تحریر: شیخ محمد انور 2022ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
ریلوے کی لاوارث اور بے زبان کیٹگری: پٹرولر
ریلوے کے سینکڑوں پٹرولز کا مستقبل تاریک کرنے کی خوفناک سازش
ریل کاپ: ریلوے سے ریٹائر افسران کی پناہ گاہ
سابق وفاقی وزیرریلوے اعظم سواتی کے کالے قانون کو ریلوے سے ختم کیاجائے۔ اُن کے غیر قانونی احکامات واپس کیے جائیں۔
پاکستان ریلوے کا قیام برٹش دورِ حکومت میں اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہوا اور ریلوے کی پہلی ٹرین کراچی سٹی اور کوٹری سٹی کے درمیان 13 مئی 1861ء کو عوام کیلئے کھولی گئی۔ پاکستان ریلوے قومی، دفاعی اور فلاحی ادارہ ہے۔ اس ادارے سے اس ملک کا دفاع بھی منسلک ہے اور اس ادارے کے ذریعے ہی عام حالات اور جنگ کے دوران اسلحے کی نقل و حرکت ریلوے کی ٹرینوں کے ذریعے ہی ممکن ہوتی ہے۔ بلا شبہ پاکستان ریلوے سب سے سستا، محفوظ، آرام دہ اور پولیوشن سے پاک ذریعہ ہے۔ پاکستان ریلوے ملکی معیشت اور دفاع میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ درحقیقت پاکستان ریلوے چاروں صوبوں کی زنجیر ہے۔ جب پاکستان ریلوے بنی تو اس کا مقابلہ بیل گاڑی سے تھا مگر آج اس کا مقابلہ جہاز، ڈائیوو بس کے ساتھ ہے۔ پاکستان ریلوے کی دیکھ بھال کیلئے مختلف شعبے بھی متعارف ہوئے جن کی مدد سے ٹرین آپریشن آسانی سے چل رہا ہے۔ جس میں ٹریفک، انجینئرنگ، سگنیلنگ، مکینیکل اور دیگر بے شمار شعبے شامل ہیں۔ٹرین آپریشن ان تمام شعبہ جات کی مدد سے چلتا ہے اور ٹرین پورے پاکستان میں چلتی ہے اور ہزاروں مسافروں کو اُن کی منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے۔ جو ٹرین کراچی، پشاور، کوئٹہ اور سکھر سے چلتی ہے اس ٹرین میں آپ کو چاروں صوبوں کی ثقافت نظر آتی ہے۔ اس میں پختون، بلوچی، پنجابی، سندھی اکٹھے سفر کررہے ہوتے ہیں۔ یہ پاکستان کے اتفاق بھائی چارے اور قومی یکجہتی کی مثال ہے۔ یہ ٹرین منی پاکستان کی تصویر پیش کرتی ہے۔ جہاں یہ سب شعبے ٹرین کی آمدورفت میں مددگار ثابت ہوتے ہیں وہیں ایک بہت ہی اہم اور کارآمد شعبہ ”پٹرولنگ“ کا بھی ہے جو کہ ٹرین کی آمدورفت کیلئے انتہائی ضروری اور کارآمد ہے لیکن بدقسمتی کہ اس شعبے کو ہمیشہ نظرانداز کیاجاتا رہا اور پٹرولرز کا کوئی بھی والی وارث نہ بنا۔ پٹرولر ایک طرح سے ٹریک کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ وہ لاوارث شعبہ ہے جو ریلوے ٹریک کو کسی ہتھیار اور تحفظ کے بغیر سکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی سیفٹی آلہ موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مرتبہ یہ پٹرولر ڈیوٹی کرتے ہوئے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کرچکے ہیں۔ آئے دن یہ پٹرولر دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر 10نومبر 2014ء کو جیکب آباد ریلوے اسٹیشن کے قریب محمد حسین لشاری اور محمد سفیل بروہی جوکہ رات کو پٹرولنگ کررہے تھے۔ جب اُنہوں نے دہشتگردوں کو رات کے وقت ٹریک پر دیکھا تو وہ ڈنڈوں سمیت اُن کی طرف بھاگے، اُن دہشتگردوں نے اِن پٹرولرز کے منہ پر برسٹ مارے اور وہ دونوں پٹرولرز موقع پر شہید ہوگئے۔ بدقسمتی کہ ریلوے انتظامیہ ان پٹرولرز کو مستقل کرنے کی بجائے ان کو نوکریوں سے ہی فارغ کردیا۔ ایک تو انہوں نے ریلوے کی خاطر جان دے دی، اس کے بدلے اُن کے بیوی بچوں کو کیاملا؟ وہ آج بھی ریل کے ٹریک پر اپنے باپ کے قاتلوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔
لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال آپ دیکھ لیں کہ ملک بھر میں دہشتگردی کے واقعات ہورہے ہیں۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں دہشتگرد حملہ کرتے ہیں اور پولیس کے جوان شہید ہوتے ہیں۔ آئے دن بلوچستان اور صوبہ سرحد میں ہماری سرحدوں کے محافظوں پر دہشتگرد حملہ آور ہوتے ہیں جس میں ہمارے فوجی جوان اور افسران شہید ہوجاتے ہیں۔ لاہور کے انارکلی بازار میں دو ماہ قبل بم دھماکہ ہوتا ہے جس میں کافی لوگ شہید ہوجاتے ہیں۔ ملک بھر میں دہشتگردی میں اضافہ ہورہا ہے مگر ہم نے انا اور ضد کی بھینٹ ریلوے ٹریک کو دہشتگردوں کے حوالے کردیاہے۔ گزشتہ روز بھی پاک فوج کے 6جوان کے پی کے میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔
مورخہ 10-09-2021کو چیف انجینئر اوپن لائن کی طرف سے ایک لیٹر جاری ہوا کہ ریلوے پٹرولرز کو ریل کاپ کے حوالے کردیا جائے۔ جس پر پریم یونین نے احتجاج کیا، ہمارا موقف ہے کہ ریل کاپ کوئی سکیورٹی ایجنسی نہیں ہے، پھر یہ کام ان کے سپرد کیوں کیا جارہا ہے۔ مورخہ 13-11-2021 کو ڈی ایس سکھر نے چیف انجینئر اوپن لائن کو لیٹر لکھا کہ پٹرولرز کو ختم نہ کیا جائے ورنہ ٹنڈوآدم سے خانپور اور خانپور سے سبی تک سیکشن انتہائی حساس ہے کوئی بھی حادثہ ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود چیف انجینئر اوپن لائن نے وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی کی خوشنودی کیلئے رات کے اندھیرے میں 25-11-2021 کو نوٹیفیکیشن کے ذریعے پٹرولرز کو ختم کردیا۔
26 نومبر2021ء کو نواب شاہ کے قریب ریلوے ٹرین عوام ایکسپریس کو بم دھماکے سے اُڑانے کی کوشش ہورہی تھی کہ پولیس نے دہشتگردوں کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا۔ گزشتہ دنوں مشکاف اور سبی ریلوے اسٹیشن کے درمیان جعفرایکسپریس کو بم سے اُڑانے کی کوشش کی گئی جسکی وجہ سے دو کوچیں اور انجن اُلٹ گئے۔
چند روز قبل کوٹری اور اگلے ہی روز حیدرآباد میں ریلوے ٹریک کو بم سے اُڑادیاگیا جبکہ گزشتہ روز کوٹری ریلوے اسٹیشن کے قریب دوبارہ ریلوے لائن کو بم سے اُڑا دیاگیا اور اسی طرح سیالکوٹ میں بھی تین افراد کو ٹریک کی فش پلیٹیں کھولتے ہوئے گرفتار کیاگیا۔
گرمی، سردی، آندھی، طوفان اور بارش ہر قسم کے موسم میں یہ پٹرولر دن رات اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے تھے مگر پھر بھی ان کو ناکارہ سمجھا جاتا رہا اور دُدھکارا جاتا رہا۔ پٹرولر دراصل پاکستان ریلوے ٹریک کی سکیورٹی کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ جس کی بنیادی ذمہ داری ہر ڈویژن کے متعلقہ افسران کی ہوتی ہے جس میں پی ڈبلیو آئی، اے ای این اور ڈی ای این صاحبان شامل ہوتے ہیں۔ جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ پٹرولر اپنی ڈیوٹی کرتا رہے اور اگر اُسے کوئی ایسی چیز ملے یا نظر آئے جس سے ٹرین حادثہ کا امکان ہو تو قانون کے مطابق ٹرین کی حفاظت اور روکنے کا اہتمام کرتا ہے اور پھر اپنے متعلقہ افسران کو اطلاع کرتا ہے جس کی وجہ سے کئی مرتبہ ٹریک پر لگے ہوئے بم پکڑے گئے اور ٹرین کو خوفناک حادثوں سے بچانے میں کارآمد ثابت ہوتے ہیں، صرف اس خوف کی وجہ سے ان پٹرولرز کو نظر انداز کرنا کہ کہیں ان پٹرولنگ کرنے والوں کو مستقل نہ کرنا پڑے ریلوے انتظامیہ اس کیٹگری کو یکسر نظرانداز بھی کررہی ہے اور اس شعبے کو ختم بھی کردینا چاہتی ہے اور یہ ذمہ داری ایک پرائیویٹ کمپنی ریل کاپ کو دینا چاہتی تھی۔ ایسے لوگ جوبغیر کسی ہتھیار کے ریلوے ٹریک کی دن رات حفاظت کرتے ہوں اُن کو مستقل نہ کرنا اور اس کیٹگری کا خاتمہ کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ دوسری طرف ریل کاپ جوکہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے، جوکہ سول انجینئرنگ ورکس کے کام کرنا، کنسٹرکشن کے کام کرنا اور ریلوے ٹریک کی کنسٹرکشن کرنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ ریل کاپ نہ تو کوئی سکیورٹی ایجنسی ہے جس کے پاس ٹرین سٹاف ہو ٹریک کی حفاظت کیلئے اور نہ ہی یہ کام ریل کاپ کے بزنس رولز میں شامل ہے، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ بارڈر کی سکیورٹی جوکہ ہماری رینجرز کی ذمہ داری ہے اُن کو ہٹاکر کسی پرائیویٹ کمپنی کو دے دی جائے جو کنسٹرکشن کا کام کرتی ہو یا پھر کوئی اور کام کرتی ہو۔ ریاست کی جو بنیادی ذمہ داری ہے وہ ریاست کو ہی کرنی ہے۔ جو کام ریلوے کو ریل کاپ کے حوالے کرنے چاہییں اور جن کیلئے ریل کاپ بنائی گئی تھی جیسے ٹریک کی تعمیر، ری ہیبلیٹیشن یا سالانہ مرمت کا کام۔ مگر دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ریلوے نے یہ کام تو ریل کا پ کو نہ دیا اور ایسے کام اُن کے حوالے کررہے ہیں جس میں نہ تو اُن کا تجربہ ہے اور نہ ہی اُن کے پاس سکیورٹی کا لائسنس ہے اور نہ ہی وہ یہ کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ یہ کام کرنے کے مزاج ہیں۔ ریلوے انتظامیہ کے اس قسم کے غیردانشمندانہ فیصلہ ریلوے کو مزید تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ ریلوے انتظامیہ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑوا کر یہ کام ریل کاپ کو تھوپنا چاہتی ہے۔ دراصل ریلوے انتظامیہ ان پٹرولر صاحبان کو جوکہ کئی سالوں سے اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے تھے، ان کو مستقل نہیں کرنا چاہتی۔اگر پچھلے 20سالوں میں ریل کاپ کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ وہ ادارہ ہے جس نے اپنے ٹریک، تعمیر و مرمت کی مشینری جو سعودی عرب میں ٹریک ڈالنے کیلئے استعمال کی تھی وہ مشینری سعودی عرب میں ٹھیکیداروں کو فروخت کرکے پاکستان واپس آگئے ہیں۔ ریل کاپ کی اپنی ملکیت اُن کا اپنا ایک آفس جوکہ اسلام آباد میریٹ ہوٹل کے قریب ایک بہت قیمتی جگہ پر موجود تھا وہ بھی بیچ کھایا۔ ان پچھلے 20 سالوں میں ریل کاپ نے اپنے بزنس کے رولز کے مطابق ٹریک کی تعمیر اور مرمت کا کوئی بھی کام نہ کیا۔حقیقت میں اس ادارے کو ریلوے کے کرتادھرتا افسران نے جن میں سابق وزراء اور سابق چیئرمین لیول کے لوگ شامل ہیں ریٹائرمنٹ کے بعد افسروں کو پناہ دینے کا ایک ادارہ بنادیا ہے جس کو ہم اولڈ ہوم فار ریٹائرریلوے افسر بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے تمام افسر جنہوں نے ریلوے کی سروس میں کوئی قابلِ ذکر کارکردگی نہ دکھائی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کو ریل کاپ کے سرچڑھادیاگیا اور نتیجتاً ریل کاپ بھی تباہی کے دھانے پر پہنچ گیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو پٹرولر پچھلے کئی سالوں سے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دے رہے تھے جن میں سے کئی مرتبہ ان غریبوں نے شہادتیں بھی حاصل کی ہیں بجائے یہ کہ اُن کو کوئی اعزاز دیا جاتا صرف اُن کو مستقل نہ کرنے کی وجہ سے اُن سے جان چھڑانے کیلئے اور اُن کو بیروزگارکرنے کیلئے یہ ڈرامہ رچایاجارہاہے جس کی پریم یونین بھرپور مذمت کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ان بے آسرا پٹرولرز کے حال پر رحم کیا جائے اور ان سینکڑوں پٹرولرز کو بحال کرکے مستقل کیا جائے اور اس شعبہ(ریل کاپ) کو ختم کرکے ریل کو مزید تباہی سے بچایا جائے اور سابق وزارت ریلوے جنہوں نے یہ غیر قانونی اقدامات کیے اُن کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور اس تمام معاملے کی سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان سے انکوائری کروائی جائے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب