تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2024ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
قوموں کی تاریخ میں بہت سے دن اہمیت کے ہوتے ہیں اور زندہ قومیں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور جدوجہد کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ اسے امانت کی صورت میں اپنی نئی نسل میں منتقل بھی کرتی ہیں۔ قومی دن اپنے وطن اپنی سرزمین کے ساتھ عہدوفا کی تجدید کا دن ہوتا ہے۔ قوموں کی تاریخ میں سے ان اہمیت کے حامل دنوں کو منانے کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ نئی نسل کو ان کے بزرگوں کی قربانیوں اور کامیابیوں کو یاد دلایا جائے اور نوجوان نسل کے دلوں میں ثقافتی اقدار کو انہی قدموں پر آگے بڑھنے، ان کی بہترین تصویر پیش کرنے اور قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کی ضرورت کے بارے میں شعور اُجاگر کرنا بھی ہوتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں 23 مارچ 1940ء کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس دن برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں اپنے اجلاس میں ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا تاکہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ ہوسکے اور وہ اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ قرار داد پاکستان ہی دراصل وہ مطالبہ ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا اور 23 مارچ کا یہ دن ہر سال اہل پاکستان کو اُسی جذبے کی یاد دلاتا ہے جو قیام پاکستان کا باعث بنا تھا۔ مسلمان برصغیر پاک و ہند میں ایک فاتح کی حیثیت سے آئے تھے۔ یہاں اپنی سلطنتیں قائم کرنے کے بعد انہوں نے بڑی رواداری کا مظاہرہ کیا اور مقامی لوگوں کی نہ تو تذلیل کی اور نہ ہی ان سے اچھوتوں جیسا سلوک کیا۔ دنیا میں ہندوستان واحد ملک ہے جہاں مسلمان آٹھ سو سال تک حکمران رہے لیکن پھر بھی نہ تو اُنہوں نے کسی ہندو کو زبردستی مسلمان بنایا اور نہ ہی ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھ سو سال حکومت کرنے کے باوجود وہ یہاں اقلیت میں رہے۔ آج کے دن ہمیں ان رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جنہوں نے اس قرار داد کو پیش کیا۔ ان کی خدمات اور تعلیمات کو نصابِ تعلیم کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ طالبعلم نظریہ پاکستان کے اصل حقائق اور اس کی روح سے روشناس ہوں۔ بعد میں آنے والوں نے اس حقیقت کو فراموش کرکے اصل حقائق سے روگردانی کی ہے اور وہ قوم کے مجرم ہیں۔ مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ کو مسخ کردیا گیا اور ہمارے عظیم رہنماؤں کو جنہوں نے اپنا سب کچھ قیام پاکستان کیلئے وقف کردیا تھا، نصاب سے نکال دیا گیا۔
ہمارے بزرگوں نے ہندوؤں کے ساتھ رہنے اور ان کا رویہ دیکھنے کے بعد الگ ملک کا خواب دیکھا اور اپنی جدوجہد سے اس خواب کو تعبیر میں بدلنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن افسوس کہ آج ہم نے اپنی آزادی کی قدر کھودی ہے۔ مسلمان اقابرین نے ہندوؤں کے رویے کے بعد دو قومی رویہ پیش کیا اور سرسید احمد خان ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے دوقومی نظریے کا اعلان کیا۔ آج ہم دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے مسلمانوں کے دشمن بھارت کے ساتھ دوستی اور محبت کے گُن گارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کی برادری میں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ تعلقات دوطرفہ ہوتے ہیں۔ یکطرفہ طور پر دوستی بڑھانا نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آج دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہوئے ایک بار پھر ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ تہذیب، مشترکہ ثقافت کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے۔ آج ہمارے نوجوان اُردو زبان تک سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں۔ دنیا بھر کی زندہ دل قومیں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ سائنس، ٹیکنالوجی، تعلیمی اور کھیلوں کے میدان میں مقابلہ کرتے ہیں لیکن ہمارے یہاں پھکڑ پن، بازاری اندازِ گفتگو اور فحش گوئی کے مقابلے کیے جاتے ہیں۔ اس سے ہٹتے ہیں تو پھر ناچ گانے کے مقابلے کیے جاتے ہیں یا پھر کھانوں کے مقابلوں میں الجھا کر سمجھا جارہا ہے کہ یہ قوم کی بڑی خدمت کی جارہی ہے۔ سیاسی رہنما اور میڈیا یہ بات پیش نہیں کرتے کہ ہمارے پڑوسی ممالک میں تعلیمی معیار کس قدر اونچا ہے، وہاں شرح خواندگی کس قدر بلند ہے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سوفٹ ویئر وغیرہ میں وہ ہم سے کس قدر آگے ہیں۔ بھارت بہت سمجھدار ملک ہے، اُس نے ایک جانب ہمیں فلموں، گانوں، لافٹر اور کھانوں کے مقابلوں میں الجھا کر خود اپنے کام کرتا جارہا ہے۔ دریاؤں پر ڈیم بنائے جارہے ہیں اور یہ ڈیم پاکستان کیلئے تباہی کا باعث ہیں کیونکہ اب جیسے انڈیا چاہے گا پاکستان کا پانی روک دے گا اور جب چاہے گا کہ بغیر اطلاع کے ہمارے دریاؤں میں پانی چھوڑ کر سیلاب کی کیفیت پیداکرلے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں تجارت کے نام پر سبزباغ دکھا کر مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا یہی جدوجہد آزادی کا مقصد تھا؟ 1857ء سے لے کر 1940ء تک برصغیر کے مسلمانوں نے ایک نظریے کیلئے بے بہا قربانیاں دیں لیکن اپنے ابدی اصولوں کو نہ چھوڑا۔ مسلمان معاشی بدحالی کا شکار ہوئے لیکن اُنہوں نے اپنی عزت نفس کو مجروح نہ کیا۔ اب وقت آگیا تھا کہ مسلمان اپنے حقوق کیلئے اُٹھ کھڑے ہوں اور اپنی اہمیت کا ہندوؤں اور انگریزوں کو احساس دلائیں تو پھر تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال کے عظیم خطبہ الٰہ آباد 1930ء جس میں اُنہوں نے مسلمانوں کیلئے الگ مملکت کی تجویز پیش کی تھی اس کے دس سال بعد عملی جامہ پہنانے کا دن آگیا۔ اگر انگریز ہندوستان سے چلے جاتے تو پھر اقتدار ہندوؤں کو ہی ملتا اور مسلمان ہمیشہ ہندوؤں کی غلامی میں رہتے۔ دونوں الگ الگ قومیں ہیں، دونوں کے مذہب، رہن سہن، ثقافت اور ہر شعبہ الگ ہے۔ ایسے میں ان کا ملاپ یا اکٹھے رہنا ناممکن تھا۔ اسی پس منظر میں 23 مارچ 1940ء کو برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے الگ وجود کا احساس ہندوؤں اور انگریزوں کو دلانا تھا۔ یہی ہمارا دو قومی نظریہ ہے جس پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا اور اسی پر پاکستان قائم و دائم ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہمیشہ اس غلط فہمی کی تردید کی کہ مسلمان ایک اقلیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومیت کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک قوم ہیں۔ ہندو اور مسلمان کبھی متحد نہیں رہ سکتے۔ انگریز کے جانے کے بعد یہ مصنوعی اتحاد ختم ہو جائے گا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ صرف قرار داد تھی لیکن ہندوؤں نے اسے قرارداد پاکستان کا نام دیا۔ اس دن کو اہمیت اور مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ اس دن تمام مسلمان ایک قوت اور تحریک کے طور پر اکٹھے ہوئے تھے اس سے پہلے ان کی کوئی سرزمین نہیں تھی جہاں وہ اپنے عقیدے اور اپنے مذہب کے مطابق آزادی سے زندگی بسر کرسکیں اور ایسی سرزمین کے حصول کی لگن نے انہیں یکجا کردیا تھا اور یہ قوم ایک ہی قائد کی سربراہی میں پروان چڑھ رہی تھی یہ دن یہ وقت جسے تمام دنیا نے ایک خواب کی تعبیر میں ڈھلتے ہوئے دیکھا وہ دن وہ وقت 23 مارچ کا تھا اس دن کا حال ایسا تھا جیسا ہمارے اسلام نے ہمیں درس دیا ہے۔
آج پھر سے مسلمان ہر جگہ پر اسی لیے مایوس ہورہے ہیں اور زوال کا شکار ہورہے ہیں کیونکہ یہ اپنے مقاصد اور نظریات سے دور ہوچکے ہیں۔ اگر سوچا جائے تو کیا پاکستان اس لیے حاصل کیا تھا کہ آج اس پاکستان کے لوگ نیا پاکستان اور لبرل پاکستان کا نعرہ لگائیں؟ کیا پاکستان دو ٹکڑے کرنے کیلئے بنایا گیا تھا؟ پاکستانی ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ پاکستان کو اس دیمک سے بچائیں جو اس کی جڑیں چاٹ چاٹ کر اسے کھوکھلا کرنے کے درپے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اپنی آستینوں میں چھپے سانپوں کو ڈھونڈ لیں ورنہ بعد میں بہت پچھتانا پڑے گا۔ پاکستان بننے کے صرف24 سال بعد ہم مشرقی پاکستان کھو چکے ہیں، اگر ابھی بھی ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو آنے والا وقت بہت مشکل دکھا ئی دیتا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں اضافہ ہورہا ہے۔ ان پر زمین تنگ کردی گئی ہے، آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدر صرف وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو اس نعمت سے محروم ہیں۔اگر آزادی کی اہمیت جاننا چاہتے ہیں تو کشمیر اور فلسطین کے لوگوں کو دیکھیں کس طرح انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت کو نہیں بدلا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔
ایک وہ بھی وقت تھا کہ جب ایک مسلمان عورت کے خط پر محمد بن قاسم نے سندھ کی سرزمین ہلادی تھی اور آج یہ بھی وقت ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جارہا ہے اور اُن کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلمان عورتیں اور بچے مظالم کا شکار ہیں اور اُن کی چیخ و پکار سننے والا کوئی نہیں۔ ہمیں پاکستان کی بہتری کیلئے اپنے حصے کی شمع جلانی ہوگی۔ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام ایمانداری کیساتھ بہترین انداز میں کرنا ہوگا۔ اللہ پاکستان کو درپیش تمام مسائل سے نجات عطا فرمائے اور اسے تاصبح قیامت قائم رکھے۔ آمین۔
گونگی ہو گئی آج کچھ زبان کہتے کہتے
ہچکچا گیا خود کو مسلمان کہتے کہتے
یہ بات نہیں کہ مجھ کو اُس پر یقین نہیں
بس ڈر گیا خود کو صاحب ایمان کہتے کہتے
توفیق نہ ہوئی مجھ کو ایک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا مؤذن اذان کہتے کہتے
کسی کافر نے پوچھا ہے کونسا مہینہ
شرم سے پانی ہاتھ سے گر گیا رمضان کہتے کہتے
میری الماری میں گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا
میں گڑ گیا زمین میں قرآن کہتے کہتے
یہ سُن کر چپ سادھ لی اقبال اُس نے
یوں لگا جیسے رُک گیا وہ مجھے حیوان کہتے کہتے
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب