داماد رسولﷺ، خلیفہ چہارم، فاتح خیبروخندق، امیرالمومنین، شیرخدا، امام الاولیاء حضرت علی رضی اللہ عنہ

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
داماد رسولﷺ، خلیفہ چہارم، فاتح خیبروخندق، امیرالمومنین، شیرخدا، امام الاولیاء حضرت علی رضی اللہ عنہ
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے پر نظر ڈالنا عبادت ہے۔ (ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فیصلہ کرنے میں ہمیشہ عدل فرماتے اور ایسا فیصلہ کرتے کہ فریقین مطمئن ہو جاتے۔
آپ رضی اللہ عنہ کا نام ”علی“ اور لقب ”حیدر“ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ”ابوالحسن“ اور ”ابوتراب“ ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام ابوطالب ہے اور والدہ ماجدہ کا نام حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ بنت اسد ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرمﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ پہلی ہاشمی خاتون تھیں جو دائرہ اسلام میں داخل ہوئیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرمﷺ کی پیدائش کے تیسویں سال پیدا ہوئے۔ یوں آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی کریمﷺ سے تیس برس چھوٹے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا نام ”علی“ حضورﷺ نے تجویز کیا۔ جس وقت حضور نبی کریمﷺ نے نبوت کا اعلان کیا اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک دس سال تھی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شان اور مرتبہ بے حد بلند ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ طریقت میں شانِ عظیم اور مقامِ ارفع کے مالک ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ اہل طریقت کے امام ہیں۔ اہل طریقت و شریعت آپ رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے ہیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے حضور نبی اکرمﷺ کے زیرسایہ رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرمﷺ کی سیرت اور اسوۂ حسنہ کا بہترین نمونہ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کی شان اور فضائل بے شمار ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرمﷺ کی سب سے لاڈلی صاحبزادی حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہ سے نکاح کا شرف بھی حاصل ہے۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے زیادہ علم کا جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے۔ حضور نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت نہ ہو۔ ایک اور موقع پر حضور نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دوستی کی اُس نے اللہ ربُ العزت سے دوستی کی اور جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دشمنی کی اُس نے اللہ سے دشمنی کی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت بیت اللہ شریف میں ہوئی۔ آپ رضی اللہ عنہ پہلے انسان تھے جن کے منہ میں حضورﷺ کا لعاب دہن گیا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا۔ جس وقت حضور نبی اکرمﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان قریش کی ایک دعوت میں کیا تو قریش کے تمام سرداروں نے آپﷺ کی دعوت کو جھٹلایا مگر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے کمسن اور کمزور ہونے کے باوجود اعلان کیا کہ ”یارسول اللہﷺ! بے شک میں عمر میں اس وقت چھوٹا ہوں، کمزور ہوں لیکن میں آپﷺ کی مدد کروں گا اور جو بھی آپﷺ سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی اس بات کے جواب میں حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے علی رضی اللہ عنہ! تو میرا بھائی اور وارث ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی کم سنی اور ان کی جسمانی کمزوری کا ابولہب نے مذاق اُڑانا شروع کردیا لیکن وہ بدبخت، حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی قوت روحانی کا ادراک کرنے سے قاصر تھا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریمﷺ سے کیے گئے وعدے کو پورا کیا اور ہر مشکل گھڑی میں آپﷺ کے قدم بہ قدم رہے اور مشرکین مکہ کے مظالم کو برداشت کرتے رہے۔ مسجد نبویﷺکی تعمیر میں بھی حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے شانہ بشانہ شامل رہے اوردیواروں کی چنائی کیلئے اینٹیں اُٹھا اُٹھا کر لاتے رہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہر غزوۂ میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ شامل ہوئے اور ہر جنگ میں شجاعت اور دلیری کا مظاہرہ کیا۔ غزوۂ خندق کے موقع پر عمرو بن عبدو جو جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اکیلا ۰۰۱ لوگوں کا مقابلہ کرسکتا ہے، خندق پارکرنے میں کامیاب ہوگیا۔ حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مشورے سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کو للکارا اور فرمایا! اے عبدوکے بیٹے! مجھے معلوم ہے کہ تو نے اعلان کررکھا ہے کہ اگر کوئی شخص تجھ سے دوباتوں کا مطالبہ کرے تو ایک بات تو ضرور مان لے گا؟ عمروبن عبدو نے جواب دیا، ہاں! میں نے اعلان کررکھا ہے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اسے اسلام کی دعوت دی کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لے آ۔ عمروبن عبدو نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بات سننے کے بعد کہا، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تو پھر دوسری بات یہ ہے کہ آ اور مجھ سے مقابلہ کر۔ عمروبن عبدو بولا: میرے تمھارے والد کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اس لیے میں نہیں چاہتا کہ تو میری تلوار کا نشانہ بنے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لیکن میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تو میری تلوار سے جہنم واصل ہو۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بات سن کر عمروبن عبدو غصے میں آگیا اور تلوار لہراتا ہوا آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور دوسرے ہی لمحے عمروبن عبدو کا سرتن سے جدا ہوگیا۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور اکرمﷺ نے لشکر اسلام کو حکم دیا کہ وہ قلعہ قموص کا محاصرہ کرلیں۔ لشکر اسلام نے قلعہ قموص کا محاصرہ کرنے کے بعد اس پر کئی حملے کیے لیکن فتح نصیب نہ ہوئی اور انہیں یہودیوں کی جانب سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حضورﷺ نے جب دیکھا کہ کئی روز کے محاصرے اور یکے بعد دیگرے حملوں کے باوجود قلعہ فتح نہیں ہورہا تو آپﷺ نے اعلان کیا کہ کل میں علم اس شخص کو عطا کروں گا جسے اللہ اور اس کا رسولﷺ محبت کرتے ہیں اور وہ بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرتا ہے۔ اللہ عزوجل اس شخص کے ہاتھوں قلعہ فتح فرمائے گا۔ حضورﷺ کا فرمان سن کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ علم اسے عطا ہو۔ اگلے روز جمعہ تھا، حضورﷺ نے جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے بعد دریافت کیا کہ علی رضی اللہ عنہ اس وقت کہاں ہیں؟ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جو کہ اُس وقت آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا تھے اور اسی وجہ سے جنگ میں عملی طور پر حصہ بھی نہ لے سکے تھے انہیں بلایا گیا۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا: علیؓ کیسے ہو؟ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ آنکھیں دکھتی ہیں اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: علیؓ میرے نزدیک آجاؤ۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ، حضورﷺ کے نزدیک آگئے۔ حضورﷺ نے اپنا لعابِ دہن نکالا اور اسے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں پر لگایا جس سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی تکلیف جاتی رہی اور ان کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے علم حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو عطا کرتے ہوئے ان کے حق میں دُعائے خیر فرمائی۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ حضورﷺ کے لعاب دہن لگانے کے بعد مجھے کبھی آنکھوں کی کوئی بیماری نہ ہوئی بلکہ میری آنکھیں پہلے سے زیادہ روشن ہوگئیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ لشکر اسلام کے ہمراہ قلعہ قموص کے دروازے پر پہنچے اور علم دروازے کے پاس گاڑ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ پھر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جسے اُنہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس دوران ایک یہودی نے قلعہ کی چھت سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں علی ابن ابوطالب رضی اللہ عنہ ہوں۔ اس یہودی نے جب آپ رضی اللہ عنہ کا نام سنا تو کانپ اٹھا اور کہنے لگا: توریت کی قسم! یہ شخص قلعہ فتح کیے بغیر ہرگز نہیں جائے گا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قلعہ قموص پر حملہ کیا تو یہودیوں کے سردار مرحب کا بھائی حارث کئی یہودیوں کے ہمراہ مقابلے کیلئے نکلا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا اور لشکر اسلام نے باقی کے تمام یہودیوں کو جہنم واصل کردیا۔ مرحب کو جب اپنے بھائی کے قتل کی خبر ہوئی تو وہ غیظ و غضب کے عالم میں ایک لشکر کے ہمراہ قلعہ قموص سے باہر نکلا اور باآوازِ بلند کہنے لگا: خیبر مجھے جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، سطح پوش ہوں، بہادر اور تجربہ کار ہوں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا: میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام شیر رکھا تھا اور میں دشمنوں کو نہایت تیزی سے قتل کرتا ہوں۔ مرحب نے جب حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا کلام سنا تو غصے میں اس نے تلوار کا وار کیا جسے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار سے روک لیا اور اس پر جوابی وار کیا اور ایک ہی وار سے اس کا سر قلم کردیا۔ مرحب کی لاش گرتے ہی لشکر اسلام نے یہودی لشکر پر حملہ کردیا جس سے بے شمار یہودی مارے گئے اور باقی جو بچ گئے وہ قلعہ کے اندر بھاگ گئے اور قلعہ کا دروازہ بند کرلیا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے قلعہ کا بھاری بھرکم دروازہ اکھاڑ پھینکا اور لشکر اسلام قلعہ قموص میں داخل ہوگیا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فتح کی خوشخبری لے کر حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے فرمایا: اے علی رضی اللہ عنہ! اللہ تجھ سے راضی ہے اور میں بھی تجھ سے راضی ہوں۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور نبی اکرم ﷺنے بیت اللہ شریف میں موجود تین سو ساٹھ بت توڑدئیے اور ہر بت توڑتے ہوئے یہ فرماتے جاتے کہ ”حق آگیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل مٹ ہی جانے والا ہے“۔ روایت میں آتا ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ جس بت کی جانب اشارہ فرماتے تھے وہ بت اوندھے منہ زمین پر گر جاتا تھا۔ جب تمام بت ٹوٹ گئے تو ایک بت جو کہ سب سے بلند جگہ نصب تھا اس کو توڑنے کیلئے حضور نبی کریمﷺ نے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضورﷺ کے کندھوں پر چڑھ کر اس بت کو توڑ دیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! آپﷺ میرے کندھوں پر چڑھ جائیں۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: اے علی رضی اللہ عنہ! کیا تم نبوت کا بوجھ اُٹھا لوگے؟ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی بات سن کر خاموش ہوگئے اور حضور نبی کریمﷺ کے کندھوں پر چڑھ کر اس بت کو توڑ دیا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سیرت انسانوں کیلئے ایک بہترین راہِ ہدایت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک باعمل انسان تھے۔ حوصلے اور جسمانی قوت میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اُنہوں نے اسلام کی جنگوں میں شجاعت اور دلیری سے حصہ لیا۔ اس کی وجہ سے انہیں اسلامی تاریخ میں بلند مقام حاصل ہے۔ رسول اکرمﷺ کی زندگی میں آپ نے نہ صرف شجاعت اور دلیری کے بے مثال مظاہرے کیے بلکہ یہ بھی ثابت کردیا کہ ایثار و جانثاری میں بھی آپؓ کا مقام بہت بلند تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جب نبی اکرمﷺ ہجرت کرنے لگے اور کفار نے حضورﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیا تو حضور نبی اکرمﷺ کے ارشاد گرامی پر حضورﷺ کے بستر پر بلاخوف و خطر لیٹ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات اعلیٰ ترین اخلاق و محاسن کی جامع تھی۔ فصاحت و بلاغت میں بھی آپ اپنی نظیر آپ تھے۔ ترک دنیا، زہدوعبادت، ریاضت و سخاوت اور حق کی رضا جوئی میں ہمیشہ سرشار رہے۔ آپؓ مقدمات کے فیصلے کرنے میں ہمیشہ عدل کرتے اور ایسا فیصلہ کرتے کہ فریق مطمئن ہوجاتے۔ آپؓ کی رائے ہمیشہ بہت اچھی ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ نے آپؓ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجنا چاہا تو آپؓ نے عرض کیا”میں ابھی بالکل جوان ہوں اور احکام قضا سے بھی مجھ کو بالکل واقفیت نہیں۔ مجھے ایک قوم کی طرف سے حاکم بنا کر بھیجنے کا فیصلہ آپ نے کیوں کر مناسب خیال کیا؟“۔ اس پر رسول اللہﷺ نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر دُعا فرمائی،”اے خدا تو اس دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو ثبات عطا فرما“۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس کے بعد کبھی انہیں مقدمات کا فیصلہ کرنے میں دقت نہیں ہوئی۔ یہ کامیابی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حصے میں تھی کہ قلعہ خیبر ایک ہی حملے میں آپؓ کے ہاتھوں فتح ہوا اور رسول اکرمﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ”میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ“۔ جنگ بدر میں آپؓ نے جانبازی اور دلیری کے جوجوہر دکھائے وہ تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ درخشاں رہیں گے۔ تمام عرب آپؓ کی شجاعت کا لوہا مانتا تھا لیکن آپؓ کا دور خلاف سازش اور خانہ جنگی میں گزرا۔ آخر میں ایک بدبخت ابن ملجم کے ہاتھوں آپؓ کی شہادت ہوئی۔ اس زمانے میں عرب میں عام روایت تھی کہ حضرت علیؓ کا جسم اطہر فولاد سے زیادہ مضبوط ہے اور تلوار ان پر اثر نہیں کرتی لیکن آپؓ جب نماز میں ہوتے تو آپؓ کا جسم موم کی طرح نرم ہوتاہے۔ ابن ملجم جیسے شقی ازلی نے غالباً اسی وجہ سے آپؓ پر اس وقت وار کرنے کی کوشش کی جب آپؓ نماز فجر میں مشغول تھے۔ اس تلوار سے پیشانی پر حملہ کیا اور تلوار دماغ میں اُتر گئی۔ قاتل گرفتار کرلیاگیا، حضرت علیؓ کو گھر پہنچادیاگیا۔ اس وقت آپؓ امیرالمومنین تھے، چنانچہ قاتل کو گھر پر طلب کیا گیا، جب وہ آیا تو کہا”اے دشمن خدا کیا میں نے تجھ پر احسان نہیں کیے تھے؟“ اس نے اثبات میں جواب دیا تو پوچھا ”تونے یہ حرکت کیوں کی؟“ کہنے لگا میں نے تلوار کو چالیس دن تک تیز کیا تھا اور خدا سے دُعا مانگی تھی کہ آپ کو مارنے میں کامیاب ہوجاؤں۔ حضرت علیؓ نے حضرت حسنؓ سے فرمایا کہ یہ قیدی ہے، اس کی خاطر تواضع کرو، اچھا کھانا، نرم بچھونا دو اگر میں زندہ رہا تو اپنے خون کا سب سے زیادہ دعویدار میں ہوں گا، قصاص لوں گا یا اسے معاف کردوں گا لیکن مر جاؤں تو اسے بھی میرے پیچھے روانہ کردینا۔ خدا کے حضور میں اس سے خود طلب کروں گا مگر اے ابی مطلب ”ایسا نہ ہو کہ تم مسلمانوں کی خونریزی شروع کردو اور کہو کہ امیرالمومنین قتل کر دئیے گئے۔ خبردار میرے قاتل کے سوا کوئی دوسرا شخص قتل نہ کیا جائے اگر اسے معاف کردو تو یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ دیکھو اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ شیر خدا، حیدرِ کرار، امام الاولیاء، امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ۱۲ رمضان المبارک کو اس جہان فانی سے کوچ فرمایا۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل دیا۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ رضی اللہ عنہ کو دارالامارت کوفہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے