حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام میں اولیت کا اعزاز حاصل کیا۔

تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے قبول اسلام میں اولیت کا اعزاز حاصل کیا۔
حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ، کنیت ابوبکر اور لقب صدیق تھا۔ آپ کے والد کا نام عثمان بن عامر اور کنیت ابوقحافہ اور والدہ کا نام سلمیٰ اور کنیت اُم الخیر تھی۔ آپ ۳۷۵ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ چھٹی پشت پر آپ کا نسب حضور اکرمﷺ سے ملتا ہے۔ آپ کا گھرانہ زمانئہ جاہلیت سے ہی معزز سمجھاجاتا تھا اور مکہ کے شرفاء میں بہت اونچا مقام حاصل تھا۔ آپ مکہ کے اس محلہ میں رہتے تھے جس میں ایک مالدار تاجر خاتون حضرت خدیجہؓ رہتی تھیں۔ آپ کا پیشہ بھی تجارت تھا، جب حضور اکرمﷺ کا عقد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے ہوا تو اس کے بعد آپ کے آنحضرتﷺ سے تعلقات بڑھ گئے، شروع ہی سے آپ کو جاہلانہ رسموں اور مشرکانہ حرکتوں سے نفرت تھی، حضورﷺ سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے تھے اور عشق رسولﷺ سے سرشار تھے۔ آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ بغیر معجزہ دیکھے اسلام قبول کرکے اولیت حاصل کرلی۔ آپ کے اثرورسوخ کی وجہ سے روسائے مکہ نے بھی اسلام قبول کرلیا جن میں حضرت عثمان غنی، حضرت زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمان بن عوف شامل ہیں۔ آپ ہجرت کے وقت بھی حضورﷺ کے ساتھ رہے اور یار غار کا لقب حاصل کیا۔ ہر غزوہ میں بھی حضور سرور کائناتﷺ کے ساتھ شریک رہے۔ مالی قربانی میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی مثال غزوۂ تبوک میں ملتی ہے۔ فتح مکہ کے بعد دوسرے سال آپ کو امیر حج بنا کر بھیجا گیا۔ آنحضرتﷺ کی علالت کے دوران مسجد نبویﷺ کی امامت فرماتے رہے جو جانشینی کی طرف اشارہ تھا لیکن حضورﷺ اسلام میں نامزدگی کو مناسب خیال نہ فرماتے تھے۔ حضورﷺ کے وصال کی خبر نے مسلمانوں کو نڈھال اور ادھ موا کر دیا۔ لوگ غمگین اور افسردہ تھے اور کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ حضورﷺ کا وصال ہوگیا ہے۔ حضرت عمرفاروق عالم اضطراب میں ننگی تلوار اٹھائے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا کہ رسول اللہﷺ وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کردونگا۔ ایسے نازک موقعہ پر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ جو خود بھی غم میں نڈھال تھے۔ حضرت عمر کو حوصلہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے ہیں وہ سن لیں کہ آپﷺ وصال فرماگئے ہیں۔ جو اللہ کی عبادت کرتے تھے وہ سن لیں کہ آپﷺ وصال فرماگئے ہیں اور اللہ زندہ جاوید ہے اور کبھی نہیں مریگا پھر آپ نے آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ محمدﷺ ایک رسول ہی تو ہیں آپﷺ سے پہلے بھی رسول گزرگئے پھر اگر آپ وصال فرماجائیں یا قتل کردئیے جائیں تو کیا تم ایڑھیوں کے بل پیچھے ہٹ جاؤ گے اور جو ایڑھیوں پر لوٹ جائیگا وہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکے گا اور اللہ شکرگزاروں کو جزادینے والا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے خطاب کے بعد حضرت عمر فاروق اور مسلمانوں کو حوصلہ ہوگیا۔ ابھی حضورﷺ کی تجہیزوتکفین سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ اطلاع ملی کہ سقیفہ بنوساعدہ میں انصار جانشینی کے مسئلہ پر بحث کرنے کیلئے جمع ہوئے ہیں یہ ایک نازک اور اہم مسئلہ تھا، خدانخواستہ اگر مسلمان اس میں الجھ جاتے تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھرجانے کا ڈر تھا۔ حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمرفاروق اور حضرت ابوعبیدہ کو ساتھ لے کر سقیفہ بنوساعدہ پہنچے، انصار کا مطالبہ تھا کہ اب خلافت انصار کو ملنی چاہیے۔ آپ نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے پہلے ان کے احسانات کا ذکر کیا اور پھر فرمایا کہ عرب انصار کی خلافت کو ہرگزتسلیم نہیں کرینگے۔ پھر مطالبہ ہوا کہ ایک انصار میں سے اور دوسرا مہاجرین میں سے جانشین چنا جائے۔ بیک وقت اگر دو سربراہ منتخب کرلیے جاتے تو مسلمانوں کا شیرازہ بکھرجاتا۔ انصار کے دو قبیلے تھے، اگر ایک قبیلے سے جانشین نامزد کیا جاتا تو دوسرے قبیلے کو اعتراض ہوتا۔ اس لیے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے مہاجرین میں سے جانشین منتخب کرنے کا مشورہ دیا اور حضرت عمرفاروق اور حضرت ابوعبیدہ کا نام تجویز کیا۔ اس دوران حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اُٹھے اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کہا کہ ہم سب میں آپ بزرگ اور بہتر ہیں اور حضورﷺ کے مقربین میں سے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ چنانچہ سب نے ان کے ہاتھ پر بیعت کرکے حضرت ابوبکرصدیق کو خلیفہ اول کے طور پر منتخب کرلیا اور اس طرح آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد خلفائے راشدین کا دور شروع ہوا اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ اول اور حضورﷺ کے جانشین مقرر ہوئے۔ دوسرے دن مسجد نبویﷺ میں عام لوگوں نے بھی بیعت کرلی۔ آپ نے اس موقعہ پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا کہ ”اے لوگو میں تمہارا امیر بنادیا گیا ہوں حالانکہ تمہاری جماعت میں سب سے بہتر نہیں ہوں، اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرنا اور اگر میں غلطی پر ہوں تو مجھے سیدھا کردینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت، تمہارا کمزور شخص میرے نزدیک طاقتور ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کا حق دوسرے سے نہ دلواؤں اور تمہارا طاقتور شخص میرے نزدیک کمزورہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کرلوں۔ یاد رکھو جو قوم جہاد فی سبیل اللہ سے منہ موڑتی ہے خدا اس کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے خدا اسکو مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اگر میں خدا اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کروں تو تم میری اطاعت کرو اور اگر نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔ اب نماز کیلئے کھڑے ہو اللہ تم پر رحم کرے“۔ اس خطبہ سے آپ کی اسلام سے وابستگی، خلوص و محبت، عقیدت و احترام، عدل و انصاف اور نظریہ سیاست عیاں ہوتا ہے جس کی بنیاد پر آپ نے خلافت کی عمارت تعمیر کی تھی۔ آپ کا دور خلافت نامساعد حالات، سخت مشکلات اور پرخطرواقعات سے شروع ہوا لیکن آپ کے عزم و استقلال، ہمت حسن تدبر، دینی بصیرت، خلوص اور اسلام سے عقیدت نے اسلام کی کشتی کو ڈوبنے سے بچالیا۔ حضورﷺ کے وصال کی خبر سنتے ہی اسلام کے دشمنوں نے سازشوں کے جال پھیلا دئیے اور آپ کو متعدد مشکلات کا سامنا ہوا۔ مرتدین اسلام منکرین زکوٰۃ مدعیان نبوت اور سامہ بن زین کی مہم سے اختلاف آپ نے بہترین سیاست حسن تدبر اور بصیرت سے ان مشکلات پر قابوپالیا تھا۔ امیر منتخب ہونے کے بعد اگلے ہی روز آپ تجارت کی غرض سے روانہ ہونے لگے تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں کہ میں اپنے روزی کمانے کیلئے جارہا ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ نے کہا کہ اگر آپ تجارت کریں گے تو پھر ہر آدمی آپ سے ہی خریداری کرے گا جو کہ نامناسب ہے۔ اب آپ کی تنخواہ بیت المال سے ادا کی جائے گی۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ نے کہا کہ پہلے پتا کرو کہ مزدور کی مزدوری کتنی ہے، اگر اُس تنخواہ میں میرا گزارا ہوسکتا ہوگا تو میں بتادوں گا ورنہ پہلے مزدور کی مزدوری بڑھاؤ پھر اُتنی تنخواہ مجھے دے دو۔ قبائل نے حضورﷺ کی حیات میں اسلام قبول کرلیا تھا اور اندر سے مسلمان نہ ہوئے تھے۔ آپﷺ کے وصال کے فوراً بعد ان کے ایمان متزلزل ہوگئے اور انہوں نے ارتداد کرکے اسلام سے بغاوت کردی۔طائف کے قبیلہ ثقیف نے بھی ارتداد اختیار کرنے کا ارادہ کیا مگر عثمان بن العاص نے سمجھایا کہ اسلام قبول کرنے میں آپ لوگ سب سے پیچھے تھے اور ارتداد میں پہلی صف میں کیوں آتے ہو؟ان کی نصیحت سے وہ باز آگئے اور اسلام پر قائم رہے، بعض دوسرے علاقوں کے لوگ بھی مرتد ہوگئے اور آزاد حکومتیں بھی قائم کرلیں، حضرت ابوبکرصدیقؓ نے ان کو راہ راست پر لانے کیلئے پیغامات بھیجے مگر وہ باز نہ آئے ان مرتدین میں بہت اہم بنوتمیم تھے۔ آپ نے ان کی سرکوبی کیلئے حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، باغیوں کے سردار کا نام ملک بن نوہرہ تھا۔ان کے ساتھیوں نے خبرپاکراطاعت قبول کرلی مگر ان کا سردار بھاگ نکلا جسے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سپاہیوں نے قتل کردیا۔ بحرین کے قبائل نے بھی بغاوت کردی۔ علاء بن خضرمی نے ان کو شکست دی۔ عمان میں لقیطہ بن مالک کی سرکوبی کیلئے حضرت خذیفہ کو معمور کیا گیا۔ لقیطہ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر شکست کھائی، بہت بڑی تعداد میں اس کے لوگ مارے گئے اور اس طرح حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے دور خلافت کی پہلی مشکل یعنی اقتداد پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ مسلمانوں کا خلیفہ اول منتخب ہوتے ہی حضرت ابوبکر کو دوسری بڑی مشکل یہ پیش آئی کہ بعض مسلمانوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور اس سے بڑھ کر یہ مشکل پیش آئی کہ ان کے خلاف تلوار بھی نہیں اُٹھا سکتے تھے۔ صحابہ کی رائے تھی کہ یہ لوگ توحید و رسالت کے پابند ہیں اور نماز روزہ پر قائم ہیں اس لیے صرف زکوٰۃ سے انکارپر ان کے خلاف تلوار نہیں اُٹھانی چاہیے لیکن اُنہوں نے صحابہ کی رائے ماننے سے انکار کردیا اور فرمایا”خدا کی قسم اگر کوئی شخص رسول اللہﷺ کی زندگی میں بکری کا ایک بچہ بھی زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اسکے دینے سے انکار کرتا ہے تو میں اس کے خلاف جہاد کرونگا۔ اگر آج ان کو چھوڑ دیا تو کل وہ زکوٰۃ کے ساتھ دوسرے ارکان اسلام سے بھی منکر ہوجائیں گے اس طرح نہ صرف اسلام کا وقار خطرے میں پڑجائے گا بلکہ اسلام جو عالمگیر مذہب ہے محض تماشہ بن جائے گا۔ منکرین زکوٰۃ قبائل کے سرداروں نے اپنے وفود خلیفہ اول کی خدمت میں بھیجے کہ وہ نماز پڑھنے کیلئے تیار ہیں مگر ان سے زکوٰۃ جبراً وصول نہ کی جائے۔ جب آپ نے انکار کیا تو انہوں نے مل کر مدینہ منورہ پر حملہ کا ارادہ کیا۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے بھانپ لیا اور خود مقابلے کیلئے آئے، منکرین کو پسپائی ہوئی اور لوگوں نے زکوٰۃ دینی شروع کردی۔ اس طرح آپ نے اپنی فہم و فراست سے منکرین زکوٰۃ کے فتنہ کو کچل کر رکھ دیا۔ حضورﷺ کے وصال کے بعد مسلمان جس انتہائی نازک دور سے گزر رہے تھے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے بلند پایہ سیاست سے ان کو نکالا اور ایک مضبوط اور مستحکم پالیسی وضع کرکے اسلام کو انتشار سے بچالیا اور اپنی بصیرت اور استقلال سے بروقت کام لے کر تمام فتنوں اور سازشوں کا قلع قمع کردیا۔ مسلمانوں کی عظمت کا تمام طاقتوں پر رعب ڈال دیا اور اسلامی سلطنت کی وہ بنیادیں جو آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد دشمن عناصر کی فتنہ انگیزیوں کا شکار ہورہی تھیں ایک بار پھر استوار کردیں اور یہ خلیفہ اول کا اہم کارنامہ تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آغاز اسلام سے ہی رسول اللہﷺ کی پیروی کو اپنا شعار بنالیا جب بھی کوئی رکاوٹ پیدا ہوتی تو حضورﷺ کا وہ جملہ یاد آجاتا جب ابوطالب کی درخواست پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اس کام کو نہ چھوڑوں گا یہاں تک کہ دوسرے کو بھی اپنا ہمنوابنالوں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی اسی اصول کو اپنا شعار بنایا تھا۔ ۳۱ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے، اسلام کی حفاظت کیلئے جانشینی کا خیال آیا، اکابر صحابہ کو بلاکرمشورہ کیا اور ساتھ ہی حضرت عمرفاروقؓ کا نام تجویز کیا۔ صحابہ نے ان کی طبیعت میں سختی کا احساس دلایا، خلیفہ اول نے فرمایا خلافت کو بوجھ پڑنے سے وہ نرم ہوجائیں گے اور فرمایا کہ مسلمانوں کی بھلائی کیلئے حضرت عمر کا انتخاب بہتر ہے کیونکہ وہی اس منصب کیلئے موزوں شخصیت ہیں چنانچہ صحابہ نے آپ کی تجویز منظور کرلی۔ حضرت عثمان غنیؓ کو بلا کر وصیت نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے تھے کہ آپ نڈھال ہوگئے اور بولنے کی سکت نہ رہی، حضرت عثمان نے حضرت عمر کا نام لکھ دیا، جب طبیعت ذرا سنبھلی تو وصیت نامہ پڑھنے کیلئے کہا۔ حضرت عثمان نے حضرت عمر کا نام پڑھا تو بے اختیار فرمایا ”خدا تم کو جزائے خیر دے تم نے میرے دل کی بات لکھ دی“ تکمیل کے بعد صحابہ کو پڑھ کر سنایا۔ حضرت عمر جیسی شخصیت اسلام پر بہت عظیم احسان تھا، آپ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو بلا کر چند نصیحتیں فرمائیں۔ آپ کو شدید بخار ہوا اور پندرہ دن تک جار رہا۔ ۳۱ ہجری ۱۲ جمادی الثانی بروز دو شنبہ حضرت ابوبکر صدیق نے ۳۶ سال کی عمر میں رحلت فرمائی۔ تین کپڑوں میں کفنایاگیا۔ ان میں سے دو وہی پرانے کپڑے تھے جو ان کے استعمال میں تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضور اکرمﷺ کے پہلو میں حضرت عائشہؓ کے حجرے میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تعلیم انسانی کا زندہ نمونہ تھے اور اخلاق نبویﷺ کی مجسم تصویر تھے۔ آپ کی سیرت کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ نے سنت رسولﷺ کو زندہ رکھا۔ آپ صحابہ میں سب سے بڑھ کر شریعت اسلامی کے واقف تھے۔ علم الانساب کے ماہر تھے۔ آپ کو شعر و سخن سے ذوق تھا، زمانہ جاہلیت میں بھی شعر کہتے تھے، اسلام کے زرین اصولں کو اپنے سامنے رکھ کر آپ نے اپنے دور خلافت کا آغاز کیا اور جس پر آشوب دور میں عہد خلافت کا آغاز کیا۔ ان پر مختصر عرصہ میں قابو پالینا بلاشبہ آپ کے کردار کا ایک اہم پہلو ہے اور آپ نے حضورﷺ سے محبت، تقویٰ اور امانت و دیانت کی جومثال قائم کی وہ بلاشبہ مسلمانوں کیلئے نیکی کا ایک معیار ہے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے