کہاجاتاہے کہ چنیوٹ شہر صرف لکڑی کے سامان کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے

تحریر: شیخ محمد انور
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719

حالانکہ یہ تاریخی اعتبار سے بھی اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے۔
پاکستان کے نوجوانوں کو اس ثقافتی ورثے کو ضرور دیکھنا چاہیے اور حکومت کو بھی اس کی سرپرستی کرنی چاہیے۔
سیاحت کا شعبہ بہت سے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ سیاحت کی صنعت سے نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم ہوتے ہیں بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے قیمتی ذرمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان چند خوش قسمت ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں قدرت نے جنت کہلانے والے مناظر سے بھرپور خطے، پہاڑوں کے بے مثال حسن، ثقافتی روایات کے انمول خزانے اور انسان کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والے مناظر یکجا کردئیے ہیں۔ سیاحت کے اتنے مقامات اس قدر پرکیف رنگوں میں آمیزش کے ساتھ کسی اور ملک میں کم ہی ہیں۔ یہ سب قدرت کے عطاء کردہ انمول تحفے آپ کو اپنی طرف بلارہے ہیں۔ قدرت کے ان بے مثال حسنِ فطرت اور حسن کی کہکشاؤں کے سنگ زندگی کے کچھ لمحات امرکرآئیں۔ میرا تعلق ریلوے کی دنیا سے ہے، کئی مرتبہ ٹریڈ یونین کے سلسلے میں چنیوٹ جانے کا اتفاق ہوا لیکن صرف اسٹیشن پر لوگوں سے ملاقات کرکے واپس آگیا۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے چنیوٹ آنے کی دعوت دی اور کہا کہ آپ کو آرٹیکل لکھنے کا شوق ہے، آپ چنیوٹ ضرور آئیں یہاں پر کچھ تاریخی چیزیں قابلِ دیدنی ہیں۔ جب اُنہوں نے چنیوٹ شہر کے بارے میں بتایا تو میں حیران ہوا، کئی مرتبہ چنیوٹ جانے کے باوجود مجھے ان تاریخی ورثوں کے بارے میں کچھ علم نہ تھا اور اسی شوق نے لاک ڈاؤن کے باوجود مجھے چنیوٹ جانے پر مجبور کیا اور میں بذریعہ موٹروے چنیوٹ کیلئے روانہ ہوا۔ تقریباً دو گھنٹے کی مسافت کے بعد میں چنیوٹ ریلوے اسٹیشن پر پہنچا اور کچھ دیر ریسٹ ہاؤس میں آرام کرنے کے بعد تاریخی مقامات کو دیکھنے کیلئے روانہ ہوا۔ چنیوٹ کا ریلوے اسٹیشن جو کہ خود اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہیں۔ چنیوٹ کا ریلوے اسٹیشن 1927؁ء میں قائم ہوا۔ یہاں کا ریل کا سفر دوسری ٹرانسپورٹ سے سستا ہے اس لیے لوگ زیادہ تر ریل کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں لیکن بدقسمتی کہ آج کل کورونا وباء کی وجہ سے یہ سیکشن ویران پڑا ہے اور اس ٹریک پر کوئی ٹرین نہیں چل رہی۔ چنیوٹ صوبہ پنجاب کا ایک ضلع ہے۔ چنیوٹ شہر کی ابتداء کب اور کہاں سے ہوئی اس کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ چنیوٹ دنیا بھر میں ہاتھ سے بنے لکڑی کے فرنیچر کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ یہ علاقہ تاریخی اعتبار سے بھی کافی مشہور ہے۔ چنیوٹ تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے جانا جاتا تھا۔242 قبل مسیح میں ہندو راجہ اشوک کے دور حکومت میں جب یونانیوں نے اس علاقے پر قبضہ کیا تو انہوں نے اس کا نام ”اسکایٹ“ رکھ دیا۔ 326 قبل مسیح میں یہ ”اجبن“ کے نام سے جانا جاتا تھا۔لوگوں کو ایسا بھی ماننا ہے کہ قدیم دور میں ایک ہندو رانی ”چندرونی“ نے دریائے چناب کے کنارے سیروتفریح کی غرض سے ایک قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ اس قلعے کو اس زمانے میں آؤٹ یا وٹ کے نام سے پکارا جاتا تھا اور اسی کی مناسبت سے اس علاقے کو چندروٹ یا چندراوٹ کہاجانے لگا۔ معروف تاریخ دان اور تصویر جھنگ کے مصنف ایس ایم خالد کے مطابق 180 عیسوی میں چین نے کشمیر کے راستے پنجاب پر حملہ کیا تو چنیوٹ کے علاقے میں بھی ایک مضبوط قلعہ بنایا اور اس کی نسبت سے ہی اسے چنیوٹ کہا جانے لگا۔ معروف مؤرخ یعقوبی کے مطابق محمد بن قاسم کے دور 711 عیسوی میں چنیوٹ کو جندور کہاجاتا تھا اور یہ صوبے کا درجہ رکھتا تھا۔ تاریخ دان کے مطابق محمد بن قاسم نے جب اپنے مفتوح علاقے کو پانچ صوبوں ملتان، جندور(چنیوٹ)، روہڑی، شورکوٹ اور کوٹ کروڑ میں تقسیم کیا تو جندور (چنیوٹ) کیلئے ہزیم بن عبدالمالک تمیمی کو یہاں کا گورنر بنایا۔ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب اس علاقے پر کوئی مسلمان گورنر مقرر ہوا اور اسے صوبے کا درجہ دیا گیا۔ واضح رہے کہ تمیمی خاندان ابھی بھی چنیوٹ میں آباد ہے۔ تاریخ فرشتہ جلد دوم میں عتبہ، ابن عشیر اور البیرونی لکھتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے دور میں چنیوٹ کا رقبہ ایک جانب کوہستان تک پھیلا تھا اور دوسری جانب واڑ سلیمان سے ساندل بار، کچھی اور وچہن تک تھا۔ تصویر جھنگ کے مصنف ایس ایم خالد کے مطابق سلطان محمود غزنوی کے بعد غوری، خلجی اور تغلق خاندانوں نے بھی چنیوٹ پر حکومت کی۔ ان حکمرانوں کے ادوار میں پنجاب کے علاقوں میں مختلف انتظامی تبدیلیاں کی گئیں جس کے بعد ریاست چنیوٹ سے بہت سے علاقے الگ ہوگئے۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ لودھی خاندان نے جب 1462 عیسوی میں سیالوں کو جھنگ کی حکمرانی عطاء کی تو ان کی نظر چنیوٹ پر رہنے لگی کیونکہ اس علاقے میں مغل حکمرانوں نے بہت سے قلعے، فوجی چوکیاں اور اصبطل تعمیر کروارکھے تھے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی یہ علاقہ کافی اہمیت کا حامل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جھنگ کی ریاست مال گزاری لاہور کے گورنر کو ادا کرتی تھی۔ سیال خاندان کے تیرہویں حاکم ولی داد خان نے گورنر لاہور کے نمائندے کو چنیوٹ آکر مال گزاری ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد نواب ولی داد خان نے گورنر لاہور سے رابطہ کیا جس پر انہیں گردونواح کی تمام ریاستوں سے مال گزاری جمع کرنے کا اختیار نامہ مل گیا۔ اس طرح چنیوٹ مکمل طور پر جھنگ کا حصہ بن گیا۔ 1800 عیسوی میں سردار گنڈا سنگھ کے بھتیجے سردار وسوسنگھ نے سیالوں کے قلعہ دارانوپ سنگھ سے سازباز کرکے اس پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ سیال حاکم عنایت اللہ خان کو اس سازش کا علم ہوگیا اور وہ اپنے لشکر کے ہمراہ چنیوٹ پہنچ گئے۔ انہوں نے وسوسنگھ کو وہاں سے فرار ہونے پر مجبور کردیا جبکہ انوپ سنگھ کو قتل کردیا۔ اس شکست کا بدلہ لینے کیلئے سکھوں نے 1801 میں چنیوٹ پر دوبارہ حملہ کیا اور چنیوٹ کو فتح کرنے کے بعد وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ برصغیر میں انگریزوں کی حکمرانی کے بعد جب جھنگ کو ضلع بنایا گیا تو چنیوٹ اس میں شامل کردیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد 2009؁ء تک یہ جھنگ کا حصہ رہا لیکن اس کے بعد یہ الگ ضلع بن گیا۔ اس کی تین تحصیلیں ہیں جن میں چنیوٹ، بھوانہ اور لالیاں شامل ہیں۔ یوں تو چنیوٹ میں کئی مذہبی، ثقافتی اور تاریخی مقامات ہیں لیکن بادشاہی مسجد چنیوٹ، عمر حیات کا محل، دریائے چناب کا پل اور حضرت بوعلی قلندر کا مزار کافی مشہور مقامات ہیں۔
بادشاہی مسجد چنیوٹ: بادشاہی مسجد چنیوٹ جوکہ بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر بنائی گئی ہے چنیوٹ کی خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں سے ایک ہے۔ اسے پانچویں مغل بادشاہ شاہجہاں کے وزیر سعد اللہ خان نے سترہویں صدی عیسوی میں تعمیر کروایا۔ مسجد مکمل طور پر پتھر کی بنی ہوئی ہے اور اس کی تعمیر کیلئے مقامی پہاڑیوں سے پتھر لاکر استعمال کیا گیا۔ اس مسجد پر نقاشوں نے عمدہ و اعلیٰ ترین نقش و نگاری کرکے اس کی بناوٹ و سجاوٹ کو دوبالا کردیا۔ 9 سال کے عرصہ میں مکمل ہونے والی اس مسجد کی خوبصورت چھت 21 ستونوں پر کھڑی کی گئی ہے۔ شاہی مسجد کو سنگ لرزاں بھی کہا جاتا ہے۔ مسجد کے ستونوں کی طرز تعمیر دہلی کی خرقہ مسجد کے مطابق ہے۔ اس کے تمام دروازے لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور آج تک اس کے دروازے بغیر ٹوٹ پھوٹ کے اپنی جگہ قائم ہیں۔ شاہی مسجد چنیوٹ کا فرش سفید سنگ مرمر سے بنا تھا۔ اسے 2013؁ء میں سنگ مرمر سے اینٹوں کے فرش میں تبدیل کردیا گیا۔ تاہم مسجد کا اندرونی فرش ابھی تک سنگ مرمر کا ہی ہے۔ مسجد کے سامنے موجود شاہی پارک مسجد کے حسن میں اضافہ کردیتا ہے۔
عمر حیات کا محل: انیسویں صدی کا لکڑی کی عمدہ ترین کاریگری کا شاہکاریہ عجوبہ محل، چنیوٹ کا تاج محل کہلاتا ہے۔ اس محل کو اب گلزار محل کہا جاتا ہے۔ شیخ عمر حیات نے 1923؁ء میں اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی میں ایک شاندار محل کو تعمیر کروایا۔ پورے محل میں اس قدر فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا گیا ہے کہ انسان پلکیں جھپکنا بھول کر انہیں دیکھنے میں محو ہوجاتا ہے۔ لاہور میں مغلیہ دور کے قائم شاہی حمام کے طرزتعمیر کی مانند حمام بھی بنایا گیا۔ محل کی خاص بات یہ ہے کہ ہر کمرہ کی تعمیر و ڈیزائن مختلف ہے۔
چلہ گاہ شاہ شرف الدین بوعلی قلندر: دریائے چناب کے کنارے اس جگہ پر پانی پت سے تعلق رکھنے والے صوفی بزرگ شاہ شرف الدین بوعلی قلندر نے بارہ سال چلہ کشی کی۔ چندسال پیشتر ان کی چلہ گاہ والی جگہ پر ایک بہت خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی ہے جو کہ منفرد انداز تعمیر کی وجہ سے سیاحوں کیلئے کشش کا باعث ہے۔ اس مسجد کو بادشاہی مسجد لاہور کی طرز پر بنایاگیا ہے۔
چنیوٹ کا پل
چنیوٹ کا پل یا چناب نگر کا پل کنکریٹ سے بنا ایک پل ہے جو چنیوٹ میں دریائے چناب پر واقع ہے۔ یہ 520 میٹر لمبا ہے جبکہ 8.17 میٹر چوڑا ہے۔ یہ ختم نبوت چوک سے 4.6کلومیٹر اور چنیوٹ ریلوے اسٹیشن سے 3.3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
لفٹ:
چنیوٹ کے دوپہاڑوں کے درمیان دریائے چناب بہہ رہا ہے اور پہاڑوں کے سنگم میں پانچ سال قبل بنائے جانے والی چیئرلفٹ جو کہ ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جانے کیلئے اور قدرتی مناظر دیکھنے کیلئے ایک بہت اچھی سواری ہے جس سے مقامی لوگ اور سیاح لطف اندوز ہوسکتے تھے مگر تاحال لفٹ مکمل ہونے کے باوجود ضلعی انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے یہ لفٹ آپریشنل نہ ہوسکی۔
58 سال عمرگزرنے کے بعد کرونا وباء کے دنوں میں ایک دوست کے اصرار کرنے پر مجبوراً چنیوٹ جانا پڑا اور چنیوٹ کے تاریخی ورثے کو دیکھ کر میری آنکھوں کے بند دریچے کھل گئے۔ حکومت کو اس وادی چنیوٹ کو سرکاری طور پر پروموٹ کرنا چاہیے تاکہ دنیا بھر کے سیاح اس وادی کو دیکھنے آئیں اور پاکستان کو قیمتی زرمبادلہ حاصل ہو۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے