تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
سیدالمؤذنین، عاشق رسولﷺ، حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ
سات حضرات نے اپنا اسلام ظاہر کیا تھا جن میں سے ایک حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہیں۔
حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ وہ مشہور صحابی ہیں جو مسجد نبوی کے ہمیشہ مؤذن رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامتہ تھا۔ شروع میں ایک کافر امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ جب آپؓ نے اسلام قبول کیا تو مالک نے طرح طرح کی تکلیفیں دینا شروع کردیں۔ اُمیہ بن خلف جوکہ مسلمانوں کا سخت دشمن تھا، آپ رضی اللہ عنہ کو سخت گرمی میں دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت پر سیدھا لٹا کر ان کے سینہ پر پتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتا تھا تاکہ وہ حرکت نہ کرسکیں اور کہتا تھا کہ یا اس حال میں مرجائیں اور زندگی چاہیں تو اسلام سے ہٹ جائیں مگر وہ اس حالت میں بھی احد احد کہتے رہتے تھے یعنی معبود ایک ہے۔ رات کو زنجیروں کے ساتھ باندھ کر کوڑے مارے جاتے اور اگلے دن ان زخموں کو گرم زمین پر ڈال کر اور زیادہ زخمی کیا جاتا تاکہ بے قرار ہوکر اسلام سے ہٹ جائیں یا پھر تڑپ تڑپ کر مرجائیں۔ کبھی ابوجہل ظلم ڈھاتا، کبھی اُمیہ بن خلف اور کبھی کوئی اور ہر شخص کوشش کرتا کہ تکلیف دینے میں زور ختم کردے لیکن اس کے باوجود آپ سب تکلیفیں برداشت کرتے رہتے اور عذاب دینے والے اُکتا جاتے۔ چونکہ عرب کے بُت پرست اپنے بتوں کو معبود کہتے تھے اس لیے اُن کے مقابلے میں اسلام کی تعلیم توحید کی تھی جس کی وجہ سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی زبان پر ایک ہی ایک ورد تھا۔ یہ تعلق اور عشق کی بات ہے، ہم جھوٹی محبتوں میں دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت ہوجائے اُس کا نام لینے میں لُطف آتا ہے اور بے وجہ اس کو رٹا جاتا ہے تو اللہ کی محبت کا کیا کہنا جو دین اور دنیا میں دونوں جگہ کام آنے والی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو ہر طرح ستایا جاتا تھا، سخت سے سخت تکلیفیں دی جاتی تھی، مکہ کے لڑکوں کے حوالے کردیا جاتا تھا کہ وہ ان کو گلی کوچوں میں چکر دیتے پھریں اور یہ تھے کہ ایک ہی رٹ لگائے رہتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو اُس کافر سے خرید کر آزاد کروالیا اور اسلام قبول کرنے کاصلہ یہ ملا کہ پھر حضورﷺ کے دربار میں مؤذن بنے اور سفر حضر میں ہمیشہ اذان کی خدمت اُن کے سپرد ہوئی اور حضورﷺ کے اخراجات کا انتظام بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ہی سپرد تھا۔ اسلام لانے کے بعد حضورﷺ کے ساتھ جنگ بدر اور دوسرے تمام جہادوں میں شریک رہے۔ جب تک حضورﷺ اس عالم میں تشریف فرما رہے مسجد نبوی کے مؤذن حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ رہے۔ ایک مرتبہ رسولﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے نماز فجر کے وقت فرمایا کہ اے بلال مجھے بتاؤ کہ تم نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایسا کون سا عمل کیا ہے جس کی قبولیت کے متعلق دوسرے اعمال سے زیادہ اُمید رکھتے ہو کیونکہ میں نے جنت میں تمھارے جوتوں کی آہٹ سنی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو کوئی کام ایسا نہیں کیا جو اور باقی تمام اعمال سے زیادہ اُمید دلانے والا ہو۔ البتہ جب بھی میں وضو کرتا ہوں تو اس سے اپنے مقدر کی کچھ نہ کچھ نفل نماز تحےۃ الوضو ضرور پڑھتا ہوں۔ یہ سن کر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اسی عمل کی وجہ سے تم کو یہ رتبہ ملا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے خازن اور مصاحب خاص تھے اسی وجہ سے ان کو بھی آپﷺ کے ساتھ تکلیفوں میں مبتلا رہنا پڑتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت میں بہت آگے تھے اور اسی جذبہ کی وجہ سے آنحضرتﷺ کی ہر ادا اور ہر قول و فعل کو معلوم کرنے اور محفوظ رکھنے کی خاص کوشش کرتے تھے مگر بعض مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اُن سے بھی سبقت لے گئے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے موجود نہ ہونے پر رنج ہوا۔حضورﷺ کے وصال کے بعد مدینہ طیبہ میں رہنا اور حضورﷺ کی جگہ کو خالی دیکھنا مشکل ہوگیا۔ اس لیے ارادہ کیا کہ اپنی زندگی کے جو دن ہیں وہ جہاد میں گزار دوں اس لیے جہاد میں شرکت کی نیت سے چل دئیے۔ ایک عرصہ تک مدینہ منورہ لوٹ کر نہیں آئے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حضورﷺ نے فرمایا! بلال: یہ کیا ظلم ہے؟ ہمارے پاس کبھی نہیں آتے تو آنکھ کھلتے ہی مدینہ طیبہ کے سفر پر حاضر ہوئے۔ جب مدینہ منورہ پہنچے تو روضہ رسولﷺ پر حاضر ہوئے تو بستی میں شور پڑ گیا کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں تشریف لے آئے ہیں۔ یہ سننا تھا کہ صحابہ کرامؓ مسجد نبوی کی طرف دوڑے۔ صحابہ کرام نے اذان کیلئے درخواست کی تو آپ رضی اللہ عنہ نہ مانے۔ اسی دوران حسنین کریمین یعنی حضرت حسن حسینؓ نے اذان کی فرمائش کی، نواسہ رسولﷺ کی فرمائش کو انکار نہ کرسکے۔ جیسے ہی اذان پڑھنا شروع کی اور مدینہ میں حضورﷺ کے زمانہ کی اذان کانوں میں پڑی تو کہرام مچ گیا اور عورتیں تک روتی ہوئی گھر سے نکل پڑیں۔ جیسے ہی آپ رضی اللہ عنہ اشھدانا محمدرسول اللہ پڑھا اور ممبر رسولﷺ کو خالی دیکھا تو غم سے نڈھال ہوکر بے ہوش ہوگئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی وفات ۰۲ ھ میں دمشق میں ہوئی اور وہیں باب صغیر کے پاس مقبرہ میں دفن ہوئے۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر ۳۶ سال تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کے ۳۳ سال اسلام کی خدمت میں گزارے۔ اسلام کیلئے مار بھی کھائی اورجہاد و غزوات میں بھی برابر شریک رہے اور بھوک بھی برداشت کی۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب