تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
بُت شکن سلطان محمود غزنویؒ
بُت شکن سلطان محمود غزنوی اسلامی تاریخ کا ایسا درخشندہ ستارہ ہے جس پر بجاطور پر برصغیر کے مسلمان فخر کرسکتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں اس نے برصغیر میں ہندوؤں کے غرور کی علامت سومنات کے مندر پر سترہ حملے کرکے اس خطے میں اسلام کی بنیاد رکھی۔ ہندو اپنی تاریخ کی کتابوں میں محمود غزنوی کو ایک ڈاکو اور لٹیرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اس کے پیشِ نظر مال و دولت سے کہیں زیادہ اہم اسلام کی ترویج تھی مگر بدقسمتی کہ ہندوؤں نے سلطان کو بدنام کرنے کیلئے بہت سازشیں کیں۔ ان کی زندگی کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت ہم پر باآسانی واضح ہوجاتی ہے لیکن چونکہ آج کل ہم اپنے ہمسایہ ملک بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے میں مصروف ہیں اس لیے ان کی پسند کا ادب اپنی کتابوں میں شامل کررہے ہیں۔ سلطان محمود غزنوی 2 اکتوبر 971ء کو پیدا ہوئے۔ سلطان محمود غزنوی کے پیدا ہونے سے کچھ دیر قبل ہی اس کے باپ سبکتگین نے خواب دیکھا کہ اس کے مکان میں آتش دان کے اندر سے ایک درخت نکلا اور اس قدر بلند ہوا کہ ساری دنیا اس کے سائے میں آگئی۔ سبکتگین کی جب آنکھ کھلی اور وہ اس خواب کی تعبیر کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں ایک شخص نے آکر محمود کے پیدا ہونے کی خوشخبری سنا دی۔ یہ خبر سن کر سکبتگین کو بے انتہا خوشی ہوئی۔ وہ اپنے خواب سے جس کی ابتداء اور انتہا بہت اچھی تھی، خوش ہوا اور امیدیں قائم کیں اور اس لڑکے کا نام محمود رکھا۔ ہندو مؤرخین دعویٰ کرتے ہیں کہ 1026ء میں محمود غزنوی کے سومنات کے مندر پر حملے نے اس خطے میں ہندومسلم دشمنی کی بنیاد رکھی۔ اب ہندو یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ سومنات کے مندر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ برہمنوں نے محمود غزنوی سے استدعا کی کہ سومنات کے بُت کی حفاظت کرے جس کے عوض اسے بہت زیادہ دولت دی جائے گی۔ سُلطان محمود غزنوی نے یہ کہہ کر اُن کی بات ماننے سے انکار کردیا کہ ”میں بُت شکن ہوں، بُت پرست نہیں“۔ سلطان محمود غزنوی تمام دنیاوی اور دینی خوبیوں کا مجموعہ تھا اور اپنی دلیری اور شجاعت، عدل و انصاف، انتظام سلطنت اور فتوحات کی بناء پر دنیا کے گوشے گوشے میں مشہور تھا۔اس کی معرکہ آرائیوں کا اصل سبب یہ تھا کہ اسلام اور انصاف کی برکات کو پھیلایا جائے اور ظلم و ستم کی بنیاد کو ڈھایا جائے۔ اس کی بہادری اور جرأت مندی اور استقلال کا یہ عالم تھا کہ میدان جنگ میں سیلاب کی طرح بڑھتا چلا جاتا تھا اور کسی بلندی اور پستی کا مطلق خیال نہ کرتا تھا۔ انصاف کا یہ عالم تھا کہ دورونزدیک مقام پر اس کی انصاف پسندی کا بول بالا تھا۔
سلطان محمود غزنوی کو اس کے چند قابل اعتبار لوگوں نے بتایا کہ ہندوستان والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد انسان کی روح بدن سے جدا ہوکر سومنات کی خدمت میں حاضر ہوتی ہے اور سومنات ہر روح کو اس کے اعمال اور کردار کے مطابق نیا جسم عطا کرتا ہے۔ ہندوؤں کا یہ بھی اعتقاد ہے کہ دریا کا اتار چڑھاؤ اصل میں سومنات کی عبادت ہے جو اس صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ محمود کو یہ بھی بتایا گیا کہ ہندوؤں کا یہ خیال ہے کہ جن بتوں کو محمود نے پاش پاش کیا وہ ایسے بت تھے جن سے سومنات ناراض تھا۔ اسی لیے اس نے ان بتوں کی طرف داری نہیں کہ ورنہ اس میں اس قدر قوت ہے کہ وہ جسے چاہے ایک لمحے میں تباہ و برباد کرسکتا ہے۔ محمود کو یہ بھی بتایا گیا کہ برہمنوں کے اعتقاد کے مطابق سومنات بادشاہ ہے اور باقی بت اس کے دربان اور مصاحب ہیں۔ محمود نے جب یہ افسانے سنے تو اس کے دل میں جہاد کا شوق پھر سے پیدا ہوگیا اور اس نے سومنات کو فتح کرنے اور وہاں کے بت پرستوں کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا اور اپنا خاص لشکر تیار کیا جو ترکستان اور دوسرے شہروں سے جہاد کی غرض سے آئے ہوئے تھے، سب کو اپنے ساتھ لے کر سومنات کی طرف چل پڑا۔ اس زمانے میں سومنات ایک بہت بڑا شہر تھا اور یہ دریائے عمان کے کنارے پر واقع تھا۔ یہ شہر اپنے عظیم الشان بت کی وجہ سے تمام برہمنوں اور غیر مسلمانوں کے نزدیک کعبے کی سی اہمیت رکھتا تھا۔ جب مسلمانوں کا لشکر سومنات کے قریب دریا کے کنارے پہنچا تو مسلمانوں نے دیکھا کہ سومنات کا قلعہ بہت ہی بلند ہے اور دریا کا پانی قلعے کی فصیل تک پہنچا ہوا ہے۔ اہل سومنات قلعے کی دیوار پر کھڑے ہوکر اسلامی لشکر کو دیکھ رہے تھے اور چلا چلا کر مسلمانوں سے یہ کہہ رہے تھے کہ ”ہمارا معبود سومنات خود تم کو یہاں کھینچ کر لایا ہے تاکہ ایک ساتھ ہی تم سب کو تباہ و ہلاک کردے اور اس صورت سے تم سے ان تمام بتوں کا بدلہ لے کر جنہیں تم نے پاش پاش کیا۔ مسلمانوں کے زبردست لشکر نے اپنے باہمت اور دلیر بادشاہ سلطان محمود کے حکم سے پیش قدمی کی اور قلعے کی دیوار کے نیچے پہنچ کر معرکہ آرائی شروع کردی۔ ہندوؤں نے جب مسلمانوں کی یہ ہمت اور اولوالعزمی دیکھی تو وہ تیروں کی بوچھاڑ سے بچنے کیلئے قلعے کی دیوار سے نیچے قلعے کے اندر اتر گئے اور مندر میں جاکر سومنات سے فتح کی دُعائیں مانگنے لگے۔ مسلمان بہت سی سیڑھیاں لگا کر قلعے کے ایک حصے پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ اس دن صبح سے لے کر شام تک جنگ ہوتی رہی۔ جب رات کے آثار نمایاں ہونے لگے اور چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا تو اسلامی لشکر اپنی قیام گاہ کی طرف واپس آگیا۔ دوسرے روز صبح ہوئی تو مسلمانوں نے حملہ کیا اور تیروں کی بوچھاڑ اور نیزوں کی ضربوں سے ہندوؤں کو قلعے کے اس حصے سے پسپاکردیا اور گزشتہ دن کی طرح سیڑھیاں لگا کر قلعے کے چاروں طرف سے اہل قلعہ پر حملہ آور ہوئے۔ یہ عالم دیکھ کر اہل سومنات مختلف گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور سومنات کے بت سے بغل گیر ہوکر ایک دوسرے سے رخصت ہونے لگے”مارو مارو“ کی آوازیں لگاتے ہوئے وہ اس قدرلڑے کہ ایک ایک کرکے تقریباً سب ہی ہلاک ہوگئے۔ تیسرے روز بھی بہت گھمسان کی جنگ ہوئی، سلطان کے کئی سپاہی بھی اس جنگ میں شہید ہوگئے۔ آخر کار سلطان نے ہندوؤں پر ایک زبردست حملہ کیا اور فتح حاصل کرلی۔ جب ہندوؤں کی طرف سے پوری طرح اطمینان ہوگیا تو سلطان محمود اپنے بیٹوں اور معززین سلطنت کو ساتھ لے کر قلعے میں داخل ہوا اور قلعے کے ہر ہر حصے کو بغور دیکھنے لگا۔ عمارت کو دیکھنے کے بعد سلطان محمود ایک اندرونی راستے کے ذریعے بت خانے میں پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ بت خانہ اپنے طول و عرض کے لحاظ سے اچھا خاصہ بڑا تھا۔ اس کی وسعت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ اس کی چھت ۶۵ گز بلند تھی جس میں سومنات کا بت دوگززمین کے اندر گڑا ہوا تھا اور تین گز اوپر نظر آتا تھا۔ یہ بت پتھر کا بنا ہوا تھا۔ جب محمود کی نظر اس بُت پر پڑی تو اس کی اسلامی غیرت کے جوش نے شدت اختیار کی۔ لہٰذا اس نے گرز کے ذریعے ایک کاری ضرب لگائی اور اس بت کا منہ ٹوٹ گیا۔ سلطان نے حکم دیا کہ اس بت میں سے پتھر کے دو ٹکڑے کاٹ کر علیحدہ کرلیے جائیں اور غزنی بھجوا دئیے جائیں۔ ان میں سے ایک ٹکڑا جامع مسجد کے دروازے پر اور دوسرا ایوان سلطنت کے صحن میں رکھا جائے۔ اس وقت کے برہمنوں کے طبقے نے معززین سلطنت کے توسط سے سلطان سے درخواست کی کہ اس بت کو نہ توڑا جائے اور یونہی چھوڑ دیا جائے۔ ہندوؤں نے اس کے عوض دولت کی ایک بہت بڑی مقدار دینے کا وعدہ کیا۔ معززین سلطنت نے ہندوؤں کی اس درخواست کو سلطان تک پہنچاتے وقت یہ خیال ظاہر کیا کہ اس درخواست کو قبول کرلینے میں ہی ہمارا فائدہ ہے۔ بت کو توڑ ڈالنے سے نہ تو بت پرستی کی رسم اس شہر سے مٹ سکتی ہے اور نہ ہمیں کوئی فائدہ ہوگا۔ اگر ہم اس بت کو نہ توڑنے کے معاوضے میں کوئی معقول رقم قبول کرلیں تو اس سے غریب مسلمانوں کا فائدہ ہوگا۔ محمود نے جواب میں کہاکہ ”تم جو کہتے ہو وہ صحیح ہے لیکن اگر تمہارے کہنے پر چلوں گا تو میرے بعد دنیا مجھے ”محمود بت فروش“ کے نام سے یاد کرے گی اور اگر میں اس بت کو پاش پاش کروں گا تو مجھے ”محمود بت شکن“ کے نام سے یادکرے گی۔مجھے تو یہی بہتر معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں مجھے محمود بت شکن پکارا جائے نہ کہ محمود بت فروش۔ محمود کی نیک نیتی اسی وقت رنگ لائی اور جس وقت اس بت کو توڑا گیا اس کے پیٹ میں سے ان گنت اور بیش قیمت جواہر اور اعلیٰ درجے کے موتی نکلے۔ ان سب جواہرات کی قیمت برہمنوں کی پیش کردہ رقم سے سوگنازیادہ تھی۔ پچیس برس کے عرصہ میں سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے، ان سب کا نتیجہ یہ تھا کہ پنجاب کے مغربی اضلاع دولت غزنویہ کے تابع ہوگئے۔ سلطان محمود غزنوی 33 سال حکومت کرنے کے بعد پتھری کے باعث بری طرح بیمار ہوگیا اور رفتہ رفتہ یہ مرض بڑھتا چلا گیا۔ شروع شروع میں تو محمود نے اپنی بیماری کو دوسروں سے چھپایا اور کسی پر اصل حقیقت ظاہر نہ ہونے دی اور اپنے آپ کو پہلے جیسا تندرست و توانا ظاہر کرتا رہا۔ اسی بیماری کی حالت میں سلطان بلخ گیا اور موسم بہار میں وہاں سے غزنی واپس آیا۔ اس تبدیلی آب و ہوا کے باوجود اس کا مرض شدید صورت اختیار کرگیا۔ آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس مرض کے سبب اپنے دارالسلطنت غزنی میں 30 اپریل 1030ء کو وفات پائی اور آپ کو غزنی میں قصر فیروزی میں دفن کیا گیا۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب