تحریر: شیخ محمد انور 2022ء
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
”الکاسب حبیب اللہ“ مزدور اللہ کا دوست ہے اورجس معاشرے میں اللہ کے دوست کا یہ حال ہو کہ وہ روزی، روٹی کیلئے اپنی چھت بچانے کیلئے اپنی بیٹی کی شادی کیلئے سڑکوں پر دھکے کھارہا ہو اُس معاشرے کا یہی انجام ہوگا جو آج پاکستان میں عوام اور ملازمین کاہے۔
کوئی ناگہانی آفت و بیماری آجائے تو جانتے ہیں کہ وہ پورا خاندان جو پنشن پر گزارا کررہا ہو کس قدر مالی مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوجاتا ہے؟
ریٹائرملازمین اور بیوائیں کوئی خیرات یا زکوٰۃ نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
ہم چیف جسٹس آف پاکستان محترم عمر عطاء بندیال سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ریلوے کے سینکڑوں ریٹائرمردوخواتین اور بیواؤں کے واجبات کی عدم ادائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے سوموٹو نوٹس لے کر حکومت کو ان واجبات کا فوری طور پر ادا کرنے کا حکم دے۔
آج پاکستان میں نہ تو عوام حکومت سے خوش ہے، نہ ہی حکمران حکومت سے خوش ہیں۔ ایک طرف تو انصاف حکومت بڑے بڑے دعوے کررہی ہے کہ ہم نے استعفے دے دئیے ہیں اور دوسری طرف جاکر قومی خزانے سے کروڑوں روپے کی تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ جس معاشرے کے ایم این اے وغیرہ کا یہ حال ہوگا اُس معاشرے کی عوام اور ملازمین کا اللہ حافظ
پنشن بالعموم آخری بنیادی تنخواہ کے نصف کے برابر ہوتی ہے۔ بنیادی تنخواہ سے مراد وہ رقم ہے جس میں کسی قسم کے الاؤنسز شامل نہیں ہوتے اور وہ اصل تنخواہ کے نصف سے بھی کم ہوتی ہے۔ جو ملازمین دوران سروس وفات پاجاتے ہیں ان کی بیوی بچوں کے گزارے کا کل سامان وہی پنشن کی رقم ہوتی ہے جو تنخواہ کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ یوں وہ لوگ مالی مسائل اور تنگ دستی کا شکار رہتے ہیں۔ پنشن حاصل کرنے والے ملازمین اپنی زندگی کے قیمتی سال ملک اور قوم کی خدمت میں صرف کردیتے ہیں۔ خواہ وہ کسی شعبہ سے تعلق رکھتے ہوں۔ وہ بڑی محنت، لگن اور جانفشانی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جب وہ اپنی جوانی اپنے محکموں پر قربان کرکے بڑھاپے کی دہلیز کو چھوتے ہیں تو ریٹائرہوجاتے ہیں۔ اس دوران باقی کئی اقسام کے مسائل کے ساتھ ساتھ بڑے مالی مشکلات کا سامنا درپیش ہوتا ہے۔ ایک طرف اولاد جوانی میں قدم رکھ چکی ہوتی ہے جہاں بیٹیوں اور بیٹیوں کی شادیاں سب سے زیادہ ضروری امر ہے لیکن سر پر چھت نہ ہونے کی وجہ سے خاندان کیلئے رہائش جیسے مسائل سے بھی دوچار ہونا پڑتاہے جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد تنخواہ بھی آدھی رہ جاتی ہے اخراجات کم نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ آج مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے جس کے سبب ملک کے تمام پنشنرز سخت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ خاص طور پر پاکستان ریلوے سے ریٹائر ہونے والے ملازمین، بیوائیں اور اُن کے یتیم بچے بے سروسامانی اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ اُن کی دادرسی کرنے والے اور فریاد سننے والے بے حسی کی چادر لپیٹ کر سوئے ہوئے ہیں اور سب اچھا ہے کے راگ الانپ رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان ریلوے سے ریٹائرہونے والے سینکڑوں ملازمین اور بیوائیں گریجویٹی، پی ایم پیکج، انکیشمینٹ اور جی پی ایف کیلئے کئی سالوں سے دفتروں میں دھکے کھارہے ہیں۔ اکثر وبیشتر ریلوے ہیڈکوارٹر میں راقم الحروف کو بزرگ اور ہماری ماں بہنیں راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہیں کہ ہمارے واجبات کب ملیں گے اور کب ہم اپنی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کریں گے؟ جس کا جواب میرے پاس نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت سے بہت سی اُمیدیں ہیں کہ شاید اس دور میں ہی ملازمین کو واجبات کی ادائیگی ہوجائے ورنہ تو پھر اللہ ہی مالک ہے۔ کوئی انقلاب ہی آئے گا تو لوگوں کے واجبات مل سکیں گے اور ہم بھی اب تھک چکے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہیں کہ:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
پنشن اتنی قلیل ہے کہ بمشکل دس روز ساتھ دیتی ہے، اس منہ زور مہنگائی کے دور میں وہ ملازمین جو کہ 16اور 17سکیل سے ریٹائرہوتے ہیں وہ بھی پہلی تاریخ تک نہ جانے کتنی بار انگلیوں پر دن گنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ جن بوڑھے اور بیواؤں کو پنشن ہی 10سے 15 ہزار ملتی ہو وہ اپنے گھروں کے چولہے کیسے جلاتے ہوں گے؟ وہ کس قدر اذیت ناک اور غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے؟ اُن کے بچوں کی زندگی کیسی ہوگی؟ اُن کی خوراک کیسی ہوگی؟ اُن کا لباس کیسا ہوگا اور اُن کی جسمانی اور دماغی کیفیت کیسی ہوگی؟
پنشن کا نظام انگریز سرکار نے بنایا تھا تاکہ جب ایک آدمی اپنی ساری زندگی سرکار کی خدمت میں گزار کر عمر کے اس حصے میں پہنچ جائے جہاں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بیٹھے باعزت طریقے سے ماہانہ سرکار کی طرف سے پنشن کی شکل میں رقم حاصل کرے جس سے وہ باآسانی اپنے گھر کا نظام چلا سکے۔ پنشن کے قوانین کے تحت ہر سرکاری ملازم کی پہلی تنخواہ سے اُس کی تنخواہ کے مطابق 30فیصد رقم بطور پنشن خزانہ فنڈ میں جمع ہوتی ہے یہ رقم ریٹائرمنٹ ہوتے وقت گریجویٹی اور ماہانہ تاحیات پنشن کی شکل میں دی جاتی ہے۔ دوران ملازمت انتقال ہونے کی صورت میں ادارہ اُس کی فیملی کی مالی اعانت بھی کرتا ہے اور پنشن اُس کی زوجہ کے نام پر بن جاتی ہے تاکہ وہ اپنی فیملی کی کفالت آسانی سے کرسکے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری ملازم فوت ہونے کی صورت میں پنشن قانون کے مطابق اُس کی زوجہ کے نام ٹرانسفر ہوجاتی ہے۔ اگر آپ ایک بار سرکار پاکستان کے ملازم ہوجائیں تو انگریز دور کے لاگو کردہ موجودہ پنشن قوانین کے تحت سرکار نہ صرف آپ کو ریٹائرمنٹ کے بعد ماہانہ پنشن دیتی ہے بلکہ آپ کے اس دنیا سے گزر جانے کے بعد آپ کی بیوہ اور دونسلیں اس سہولت سے فیض یاب ہوسکتی ہیں جبکہ سابق وفاقی وزیر اعظم سواتی اپنے خطاب میں فرماتے تھے کہ میرا بس چلے تو میں سب سے پہلے ریلوے میں پنشنرز کی پنشن کو بند کردوں۔ خدا کا نظام کہ پنشنرز تو آج بھی موجود ہیں لیکن وزیر موصوف آج وزارت میں نہیں ہیں۔ سرکاری ملازم کی وفات کے بعد پنشن اس کی بیوہ کو ملتی ہے اور بیوہ کی وفات کی صورت میں یہ سہولت 24 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملتی ہے اور اس کے بعد حکومت پاکستان غیرشادی شدہ بیٹے یا بیوہ بیٹی اور اس کے بعد اس کے بچوں کو پنشن دینے کی پابند ہے یعنی 25 سال کی ملازمت کے بعد ایک اندازے کے مطابق 75 سال تک آپ کا خاندان سرکار کے اس مشاہرے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔
پنشنرز اس وقت پریشان ہیں، مہنگائی کی اس لہر میں وہ تن و تنہا لڑرہے ہیں۔ اُن کا زندگی گزارنے کا واحد سہارا یہ پنشن ہوتی ہے۔ پورا مہینہ وہ بے چینی کے ساتھ اپنی پنشن کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اس ملنے والی پنشن سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے خاندان کیلئے بھی ماہانہ بجٹ ترتیب دیتے ہیں اور ساری پنشن وہ لگاتے ہیں۔ اگر پنشن نہ ہو تو اس طبقہ کیلئے زندگی کتنی اجیرن و مشکل ہوجائے۔ کچھ زندگی بالکل مایوسیوں کے بادلوں کے درمیان بے یارومددگار نظرآئے۔ پنشنرز کو نہ تو کوئی سالانہ بونس ملتا ہے، نہ عید پر کوئی سپیشل اضافی رقم ملتی ہے، آج مہنگائی نے ہر پاکستانی کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے میں حکومت مکمل طور پر فیل ہوچکی ہے۔ کوئی مہنگے داموں چیزیں بیچنے والوں کو کنٹرول کرنے والا نظر نہیں آرہا۔ بجلی، گیس اور پانی کا ہر ماہ کا بل اب وہ دور نہیں رہا کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ نے بجلی گیس پانی جو استعمال کیا ہے اتنا ہی بل آئے گا۔ اچانک آپ کابل آپ کی توقعات سے زیادہ تھما دیا جاتا ہے۔ عملے سے پوچھا جائے کہ ہم نے تو اتنی بجلی گیس و پانی استعمال ہی نہیں کیا تو یہ اتنا بل کیوں آیا ہے؟ تو ایک ہی جواب آتا ہے کہ پہلے یہ بل جمع کروائیں پھر بات کریں اور پھر محکمہ کچھ بھی نہیں کرتا۔ یہ ریاستی کرپشن ایک عام آدمی کیلئے زندگی کتنی مشکل بنادیتی ہے کہ کئی بار تو اُس عام پاکستانی کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ مجھے بجلی گیس مستقل طور پر کٹوالینی چاہیے۔ لالٹین اور لکڑیوں پر گھر کا کچن چلانا ٹھیک ہوگا۔ ایک پنشنر کی زندگی اس وقت کی پنشن کے مطابق بہت مشکل ہوگئی ہے۔ پنشنر عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں کہ جب زیادہ تر کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اُن کیلئے ادویات و اچھی خوراک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان ریلوے میں سینکڑوں ریلوے مردوخواتین اور بیوائیں ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد عرصہ دراز سے اپنے واجبات سے محروم ہیں جس کی وجہ سے اُن کو بہت زیادہ مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جوکہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔ ریلوے سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُن سے ریلوے رہائش ایک سال کے بعد خالی کروالی جاتی ہے۔ واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے نہ تو اپنے لیے کوئی رہائش کا بندوبست کرسکتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے ریٹائرملازم اپنے رشتہ داروں، بھائی اور دوسرے عزیزواقارب کی چھت کے نیچے پناہ لیے ہوئے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے نان نفقہ کیلئے ریڑھی، چھابڑی یا فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آلو چنے وغیرہ بیچ رہے ہیں اور اس وجہ سے اپنی جوان بچیوں کو گھر سے رُخصت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔
2۔ واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اور محدود پینشن کی وجہ سے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت سے بھی قاصر ہیں اور اُن کے بچے آوارہ گردی اور دوسری معاشرتی برائیوں میں مشغول ہورہے ہیں جس سے معاشرہ میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔
3۔ واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے اکثر ریٹائرملازم ذہنی دباؤ کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور اُن کے پاس علاج کیلئے بھی وسائل نہیں ہیں اس وجہ سے اُن کے اہلِ خانہ بھی ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔
4۔ واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بوڑھے ریٹائرملازمین بڑھاپے میں محنت مزدوری کرکے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے پیٹ کے دوزخ کو بھرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کی وجہ سے بھی یہ ریٹائرملازم مختلف مسائل کا شکار ہیں۔
ایک طرف تو سابقہ اور موجودہ حکومتیں غریبوں کیلئے بینظیر انکم سکیم اور احساس پروگرام اور مختلف سبسیڈیز کے ذریعے سالانہ اربوں روپے خرچ کررہی ہے جس کے معاشرے میں کوئی اثرات نظر بھی نہیں آرہے اور دوسری طرف ریلوے کے سینکڑوں ریٹائرملازمین اور اُن کے اہلِ خانہ کے چند ارب واجبات کی عدم ادائیگی کی وجہ سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ جس طرح اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہے کہ مزدور کی اُجرت اُس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کی جائے اور دوسری طرف ریلوے کے سینکڑوں ریٹائرملازمین کو اُن کی ریٹائرمنٹ پر اُن کی ملازمت ادا کرنے کی اُجرت ادا نہیں کی جارہی۔ ریٹائرملازمین اور بیوائیں کوئی خیرات یا زکوٰۃ نہیں مانگ رہے بلکہ اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ لیکن بہت افسوس کی بات ہے کہ بار بار لکھنے اور یاددہانیوں کے باوجود بھی حالات میں کوئی بہتری نہیں لائی گئی۔ حکومت وقت اور پاکستان ریلوے کے اعلیٰ حکام کی طرف سے پاکستان ریلوے کے پنشنرز کی تمام تر مشکلات اور پریشانیوں سے چشم پوشی ہوتی جارہی ہے۔ اس کے سبب پنشنرز کو اپنی پنشن کے حصول میں آج بھی سابقہ پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔
لہٰذا ہمارا حکومت وقت سے مطالبہ ہے کہ فوری طور پر بینظیر انکم سکیم اور احساس پروگرام سے ریلوے کے تمام ریٹائرملازمین کو اُن کے واجبات فوری طور پر اداکرے اور ریٹائرہونے والے ملازمین کے واجبات کا مستقل طور پر بندوبست کرے۔ ہم چیف جسٹس آف پاکستان محترم عمر عطاء بندیال سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ ریلوے کے سینکڑوں ریٹائرمردوخواتین اور بیواؤں کے واجبات کی عدم ادائیگی کو مدنظر رکھتے ہوئے سوموٹو نوٹس لے کر حکومت کو ان واجبات کا فوری طور پر ادا کرنے کا حکم دے۔ دنیا بھر میں بزرگ شہریوں کو خصوصی سہولیات اور عزت دی جاتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پنشنرز کے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور ان کے حل کیلئے موثر اقدامات کیے جائیں تاکہ پنشنرز کے مسائل کم ہوسکیں۔
یاد رکھیں ان مظلوموں کی فریاد کو نظرانداز کریں گے تو پھر روز قیامت اللہ کی عدالت میں ان مظلوموں کے ہاتھ ہوں گے اور حکمرانوں کے گریبان ہوں گے۔ ہماری دُعا ہے کہ اس وقت سے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔