تحریر: شیخ محمد انور (ریلویز) 2022ء
فون نمبر: 0333-2250719
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
سقوطِ ڈھاکا …… جب پاکستان کے دو ٹکڑے کردئیے گئے۔
سقوطِ ڈھاکا کو ہمارے نصابی کتب کا حصہ بنایاجائے تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔
مسلم دنیا کی تاریخ کے تین بڑے سانحے ہیں: سقوطِ بغداد، سقوطِ دِلّی اور سقوطِ ڈھاکا۔ ان سانحات میں سقوطِ ڈھاکا سب سے بڑا سانحہ ہے اور اس کی چار وجوہات ہیں۔
1۔ سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ایک ملک ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔
2۔ 90 ہزار فوجیوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔
3۔ ملک کی آبادی کے ایک حصے نے ملک کے خلاف بغاوت کی۔
4۔ سقوطِ ڈھاکا کو بھلا دیا گیا اور اس واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔
پاکستان کوئی ایسا ملک نہیں تھا جو تاریخ کے صفحات پر عرصے سے موجود ہو۔ پاکستان ایک تاریخی تجربہ تھا اور اس تاریخی تجربے کے عظیم الشان ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں کا مقابلہ دو بڑی طاقتوں سے تھا۔ ایک طرف اُس وقت کے سپر پاور انگریز تھے اور دوسری طرف ہندو تھے جوکہ برصغیر کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس مسلمان بکھرے ہوئے تھے۔ ان کو ایک عظیم لیڈر کی ضرورت تھی جو ان کو اکٹھا کرتا اور ان کی رہنمائی کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوؤں اور انگریزوں دونوں طاقتوں کا مقابلہ کیا اور پاکستان کے عظیم الشان تجربہ ہونے کا یہ ثبوت تھا کہ پاکستانی قومیت کی معروف تعریف یا کسی اور رائج الوقت نظریے کی بنیاد پر وجود میں نہیں آیا۔ مسلمانوں نے نہ تو انگریزوں کے ساتھ سازباز کی اور نہ ہی ہندوؤں کے ساتھ کوئی سودے بازی کی۔ بلکہ یہ اسلام کی ہی طاقت تھی اور اللہ ربُ العزت کا احسانِ عظیم تھا جس کے ذریعے پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ ہمیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اسلام صرف ایک نظریہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم الشان تہذیب کا علم بردار ہے۔
تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے ماضی سے کبھی سبق نہیں سیکھا اور نہ حقائق کا کھلے دل سے ادراک کیا ہے۔ پاکستان 75 برس کا ہوچکا ہے۔ اس کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی معجزے سے کم نہیں کہ آج بھی خون آلودہ اور ادھورے جسم کے ساتھ کھڑا ہے۔دشمنوں کی سازشوں اور اپنوں کی کوتاہیوں کی بدولت 51 برس قبل سقوطِ ڈھاکا رونما ہوا۔ غیروں کی ریشہ دوانیوں کا تو کیا کہنا اپنوں کی بے بصیرتی اور ناانصافی بھی ساری حدیں پار کرچکی تھی۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ وہ بنگال جس نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور لازوال قربانیاں بھی دیں وہ یکایک صرف چوبیس سالوں میں مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش کیوں بن گیا؟
سقوطِ ڈھاکا کی وجہ سے پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی نظام کے ساتھ ساتھ سماجی ڈھانچہ بھی ہل کر رہ گیا تھا۔ رشتے کہیں دور رہ گئے اور خوف کے سائے طویل تر ہوتے چلے گئے۔ پاکستان توڑ دیا گیا مگر اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران طبقے نے اس سانحے کو پاکستانی قوم کے شعور میں رجسٹر ہی نہ ہونے دیا۔ چنانچہ مشرقی پاکستان کے سانحے سے پاکستانی قوم میں وہ احساسِ زیاں پیدا ہی نہ ہوسکا جوقوموں کو بدلتا ہے اور مستقبل میں سانحات سے بچنے کیلئے تیار کرتا ہے۔
انسانی تاریخ میں پاکستان جیسی ”تاریخی“ ریاست موجود نہیں ہے۔پاکستان ایک ”نظریے“ کی بنیاد پر قائم ہوا اور یہ ایک تاریخی بات ہے، پاکستان وقت کی سپرپاور اور اکثریت سے لڑکر حاصل کیا گیا، یہ بھی ایک تاریخی بات ہے۔ تحریکِ پاکستان صرف سات سال کے عرصے میں کامیاب ہوگئی اور یہ بھی ایک تاریخی بات ہے۔ پاکستان اپنے قیام کے صرف 24 سال بعد دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے یہ بھی ایک تاریخی بات ہے۔ عام طور پر اقلیتیں اکثریت سے الگ ہوتی ہیں مگر 1971ء میں ایک اکثریت اقلیت سے الگ ہوئی، یہ بھی ایک تاریخی بات ہے۔
بنگلہ دیش بننے کے بعد سہہ فریقی ممالک کے درمیان معاہدہ طے ہوا تھا جس میں بنگلہ دیش کی جانب سے شیخ مجیب الرحمن، بھارت کی طرف سے اندرا گاندھی اور پاکستان کی نمائندگی ذوالفقار علی بھٹو نے کی تھی اور یہ طے ہوا تھا کہ بنگلہ دیش بننے کے وقت جن لوگوں نے پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا اُن کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کاروائی نہیں کی جائے گی مگر جب 2012ء میں حسینہ واجد کی حکومت آئی تو وہ معاہدے سے مکرگئی اور اُس نے بنگلہ دیش کے سابق اراکین قومی اسمبلی عبدالقادر مُلا، احسن مجاہد، مطیع اللہ، چوہدری صلاح الدین قادر اور پروفیسر غلام اعظم کو جنگی جرائم میں گرفتار کرلیا۔ عبدالقادر مُلا، احسن مجاہد، مطیع اللہ اور چوہدری صلاح الدین قادر کو پھانسی پر لٹکادیاگیا جبکہ پروفیسر غلام اعظم 92سال کی عمر میں جیل میں وفات پاگئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پھانسی کے پھندے پرجاتے وقت بھی اُنہوں نے پاکستان زندہ آباد کے نعرے لگائے اور یہ وصیت کی کہ ہمارے کفن پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر ہمیں دفن کیا جائے اور کسی ایک نے بنگلہ دیش کے وزیر اعظم سے زندگی کی بھیک نہیں مانگی اور ہزاروں لوگ ابھی تک جیلوں میں پڑے ہیں۔
16 دسمبرکوسقوطِ ڈھاکا ایک ایسا واقعہ ہے جب ہمارے ازلی دشمنوں امریکہ، بھارت اور اسرائیل کی مکروہ سازشوں نے وطنِ عزیز کو دولخت کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی بہادر قوم اور سپاہ نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کا اندازہ ہمیں اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ 1971ء کی جنگ میں افواجِ پاکستان نے 1965 ء کی نسبت تین گنا زیادہ نشانِ حیدر حاصل کیے لیکن اس شکست کی بڑی وجہ ملک پر اُس وقت کے حکمرانوں کی نااہلی تھی جو شیطانی اتحادِ ثلاثہ کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر پاکستان کے ٹوٹنے کی فکر سے بے نیاز شراب و شباب کی محفلوں میں غرق تھے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس ملک کے حکمران اس طرح کی لغویات میں ملوث ہوں وہ ملک کبھی فتح سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ 16دسمبرکا دن پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن ہے جب 1971ء میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کو ایک بین الاقوامی سازش کے تحت دولخت کردیاگیا اور ہم تاریخی حقائق کو جانتے ہوئے بھی شخصیات اور اداروں پر الزامات عائد کرتے رہے ہیں اور اُس عظیم المیے سے سبق حاصل کرکے اپنا قبلہ درست کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آج کا پاکستان ہی وہ حقیقی پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا جس کی تشریح چوہدری رحمت علی نے کی اور جس کو حقیقت کا روپ برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کرکے قائد اعظم کی قیادت میں دیا۔ 1965ء کی جنگ ستمبر میں پاکستان کی عوام کے مثالی اتحاد و جذبہ حب الوطنی اور پاکستان کی مسلح افواج کی بہادری نے ملک دشمنوں کو ایک بار پھر جمع کیا اور یہودی سامراج کو فکر لاحق ہوئی کہ 10 کروڑ مسلمانوں کا یہ جذبہ حب الوطنی اور مسلح افواج کے تقدس کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت مستقبل میں ہمارے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ اس لیے اُنہوں نے طرح طرح کی سازشیں کرنی شروع کردیں کہ پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت نہیں رہنا چاہیے، ان کی مسلح فوج کا تقدس برقرار نہیں رہنا چاہیے اس لیے ملک کو توڑ دیا جائے۔ پاکستان کے مشرقی صوبے میں غربت کی وجہ سے جو احساس محرومی پیدا ہوئی ہے اُسے مزید ہوا دی جائے۔ ایک ہزار سال تک ہندوستان میں مسلمانوں نے پورے جاہ و جلال اور شان و شوکت سے حکومت کی۔ آج کے دن مسلمان قوم پر ایک قیامت برپاہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان کو سازش کے ذریعے مغربی پاکستان سے جدا کردیاگیاتھا۔ ہرشخص جانتا ہے کہ بھارت نے آج تک پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔ بھارت ہمیشہ اس طاق میں رہتا تھا کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کو بنیادی طور پر کمزور کردیاجائے۔ مشرقی پاکستان والوں پر بلاشبہ حکمران طبقہ نے بعض زیادتیاں کیں مگر بھارت نے انہیں اپنے حقیقی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا اور رات کی تاریکی میں ایک خون ریز اور المناک جنگ کے بعد پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ بدقسمتی یہ کہ یہ سیاہ ترین دن ہمیں اپنے حکمرانوں کی حماقتوں، قومی بداعمالیوں اور انتظامی خرابیوں کی وجہ سے دیکھنا پڑا۔ سقوطِ ڈھاکہ کے اسباب ہزاروں ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس المیے کی ابتداء اسی دن ہوگئی تھی جب ہم نے بحیثیت قوم پاکستان کے حصول کے مقاصد کو فراموش کردیا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کاسانحہ پاکستانی قوم کیلئے ایک عظیم المیہ تھا۔ غیرت کا تقاضا تھا کہ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھتی جب تک ہندو بنیے سے انتقام نہ لے لیتی لیکن قوم نے اس سانحے کو سنجیدگی سے نہ لیا۔ 16 دسمبر 1971ء کی وہ منحوس صبح طلوع ہوئی اور قوم کی آبرو کے چراغ گُل کرتی ہوئی غروب ہوگئی۔ یہ نہ بھولنے والی یادیں اور کبھی نہ مندمل ہونے والے زخم ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم اُس وقت سڑکوں پر مصروفِ عمل تھے اور بنگلہ دیش نہ منظور کی تحریک عروج پر تھی لیکن اس کے باوجود میرے وطن عزیز کا وہ حصہ جسے سنہری ریشوں کی سرزمین کہاجاتا تھا وہ مسجدوں کا شہر ڈھاکہ، مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان کا دایاں بازو علیحدہ کردیاگیا۔ اسے نفرتوں، عصیبتوں کی بھینٹ چڑھادیاگیا، ہوسِ اقتدار کے شعلوں میں جلادیاگیا۔ اپنوں کی کوتاہیوں اور غداروں نے غیروں کی سازشوں اور دخل اندازوں نے مسلم بنگال کو بنگلہ دیش بنادیا۔ وہ انہونی ہوکررہی جس کے نہ ہونے کی گڑگڑا کر دُعائیں مانگی تھیں۔ مسجدوں میں متقیوں نے ماتھے رگڑے تھے۔ آنکھوں سے عرق بہایاگیاتھا لیکن عالم اسلام کا سانحہ عظیم برپا ہوکررہا۔ بنگال و پنجاب کے خون سے تعمیر ہونے والا سرسبزوشاداب میدان بے آب و گیاہ صحرا میں بدل کررہ گیا۔ 16 دسمبر آج پھر آیا ہے زخموں کو تازہ کرنے کیلئے۔ آج ہمارے ازلی دشمن کی یاد دلا رہا ہے وہ دشمن جس نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف گھناؤنی سازشیں کیں۔ پاکستان کی جانب سے امن اور دوستی کی ہر خواہش کو یکسرمسترد کردیا۔ سچ تو یہ ہے کہ کمزور کی جانب سے امن کی خواہش بزدلی کی علامت ہواکرتی ہے۔ بھارت بھی پاکستان کی امن کی خواہش کو ہمیشہ بزدلی سے تعبیر کررہا ہے۔ زندہ قومیں اپنے ماضی کو نہیں بھولا کرتیں، وہ ماضی سے مستقبل کی طرف راہیں متعین کرتی ہیں۔پاکستان ٹوٹ گیا ایک قیامت گزر گئی لیکن آج پاکستان میں وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے جو مشرقی پاکستان میں ہمیں پیش آچکی ہے۔ ہم نے بحیثیت قوم المیہ مشرقی پاکستان سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی اور قومی سطح پر انہی غلطیوں کا بار بار ارتکاب جاری ہے جو سقوط مشرقی پاکستان کا سبب بنی تھیں۔ آج کے دن اہل پاکستان کو چاہیے کہ وہ سقوط مشرقی پاکستان کو ایک بار پھر یاد کرلیں۔ آج کے دن 1971ء میں جوذلت آمیز شکست پاکستان کو ہوئی تھی اسے نہیں بھولنا چاہیے۔ اس لیے اگر ہم اس عظیم سانحہ کو بھول جائیں اور شاید ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اپنے حقیقی دشمن کو بھول جائیں اور انتقام کا جذبہ سرد ہوجائے۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات قائم نہیں ہوسکتے اس لیے بھارت پاکستان کے کئی حصوں کو نگل گیا ہے اور سب سے اہم کشمیر کو کون بھول سکتا ہے۔ یہ کشمیری عوام کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ ابھی تک مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور عوام اپنے خون کی قربانیاں دے کر عالمی ضمیر بیدار کررہی ہے جبکہ بھارت کی اولین کوشش یہ ہے کہ پاکستان کشمیر کا نام لینے سے باز آجائے ان حوالوں سے بھارت کا گھناؤنا کردار سب کے سامنے ہے وہ کشمیری عوام کا ضمیر نہ خرید سکا اور نہ کبھی خرید سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی برس ہا برس کی کوششوں کے باوجود ابھی تک مسئلہ کشمیر زندہ ہے اور ایک عالمی مسئلہ ہے۔ لوگوں میں جذبہ جہاد موجود ہے وہ قربانیاں دے رہے ہیں کیونکہ وہ قربانیاں دینا جانتے ہیں۔ آج بھی کشمیر حریت پسندوں کی آوازوں سے گونج رہا ہے اور جیلیں کشمیریوں سے بھری پڑی ہیں۔ آج کا دن پاکستانی عوام کیلئے خوداحتسابی کا دن ہے اور ساتھ ہی کشمیر کے مظلوم انسانوں کو یاد کرنے کا دن بھی ہے۔ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں پر غور و فکر کریں تاکہ ہمارا ملک ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
ہماری صفوں میں آج بھی کئی میر قاسم اور میر جعفر موجود ہیں جن کی وجہ سے سانحہ سقوط ڈھاکا جیسے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد جلد ہی ہم نے اپنی قیادت اور کروڑوں مسلمانوں سے کیے ہوئے عہد سے بدعہدی شروع کردی۔ ایک قوم کی حیثیت سے حاصل کیے ہوئے ملک میں فرقہ واریت اور مختلف قوموں کا پرچار شروع کردیا۔ ظلم، ناانصافی، رشوت، بداخلاقی اور جھوٹ ہماری زندگی کا لازمی جزوبن گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ قیام پاکستان کے صرف پچیس(24) سال بعد ہی مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ اس کے باوجود ہم نے اپنی غلطیوں کو ٹھیک نہیں کیا۔ آج کے دن ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت اور شرپسندی جیسے مذموم کاروبار کا خاتمہ کریں گے۔
اگر ہم اپنا خود احتساب کریں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نظریات کی پٹڑی سے اتر چکے ہیں، ہمارے جذبے صرف اپنے مفادات کیلئے محدود ہوکررہ گئے ہیں، کیا ہم نے سوچا کہ پاکستان بننے کے 24 سال بعد 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور مغربی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش آج ہم سے کتنا آگے نکل گیا ہے۔ افسوس پاکستان میں نہ تو قانون نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی قانون کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے آج دن بدن ہم ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے اس وقت تک ان مقاصد اور تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے جنہیں پورا کرنے کی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو انشاء اللہ پاکستان قائم و دائم رہے گا۔ اگر ہم پاکستان کی عظمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ میں اس موقع پر پاکستانی قوم کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ سقوطِ ڈھاکا کو ہمارے نصابی کتب کا حصہ بنایاجائے تاکہ آنے والی نسلوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے۔