تحریر: شیخ محمد انور 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
دنیا کی خوبصورت ترین چھت باپ ہے۔
باپ کی دولت نہیں بلکہ سایہ ہی کافی ہوتا ہے۔
اے قلم رُک جا۔۔۔۔ادب کا مقام ہے
تیری نوک کے نیچے میرے باپ کا نام ہے
میرے والد محترم میرے لیے آئیڈیل ہیں کیونکہ وہ ایک بہت قابل باپ تھے۔ اُن میں وہ ساری صلاحیتیں موجود تھیں جو ایک اچھے باپ کے پاس ہونی چاہییں۔ وہ نہ صرف میرے والد تھے بلکہ میرے بہترین دوست بھی تھے جو لمحہ بہ لمحہ ہر اچھی اور بُری چیز کے بارے میں میری رہنمائی کرتے رہتے تھے۔ میرے والد محترم کسی بھی کام سے کبھی ہار نہیں ماننے اور ہمیشہ آگے بڑھنے کی نصیحت کرکے مجھے حوصلہ دیتے تھے۔ اس کائنات میں کوئی بھی والد سے بہتر رہنما نہیں ہوسکتا۔ ہر بچہ اپنے والد سے وہ ساری خصوصیات سیکھتا ہے جو زندگی بھر کے حالات کے مطابق اسے ڈھالنے میں مفید ہوتی ہیں۔ ہمیں علم دینے کے لیے ان کے پاس ہمیشہ علم کا انمول ذخیرہ ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوسکتا۔ میرے والد محترم میں بے شمار خوبیاں تھیں جن میں سے ایک بہت ہی قابلِ ذکر خوبی ”صبر“ تھی۔ وہ ہمیشہ صبر کرتے اور کبھی اپنا غصہ نہیں دکھاتے تھے۔ ہر حالت میں اور انتہائی سنجیدہ معاملات کو بھی وہ پُرامن طریقے سے سلجھا دیا کرتے تھے۔ میں نے ہمیشہ اپنے والد محترم سے یہ سیکھا کہ چاہے جو کچھ بھی ہوجائے ہمیں کبھی اپنے آپے سے باہر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کبھی جھوٹ بولنا چاہیے کیونکہ اللہ ربُ العزت نے نہ شرابی پر، نہ جواری پر، نہ زانی پر، نہ قاتل پر اور نہ کفر، کسی پر لعنت نہیں بھیجی مگر جھوٹے پر لعنت بھیجی ہے۔ والد محترم ہر کام کو ہمیشہ روک تھام کے ساتھ ختم کردیتے تھے۔ وہ بغیر کسی وجہ کے معمولی معاملات پر بھی مجھ سے یا والدہ محترمہ سے کبھی ناراض نہیں ہوتے تھے۔ جب بھی مجھے کسی مشورے کی ضرورت ہوتی تو مجھے معلوم تھا کہ مجھے کس سے ملنا ہے اور کون میری بہترین رہنمائی کرسکتاہے، وہ میرے والد محترم ہی تھے جنہوں نے زندگی کے ہر میدان میں میری بہتر سے بہترین رہنمائی کی۔ والد محترم اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی جانتے تھے اور کبھی بھی ان ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمارے خاندان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ ہماری مالی ضروریات کو پورا کرنے سے لے کر جذباتی اُتار چڑھاؤ کا خیال رکھنے تک وہ ہمیشہ ہمارے لیے بہتر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میں نے اُن کے طرزِ عمل سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُنہوں نے مجھے سکھایا ہے کہ کس طرح ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور انہیں خوشی خوشی ادا کرنا چاہیے۔ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ اگر گھر کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لے تو گھر کا ماحول اور رشتہ خوشگوار ہوگا۔ اس کے برعکس جب لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کو بار بار یاد دلانے کی ضرورت پڑتی ہے اور پھر بھی وہ انہیں پوری نہیں کرتے تو ایسے خاندانوں میں بچوں کو سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ گھر والوں کے مابین اکثر تنازعات پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تناؤ کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ میں خوش قسمت انسان ہوں کہ ایسے خاندان میں آنکھ کھولی جہاں سب لوگ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کیلئے کافی پختہ ہیں اور مجھے بھی سب نے یہی سکھایا۔ میرے والد محترم نے ہمیشہ مجھے نظم و ضبط میں رہنے کا سبق دیا اور وہ خود بھی ہمیشہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے تھے۔ صبح سے رات تک ان کا پورا معمول نظم و ضبط کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ صبح سویرے ہی اُٹھ کر نماز تہجد اور نماز فجر ادا کرکے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے اور ہم سب بہن بھائیوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے اور قرآن مجید پڑھنے پر زور دیتے تھے اور پھر ناشتہ کرکے سائیکل پر دفتر چلے جاتے تھے اور وقت پر گھر واپس آجاتے تھے۔ میرے والد محترم مجھ سمیت سب بہن بھائیوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ہماری ضروریات کو بھی پورا کرتے تھے۔ کسی بھی قسم کی غلطی پر ہمیں ڈانٹنے اور غصہ کرنے کی بجائے وہ ہمیشہ محبت کے ساتھ ہمیں سمجھا دیا کرتے تھے اور غلطیوں کے نتائج کی وضاحت کرتے ہوئے ہمیں پھر سے ایسی غلطی نہ کرنے کا بھی درس دیتے تھے۔ میرے والد محترم کا بہت بڑا دل تھا۔ کئی بار تنگ حالات کے باوجود وہ اپنی ضروریات کو بھول جاتے تھے اور ہماری ضروریات اور بعض اوقات غیر ضروری خواہشات بھی پوری کردیتے تھے۔ والد صاحب کبھی بھی اپنی پریشانیوں کے بارے میں ہمیں نہیں بتاتے تھے بلکہ گھر کے لوگوں کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے تھے۔ ان تمام خصوصیات کی وجہ سے والد محترم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے اور والد کا دنیا کی کسی بھی چیز سے موازنہ نہیں کیاجاسکتا۔ والد اپنے بچوں کو خوشیاں دینے کیلئے اپنی خوشیوں کو بھول جاتے ہیں، وہ دن رات سخت محنت کرتے ہیں اور انہیں ہر وہ سہولت دینا چاہتے ہیں جو انہیں بھی کبھی نہیں ملی۔ ایک چھوٹی سی تنخواہ میں بھی والد بچوں کو اچھی تعلیم دینے کیلئے قرض میں ڈوب جاتے ہیں لیکن بچوں کے سامنے کبھی بھی کوئی پریشانی نہیں دکھاتے، شاید اسی لیے دنیا میں والدین سب سے اہم ہوتے ہیں۔ میرے والد محترم حاجی اختر حسین (مرحوم) 19 دسمبر 2012ء کو اس فانی جہاں سے لافانی جہاں کی طرف سوسال کی عمر پانے کے بعد رخصت ہوئے۔ والدین ہر انسان کو بہت عزیز ہوتے ہیں۔ شاید میں آج بھی والدِ محترم کے بارے میں یکسوئی کے ساتھ نہ لکھ سکوں۔ لکھنا چاہوں تو بھی نہ لکھ سکوں۔میرے پاس نہ تو ایسے الفاظ ہیں کہ جو ان کی صفات، ان کی ذات کا احاطہ کرپائیں یا ان کی جو ہم پانچ بہن بھائیوں بلکہ ہم سب گھر والوں سے محبت، الفت اور چاہت تھی اُس کو بیان کرپاؤں۔میرے والد محترم کوئی بہت تعلیم یافتہ تو نہیں تھے بلکہ بہت سادہ اور پکے مسلمان تھے لیکن پھر بھی میری نظر میں وہ بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد سے زیادہ ذہین، حکمت اور بصیرت والے انسان تھے۔ اُنہوں نے اپنی اولاد کے حوالے سے اپنا فریضہ بخوبی ادا کیا۔ یعنی اپنی اولاد کو حلال کھلایا اور اُن کی بہترین تربیت کی۔ میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہوں اس لیے والد صاحب کا لاڈلا بھی تھا۔اسی وجہ سے بچپن اور جوانی تک خوب شرارتیں کرتا رہا اور والد صاحب ہمیشہ نظرانداز کرتے رہے کیونکہ والدہ محترمہ 4 جنوری 1987ء کو وفات پاگئی تھیں اور والد صاحب نے ہمیں والدہ کا پیار بھی دیا۔ ہم نے اپنے والد صاحب کو ہمیشہ محبت اور خوشی بانٹتے ہوئے پایا، اُن کی زندگی کا ایک ہی مقصد خدمت خلق اور دین کی سربلندی کیلئے ہرممکن کوشش کرنا تھا۔ والد صاحب نے ہمیشہ ہم پانچ بہن بھائیوں کی ہرخواہش پوری کی، اچھی تعلیم دلوانے کیساتھ ساتھ ہم سب کی اچھی تربیت بھی کی، ہمیں اچھائی برائی کی پہچان سکھائی، مجھے یاد ہے کہ جب میں چھوٹا تھا تو رات کو جب بھی آنکھ کھلنی تو اپنے ابوجان کو مصلے کی پشت پر دیکھتا، نمازِ تہجد بہت باقاعدگی سے پڑھتے تھے اور اس وقت خوب زاروقطار روتے تھے، ساری زندگی ماسوائے وہ ایام جب آخری وقت میں وہ بیمار ہوئے،والد صاحب کو نماز تو دور کی بات کبھی تہجد بھی چھوڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اُنہوں نے برصغیر کو ٹوٹتے اور پاکستان کو بنتے ہوئے دیکھا، جب پاکستان بنا تو اُس وقت والد صاحب پاکستان بننے سے پہلے ریزروبینک آف انڈیا (موجودہ اسٹیٹ بینک) میں ملازم تھے۔ جب پاکستان بنا تو اُس وقت والد محترم کی عمر 30 برس تھی۔ وہ اکثر پاکستان بننے کے واقعات اور لازوال قربانیوں کی داستانیں سنایا کرتے تھے۔ اُن کے انگ انگ میں پاکستان سے محبت بھری پڑی تھی لیکن جب 1971ء میں مشرقی پاکستان ہم سب الگ ہوا تو وہ بہت افسردہ ہوئے۔ وہ پاکستان کے کلچر اور نوجوانوں کی بے راہ روی سے بے حد پریشان ہوتے کہ کیا پاکستان اس لیے بنایا تھا۔ اُس ادارے سے اُن کا سب سے بڑا بیٹا اکبر حسین بطور ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن گریڈ22 ریٹائر ہوئے، اُن سے چھوٹے بھائی محمد علی پی ٹی وی اسلام آباد سے ڈائریکٹر فنانس گریڈ22 ریٹائر ہوئے، اُن سے چھوٹے شرافت بھائی اسٹیٹ بینک سے گریڈ18میں گولڈن شیک ہینڈ لے کر ریٹائر ہوئے کیونکہ اُن کی ہیڈانجری ہوگئی تھی اور راقم الحروف مزدوروں کی دُنیا میں کام کرتاہے۔ میں نے زندگی میں کبھی بھی والدِ محترم کے چہرے پر مایوسی نہ دیکھی، ہر وقت اُن کو اللہ ربُ العزت کا شکرگزار پایا۔ خوش و خرم رہا کرتے تھے، والد صاحب کو سفر کرنے کا بہت شوق تھا، میرے دوست چوہدری منور حسین کھنہ ریٹائرڈ گروپ انسپکٹر، ذوالفقار علی ملک(گارڈ)، اقبال طاہر (گارڈ)، محمودالحسن(ٹرین مینیجر) والد صاحب کے بہترین دوست تھے۔ اُن کے ساتھ اکثر ٹرین میں سفر کرتے تھے بلکہ حافظ سلمان بٹ صاحب کہا کرتے تھے کہ شیخ صاحب! حاجی صاحب کیلئے ایک گارڈ بھرتی کرواؤ جوکہ والد صاحب کو خوب سیرکروایا کرے۔ والد صاحب بہت ہی ہنس مُکھ اور شفیق انسان تھے، میرے دوستوں کے ساتھ بھی اُن کی بہت گہری دوستی تھی۔ بالخصوص خالد محمود چوہدری(فیصل آباد)، خالد چشتی(پاکپتن)، محمد انور بھٹی، چوہدری عبدالغفور اور محمد مختار سے بھی بہت گہری دوستی تھی اور یہ سب والد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر حقہ پیا کرتے تھے۔ ہماری طرح ہمارے دوست بھی والد صاحب کو بہت یاد کرتے ہیں۔ والد محترم نے حج بیت اللہ کا پہلا سفر 1974ء میں والدہ صاحبہ کے ہمراہ شمس بحری جہاز کے ذریعے کیا، دوسرا حج مبارک کا سفر1987ء میں کیا، تیسرا حج کا سفر 1993 میں کیا اور الحمدللہ کئی مرتبہ عمرے کا سفر بھی کیا۔ مجھے یاد ہے کہ 1991ء میں جب میں پہلی مرتبہ عمرے کے سفر پر جارہا تھا تو میں نے والد صاحب سے پوچھا کہ ابا جی مجھے کوئی خاص دُعا بتائیں جو میں بیت اللہ کو دیکھ کر پہلی دُعا مانگوں۔ والد صاحب نے کہا کہ بیٹا جب میں نے پہلی مرتبہ بیت اللہ کو دیکھا تو پہلی دُعایہ مانگی تھی کہ اے اللہ میری اولاد کو میری زندگی میں حج بیت اللہ کا سفر نصیب فرما۔ الحمدللہ والد صاحب کی زندگی میں ہم پانچوں بہن بھائیوں اور اُن کی اولاد کو بھی اللہ کا گھر اور نبی ﷺ کا در متعدد بار دیکھنا نصیب ہوا۔
بے شمار پتھروں میں سے چند ایک قیمتی ہوتے ہیں اسی طرح خونی رشتوں میں والد کا رشتہ منفرد ہوتا ہے۔ والد کا ہونا ایک ایسا احساس ہے جو آپ کو زندگی کے ہرمیدان میں سرخروح کرواتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ والدین کاکوئی نعم البدل نہیں ہے۔ان کاوجود ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند ہوتا ہے جس کے سائے تلے انسان اپنی ساری عمر گزاردیتا ہے اور اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وقت کیسے گزر گیا۔والدین کی دعائیں ہرلمحہ اس کے ساتھ ہوتی ہیں اور ان گنت آزمائشوں کوٹالنے کاسبب بن جاتی ہیں۔والد کا ہونا ایک ایسا احساس ہے جو ڈر اور خوف میں تحفظ اور ڈھال کا کام دیتا ہے، جیسے صحراء میں سایہ ہوتا ہے، جیسے شفاف اور میٹھا چشمہ ہوتا ہے ویسے ہی باپ کا رشتہ ہوتا ہے۔ جیسے پھولوں میں گلاب ہوتا ہے، جیسے انگوٹھی میں نگینہ ہوتا ہے ویسے ہی باپ کا رشتہ ہوتا ہے۔ زندگی صحرا ہے، کھارا چشمہ ہے، مرجھایا ہوا پھول ہے، سچ تو یہ ہے کہ والدین کے بغیر یہ دنیا ایک قبرستان کی مانند ہے۔ ماں باپ بہت انمول ہیں۔ حکم خدا ہے کہ ان کو اُف تک نہ کہو۔ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ اُنہوں نے مجھے بچپن میں محبت اور شفقت سے پالا تھا۔ قرآن پاک میں اللہ ربُ العزت نے پانچ مرتبہ اللہ کے حق کے بعد والدین کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ اللہ ربُ العزت نے فرمایا کہ اُس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ شکر ادا کرو میرا بھی اور والدین کا بھی، اگر تمہارے پاس والدین میں سے کوئی بھی بڑھاپے کی عمر تک پہنچ گیا ہے تو کبھی اُن کا دل نہ دُکھانا اور کبھی اُنہیں اُف تک نہ کہنا، کبھی چھاتی چوڑی کرکے اُن کے ساتھ بات نہ کرنا۔ کندھے جھکا کر بات کرنا، ادب سے گفتگو کرنا، انسان جب دنیا میں آتا ہے تو بہت سے رشتے اس کے آس پاس ہوتے ہیں اور وہ سب رشتے وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتے ہیں لیکن ایک رشتہ جو مرتے دم تک انسان کے ساتھ رہتا ہے وہ رشتہ ماں باپ کا ہوتا ہے۔ باپ کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ باپ شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔ باپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کو سوچتے ہی ایک محبت، ٹھنڈک، پیار اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔ اس کا سایہ ہمارے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی مانند ہوتا ہے۔ شدید دھوپ میں اس کا دستِ شفقت شجرِ سایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بدقسمت وہ ہے جو ماں باپ کی قدر نہ کرسکا۔ ماں باپ کی قدر تو اُن سے پوچھیں جن کی قسمت میں ماں باپ کی محبت اور شفقت بھری چھاؤں نہیں ہے۔ میں اگر والدین پر ساری زندگی بھی لکھوں تو یہ زندگی کم پڑجائے۔ باپ کی موجودگی سورج کی مانند ہوتی ہے،سورج گرم تو ضرور ہوتا ہے لیکن اگر سورج موجود نہ ہوتو اندھیرا چھاجاتا ہے، باپ کا احترام کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارا احترام کرے۔ باپ کی عزت کرو تاکہ اس سے فیض یاب ہوسکو۔ باپ کی باتیں غور سے سنوتاکہ دنیا والوں کی نہ سننی پڑیں۔ باپ کے سامنے سرجھکا کر رکھا کرو تاکہ اللہ تم کو دنیا میں بلند کردے۔ باپ کا سخت انداز اور ماں کا دھیمالہجہ ہمارے معاشرے میں گھر کے ماحول کو معتدل اور متوازن رکھتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی نعمت ماں باپ ہیں، اگر باپ نہ ہوتو زندگی کی دوڑ میں اچھا مشورہ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ماں کی خدمت سے جنت تو مل جاتی ہے لیکن دروازہ اُس وقت کھلتا ہے جب باپ کی عزت کی جائے۔ مفت میں صرف ماں باپ کا پیار ملتا ہے اُس کے بعد دنیا کے ہر رشتے کیلئے کچھ نہ کچھ چکانا پڑتا ہے۔ والدِ محترم کی برسی کے موقع پر میں اُن لوگوں کو جن کے والدین حیات ہیں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ والدین ہماری زندگی میں وہ عظیم الشان ہستی ہیں جن کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگایاجاسکتا۔والدین کی قدر اُن سے پوچھیں جن کے والدین اس دنیا میں نہیں ہیں اور اُن کو اپنے والدین سے ملنے قبرستان جانا پڑتاہے۔ مجھے بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ آج ہمارے معاشرے میں والدین کو وہ عزت اور مقام نہیں مل رہا جس کے وہ حقدار ہیں اور اسی وجہ سے آج معاشرہ دن بدن زبوں حالی کا شکار ہوچکاہے۔ والدین اپنی اولاد کی تربیت کیلئے بڑی سے بڑی تکلیف اُٹھانے کیلئے بھی رضامند ہوجاتے ہیں لیکن آج کی نافرمان اولاد اپنے والدین کو بوجھ سمجھتی ہے، انہیں ایسی ایسی تکلیفیں دیتی ہے کہ وہ وقت سے پہلے ہی بستر پکڑلیتے ہیں۔ ماں باپ کا جتنا زیادہ مقام ہے اولاد انہیں اتنا ہی زیادہ ستاتی ہے اور اپنے لیے جہنم کا راستہ بناتی ہے۔ والدین کے احسانوں کا بدلہ کوئی پورا نہیں کرسکتا لیکن ان کی خدمت کرکے ان کے دل کو خوش رکھ کر انسان کچھ حق تو ادا کرہی سکتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دُعا گو ہوں کہ اللہ ربُ العزت اُنکا ساتھ انبیاء، صدیقین اور مقربین کیساتھ نصیب فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کے باغوں میں تبدیل فرمائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے،تمام گناہوں، خطاؤں اور کوتاہیوں سے درگذرفرمائے،تمام بھلائیوں،نیکیوں اور حسنات کو قبول فرمائے، اپنے سایہ رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ اے اللہ جن کے والدین اس دنیا سے رخصت فرما گئے ہیں اُن سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور ہمیں اپنے والدین کیلئے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرما۔ آمین۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب