حسین کا بچپن گزرا، اْسی گراؤنڈ میں بعد از نماز مغرب ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نماز جنازہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے پڑھائی۔ اس موقع پر قیم جماعت اسلامی امیر العظیم، امیر جماعت اسلامی لاہور ذکراللہ مجاہد، راجگڑھ کے ناظم خلیق احمد بٹ، سنت نگر کے ناظم باؤ رفیق گجر، ڈی ایس ریلوے لاہور ناصر خلیلی، ڈی جی ایم عثمان غنی اور ایم ڈی سی پیک بشارت وحید سمیت مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر تمام شرکاء پر غم و اندوہ کی کیفیت اور عجیب طرح کا سکوت طاری تھا۔ نماز جنازہ سے قبل خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ نبی رحمتﷺ کے فرمان کے مطابق اکبر حسین ایک جنتی انسان ہیں کیونکہ آج جنازہ میں شریک تمام لوگ ان کے اعلیٰ کردار کی گواہی دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے قیم امیرالعظیم نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میرا اور اکبر حسین بھائی مرحوم کا بچپن ایک ہی محلے میں گزرا۔ وہ ایک دین دار، متحرک، محنتی اور ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ ان کی شخصیت کا یہ کرشمہ تھا کہ پورے علاقے میں انہیں عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
بھائی جان اکبر حسین کی اپنے خاندان کیلئے خدمات اور قربانیوں کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ اللہ پاک نے ان کو چند ایسی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا رکھا تھا جو عام طور پر لوگوں میں بہت کم پائی جاتی ہیں۔ ان کے اندر حکمت اور دور اندیشی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ مشکل ترین اور ہنگامی حالات میں بھی بڑی باریک بینی سے جائزہ لے کر اطمینان سے فیصلہ کرنے کا ہنر بخوبی جانتے تھے۔ پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسائل کو منٹوں میں سلجھانے کا فن آپ میں وافر موجود تھا۔