تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
آبی ذخائ ر ناگزیر ڈیم پاکستان کی بقاء
اسے بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ اس ملک کے ہر مسئلے کے پیچھے ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ہی کھڑا نظر آتا ہے۔ پاکستان اور بھارت ہمسایہ ملک ضرور ہیں لیکن کبھی اچھے دوست نہیں بن سکے۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت اور اس کی قیادت کا وہ متعصبانہ رویہ ہے جو ہمارے ساتھ 14 اگست 1947ء سے روا رکھا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چانکیہ کے چیلوں نے آج تک تقسیم ہند اور قیام پاکستان کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ انتہاپسند ہندو قیادت لمحہ موجود میں بھی اکھنڈ بھارت کے خواب دیکھ رہی ہے اور یہ خواب اسے اس وقت چکنا چور ہوتے دکھائی دیتے ہیں جب پاکستان استحکام کی جانب بڑھنے لگتا ہے اور ترقی کی منازل طے کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کبھی بھارت کی شیطانی قوتیں حرکت میں آتی ہیں اور پاکستان کے خلاف سازشوں کے نت نئے جال بننا شروع کر دیتی ہیں، کبھی پاکستان دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کبھی ایف اے ٹی ایف میں اسے بلیک لسٹ کی جانب دھکیلنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے، کبھی ایل او سی پر بلا اشتعال گولہ باری کی جاتی ہے تو کبھی ورکنگ باؤنڈری کو گرم کیا جاتا ہے، کبھی پڑوسی ممالک کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال کی جاتی ہے تو کبھی ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوشش ہوتی ہے۔ کون سا وہ حربہ ہے جو بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے استعمال نہ کیا ہو۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ انتہاپسند بھارتی قیادت کی جب پاکستانی شہریوں کے خون سے پیاس نہ بجھی تو وہ آبی جارحیت سے بھی باز نہ آئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دریاؤں پر ڈیم بنانے کا ناختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ بھارت کا یہ منصوبہ رہا ہے کہ پاکستان کا پانی روک کر اسے بوند بوند کیلئے ترسایا جائے اور ہماری ماضی کی قیادتیں جو خواب خرگوش کے مزے لیتی رہیں۔ دشمن کا ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ چکا ہے اب تو ہمیں غفلت کی چادر اُتارنی ہوگی۔ بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے، اس نے 27 چھوٹے بڑے ڈیم بنا لیے اور ہم تربیلا اور منگلا کے بعد آج تک آگے نہ بڑھ سکے۔ الحمدللہ اب اگر گزشتہ چند برسوں سے بغلیھار ڈیم کی باتیں سن رہے ہیں، اس سلسلہ میں ایک ڈیم فنڈ بھی قائم ہوا جس کے سربراہ اْس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار تھے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ موجودہ دورِ حکومت میں بغلیھار ڈیم مکمل ہوجائے گا، اس سے پہلے کالا باغ ڈیم کے چرچے ہوئے لیکن اس تکنیکی مسئلے کو جان بوجھ کر متنازعہ بنایا گیا جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آبی ذخائر کی جتنی ضرورت آج ہے شاید ہی اس سے پہلے کبھی ہو، ہم بڑی تیزی سے ایسی صورتحال کی جانب بڑھ رہے ہیں جہاں اگر ہمارے پاس آبی ذخائر نہ ہوئے تو ہم بوند بوند کو ترسیں گے، ہماری زمینیں بنجر ہوں گی، ملک کی کثیر آبادی کو خشک سالی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ اندازہ کریں کہ ایسی صورتحال میں ہمارا حال کیا ہو گا؟ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو آج ہمیں ایسی باتیں نہ کرنا پڑتیں۔ یہ ڈیم پاکستان کی بقاء و خوشحالی کیلئے ناگزیر تھا۔ اگریہ ڈیم آج بھی بن جائے تو ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، جس زمانے میں اس عظیم منصوبے کی تعمیر کا فیصلہ ہوا تھا اْس وقت اگر یہ ڈیم بن جاتا تو ہمیں 30 پیسے فی یونٹ بجلی ملتی اور اگر آج بھی یہ ڈیم بن جائے تو اس سے حاصل ہونے والی بجلی کی کاسٹ صرف 2 روپے فی یونٹ ہو گی جبکہ اس وقت ہم فرنس آئل سے جو بجلی بنا رہے ہیں اس کا ریٹ 18 روپے فی یونٹ ہے اور یہ سارا بوجھ اس ملک کے عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی سیلاب آتا ہے، سیلابی پانی کو سٹور کرنے کا کوئی بندوبست موجود نہیں ہوتا جس وجہ سے وہ لاکھوں کیوسک پانی بہہ کر سمندر میں جا گرتا ہے اور ہمیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ الٹا نقصان ہوتا ہے کیونکہ وہ پانی جہاں جہاں سے گزرتا ہے تباہی مچاتا ہوا گزرتا ہے۔ کالا باغ ڈیم اگر بنا ہو تو ہم سیلابی پانی کو اس میں سٹور کر سکتے ہیں جسے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں۔ کے پی کے میں جو لوگ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے رہے اْنہیں بھارت اکساتا رہا اور اکسا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر پاکستان میں کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو بھاشا ڈیم سمیت کئی ڈیم بن جاتے، اس سے ملک میں بجلی کا اوسط ریٹ دو سے تین روپے فی یونٹ ہوتا۔ ہمیں سینکڑوں بلین ڈالرز کا فرنس آئل امپورٹ نہ کرنا پڑتا۔ بد قسمتی سے بھارت نے پاکستان کو اس جانب نہ بڑھنے دیا۔ جس طرح پاکستان میں فرقہ واریت کی جنگ بھڑکانے کیلئے فنڈنگ ہوتی تھی اسی طرح ڈیموں کی مخالفت کیلئے بھی ہوتی رہی۔ کسی کو شک ہو تو سابق ممبر پاور سید تنظیم حسین نقوی سے رابطہ کر سکتا ہے وہ بقید حیات ہیں اور اپنے متعدد انٹرویوز میں اس کا کھل کر اظہار کر چکے ہیں۔ پاکستان اگر ایٹم بم بنا سکتا ہے تو ڈیم بنانا کونسا مشکل کام ہے۔ کالا باغ کے بعد اب کچھ قوتیں بھاشا ڈیم پر بھی بیان بازی کیلئے پر تول رہی ہیں۔ ہمیں ان پر نظر رکھنا ہو گی اور جلدازجلد اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو گا اور اس کے بعد ہمیں مزید ڈیمز کی جانب بڑھنا ہو گا۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ہمارے پاس ایسی سائٹس موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیمز بنا کر پچاس ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ایک سٹڈی کرائی گئی تھی جس میں پتا چلا کہ پاکستان میں تین سو سے پانچ سو ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں۔ اس ملک میں کسی شے کی کمی نہیں، کمی ہے تو صرف جذبے کی۔ اب ہمیں اس کمی کو دور کرنا ہو گا ورنہ ہمارا ہر گزرتا لمحہ ہمیں تباہی و بربادی کی طرف دھکیل رہے گا۔ ملک میں مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے آج ہر شہری پریشان ہے۔ لوگ مہنگی بجلی کے باعث مشکلات کا شکار ہیں۔ آئے روز بجلی کی قیمت بڑھنے سے لوگوں کا گھریلو بجٹ متاثر ہوتا ہے۔ ہمارے حکمران بھی اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور حالات اس حدتک تشویشناک ہیں کہ غریب آدمی کے لیے بجلی کا بل ادا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ اگر ہم تیل کے بجائے پانی سے بجلی بنائیں اس سے ناصرف حکومتی اخراجات میں کمی آئے گی بلکہ مہنگی بجلی کے ستائے عوام بھی سکھ کا سانس لینے میں کامیاب ہوں گے۔ ملک میں اس وقت ایک کروڑ ساٹھ لاکھ سے زائد ایسے افراد موجود ہیں جن کو صاف پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں پینے کے صاف پانی کے حوالے سے ناصرف مسائل پیدا ہو رہے ہیں بلکہ زراعت کے لیے بھی نہری پانی کی دستیابی ناگزیر ہے۔ ہمارے ملک میں منگلا اور تربیلہ صرف دو بڑے ڈیم ہیں لیکن ان دو بڑے ڈیموں میں بھی مٹی بھر جانے کی وجہ سے ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان میں جہاں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث موسم سرما میں معمول سے کم بارشوں کے سبب ملک کے بڑے شہر سموگ یا گرد آلود دھند کی لپیٹ میں آجاتے ہیں وہیں کھربوں روپے مالیت کا ہزاروں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں ضائع ہو جاتا ہے۔گزشتہ سال موسم سرما میں ملک کو 36 فیصد پانی کی کمی کا سامنا رہا ہے، جس کے یقینی اثرات شعبہ زراعت پر بھی پڑے اور ہمیں گندم کے بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر پانی ذخیرہ کرنے کی بات کی جائے تو ہم اس حوالے سے دنیا سے بہت پیچھے ہیں۔ ہم نے ایٹم بم تو بنا لیا ہے لیکن مختلف ڈیم بنانے کے حوالے سے ہم ناکامی سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے حکمرانوں کی ترجیحات اور سیاسی جماعتوں کے منشور میں ڈیموں کا ذکر سرے سے ہی موجود نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے کہ آبی ذخائر کیلئے ڈیمز کی تعمیر ناگزیر ہے۔ موجودہ دور میں سیاستدانوں کو اقتدار کی جنگ کی بجائے ڈیموں کا فکر کرنا چاہیے، خدانخواستہ اگر انڈیا ہمارا پانی روک دے تو ہم کیا کریں گے؟اس وقت چین 23842، امریکا9265، بھارت5102 اور جاپان3116 ڈیمز تعمیر کر چکا ہے جب کہ بد قسمتی سے قیام پاکستان سے لے کر ابتک ہم صرف155ڈیمز بنا سکے۔ دنیا 120دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ ہم صرف 30دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرامریکادریائے کلوریڈا پر نو سو دن، مصر دریائے نیل پر ایک ہزار دن اور جنوبی افریقا دریائے اورنج پر پانچ سو دن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟اس حوالے سے سوچنا اور بروقت اقدامات کرنا ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب