غازی علم دین شہیدؒ ۲۰۲۰

تحریر: شیخ محمد انور 2020

فون نمبر: 0333-2250719

ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

غازی علم دین شہیدؒ

اللہ اللہ کیا نصیب پایا

جب سے میں نے آرٹیکل لکھنا شروع کیے ہیں تب سے میری خواہش تھی کہ میں عاشق رسولﷺ کے بارے میں لکھوں اور آج میری خوش قسمتی کہ اللہ ربُ العزت نے مجھے یہ سعادت نصیب کی کہ میں حضرت غازی علم دین شہیدؒ کی زندگی پر روشنی ڈالوں۔ آج جب میں نے غازی علم دین شہیدؒ کے بارے میں لکھنا شروع کیا تو میرا جسم اور میرے ہاتھ میرا ساتھ نہیں دے رہے کہ میں اُس شہید کے بارے میں کیا لکھوں۔ میں نے کافی کوشش کرکے حضرت غازی علم دین شہید کے والد محترم کے بھائی کے پوتے کامران رشید صاحب سے ملاقات کی اور میں جتنی دیر اُن کے پاس بیٹھا رہا وہ کیفیت تحریر نہیں کی جاسکتی۔ ایمان اور شریعت سے بھرپور شخصیت ہیں جن کاچہرہ سنت رسولﷺ سے مزین ہے، جب میں نے اُن سے غازی علم الدین شہیدؒ کے بارے میں دریافت کیا تو مجھے کہنے لگے کہ اصل بات غازی علم دین شہید کا پیغام ہے کہ نماز کی پابندی کرنا اور زکوٰۃ ضرور ادا کرتے رہنا، اللہ کی یاد سے کسی بھی وقت غافل نہ ہونا اور یہ نہ سوچنا کہ آپ علم دین کے رشتہ دار ہیں، ہر ایک نے اپنا اپنا حساب دینا ہے۔ بڑے دُکھ کی بات ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیش یہ بات کرتے ہیں کہ غازی علم دین شہید نے ایک موقع پر یہ بیان دیا تھا کہ میں نے راجپال کو قتل نہیں کیا اور معافی بھی مانگی تھی جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔ غازی علم دین شہید نے پھانسی کے پھندے پر جھولنے سے پہلے بلند آواز سے کہا تھا کہ اے لوگو گواہ رہنا میں نے اللہ کی رضا کیلئے گستاخِ رسولﷺ کو قتل کیا ہے۔ غازی علم دین شہید وہ ہستی جن کو متعدد بار نبی اکرمﷺ کی زیارت ہوئی اور قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ اگر آپ بیان بدل لو تو آپ کی رہائی ہوسکتی ہے۔ شہید نے کیا خوب جواب دیا کہ آپ بیان بدلنے کی بات کرتے ہیں، مجھے تو روزانہ نبی اکرمﷺ کی زیارت ہوتی ہے اور وہ میرا انتظار کررہے ہیں اور میں بہت جلد اُن کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ میں نے گستاخِ رسول ﷺکو قتل کیا ہے اور مجھے اس پر فخر ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی ناعاقبت اندیش نے ناموسِ رسالتﷺ پر طعنہ زنی کی تو عاشقانِ مصطفےٰﷺ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے سربلندی میں اپنا حصہ ڈالا۔ غازی علم دین شہید میاں طالعمند صاحب کے صاحبزادے ہیں اور انہوں نے ایک گستاخِ رسولﷺ کو جہنم واصل کرکے اپنے پورے خاندان کی عظمت میں اضافہ کیا ہے۔ کیا خوش قسمت والدین اور بہن بھائی ہیں کہ روزِ محشر کو جب ان کو قبروں سے اُٹھایا جائے گا اور اللہ ربُ العزت کی بارگاہ میں پیش ہونگے تو غازی علم دین شہید اور اس کے اہلِ خانہ کا سر فخر سے بلند ہوگا اور اُس کے والدین کہہ رہے ہونگے کہ ہم غازی علم دین شہید کے والدین ہیں۔ یہ پھانسی کا پھندہ ان سب کی بخشش کا سبب ہوگا، انشاء اللہ۔ اندرون لاہور شہر کے بازار سریانوالہ، مسجد چنیانوالی محلہ ککے زئیاں میں رہائش پذیر تھے۔ اس بازار میں سری اور پائے کی کئی دُکانیں ہوا کرتی تھیں اور یہ بازار بکروں کے سری پائے کی وجہ سے سریانوالہ بازار کہلاتا تھا۔ بازار سریانوالہ کی ایک مشہور ہستی مولوی عبداللہ چکڑالوی تھے اور انہی کی وجہ سے مسجد چکڑالوی مشہور تھی۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی کی تفسیر قرآن پاک بہت مشہور ہے۔ اس بازار کے گمنام گوشے میں 4 دسمبر 1908 میں غازی علم دین شہید نے جنم لیا۔ہم آج غازی علم دین شہید پر جتنا بھی فخر کریں کم ہے۔ وہ تو عاشقانِ رسولﷺ کی محفل میں جابیٹھے ہیں۔ عاشقِ رسولﷺ غازی علم دین شہید نے ایک معمولی پڑھے لکھے گھرانے میں جنم لیا۔ کیونکہ پورے گھر والے بڑھئی کا کام کرتے تھے، لہٰذا علم دین کو سکول بھیجنے کی بجائے اسی کام پر لگا دیا۔ علم دین شہید بڑا جوشیلا اور گرم مزاج تھا، بات بات پر خفاہوجاتا تھا اور من مانی کرنے کا عادی تھا، جب بیس بائیس برس کا ہوا تو طبیعت میں قدرے ٹھہراؤ پیدا ہوگیا اور اب ایک واضح تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ ذکرالٰہی اور ذکررسولﷺ سے وابستگی پیدا ہوگئی۔ کیوں نہ ہوتی وہ اکثر و بیشتر سید عطااللہ شاہ بخاریؒ کی محفل میں بیٹھتے تھے اور پھر اس کا اثر تو یقینی ہونا تھا۔ والد نہایت نیک اور پرہیزگار بزرگ تھے، چنانچہ طبیعت نے اچھا اثر قبول کرنا شروع کردیا، میلا شریف اور محفل سماع میں کثرت سے شریک ہونے لگا، اب نہ پہلے سا غصہ رہا اور نہ اوبالی پن، جہاں نعت سنی تڑپ جایا کرتا تھا۔ انہی دنوں راجپال نامی لاہور کے ایک ناشر نے نبی آخرالزماں ﷺ کے خلاف ایک گستاخانہ کتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کی۔ اس دل آزار عمل نے اہل ایمان کے جذبات کو مجروح کیا اور مسلمانوں میں سخت غم و غصہ ہوا۔ جب مسلمان رہنماؤں نے اس کتاب کو ضبط کرنے اور ناشر کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تو انگریز حکومت کے مجسٹریٹ نے ”راجپال“ کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ اس کے علاوہ کتاب کو ضبط کرنے کے مطالبے کو رد کردیا۔ اس پر ظم یہ ہوا کہ ”راجپال“ نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جہاں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے اس کو رہا کردیا۔ اب مسلمانوں کا غم و غصہ گم آسمان کو چھونے لگا اور گلی گلی احتجاج شروع ہوگیا۔ راجپال گستاخ کی حفاظت کیلئے دو سپاہی اور ایک حوالدار تعینات کردئیے گئے اور ساتھ ہی ساتھ روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز حکومت نے دفعہ 144 نافذ کرکے مسلمان رہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا۔ بلاشبہ حکومت وقت ملعون راجپال کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔ ان دنوں غازی علم دین ذریعہ معاش کے سلسلے میں کوہاٹ گئے ہوئے تھے۔ جب انہیں اس واقعہ کا علم ہوا تو فوری طور پر لاہور آگئے۔ اُس وقت موچی دروازے میں سید عطااللہ شاہ بخاریؒ مسلمانوں سے خطاب فرمارہے تھے کہ ”آج کوئی روحانیت کی آنکھ سے دیکھنے والا ہو تو دیکھ سکتا ہے کہ حضرت محمدﷺ اور ان کی ازواج مطہرات ہم مسلمانوں کی مائیں ہیں اور لاہور کے مسلمانوں سے فریاد کررہی ہیں کہ تمہارے شہر میں ہماری بے حرمتی کی جارہی ہے، ناموس رسالت کی حفاظت کرو“۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کی تقریر نے علم دین کو ایک منزل دکھا دی اور اب اس مرد حق، عاشقِ رسولﷺ کی زندگی یکسر بدل گئی۔ اب نہ وہ پہلے والی شوخی رہی، گم سم، کسی گہری سوچ میں غرق رہنے لگا، ماں باپ کو فکر و امن گیر ہوئی کہ شاید علم دین کسی سے جھگڑا کرآیا ہے یا کوئی لین دین کا چکر ہے، وہ اللہ کا بندہ ہر لمحہ دل ہی دل میں منصوبہ بنارہا تھا کہ وہ اس انسان کو جس نے مسلمانوں کے پیارے نبیﷺ پر نازیبہ کلمات چھاپنے کی جرأت کی ہے ختم کرنا چاہتا تھا۔ آخر وہ چپکے سے نکلا اور راجپال کی دُکان کا پورا جائزہ لے آیا، اُس نے راجپال کو بھی اچھی طرح دیکھ لیا تاکہ وہ اُسی کو نشانہ بنائے۔ اگلے ہی دن دوپہر کے وقت جبکہ سب لوگ آرام کر رہے تھے، یہ عاشق رسولﷺ گھر سے نکلا، مسجد میں آکر غسل کیا اور نماز ظہر ادا کرکے اپنے منصوبے کی تکمیل کیلئے روانہ ہوا، اتفاق کی بات جب علم دین راجپال کی دکان پر پہنچا تو اُس وقت وہ اکیلا تھا، اس مرد مجاہد نے اسے للکارا اور اس کے ناپاک اقدام کی سزا دی اور اُسے چھُرے کے وار کرکے ہلاک کردیا۔ جب علم دین کو تسلی ہوگئی کہ یہ گستاخ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے تو اطمینان کرلینے کے بعد واپس آیا۔ موری دروازہ کے باہر نہر بہتی تھی، اُس پر آکر ہاتھ پاؤں دھوئے اور ناپاک خون کے دھبوں سے خود کو پاک کیا اور بڑے اطمینان سے گھر آکرلیٹ گیا، دوسری روایت یہ ہے کہ نہر پر ہاتھ پاؤں دھوکر دوبارہ اُسے دیکھنے گیا کہ راجپال سچ مچ مرگیا ہے یا ابھی زندہ ہے اس دوران پکڑا گیا تھا۔ بہرحال راجپال کے قتل کی خبر آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی۔ ہندو مسلمان کشیدگی ہوجانے کی وجہ سے دُکانیں بندہوگئیں اور پھر سرشام ہی پولیس نے آکر عاشق رسولﷺ غازی علم دین کو گرفتار کرلیا۔ اس وقت گھر والوں کو پتہ چلا کہ اُن کے بیٹے نے کتنا بڑا معرکہ سرانجام دیا ہے۔ پورا شہر ایک ہنگامی صورت اختیار کرگیا، کچھ لوگوں نے غازی علم دین سے کہا کہ وہ جرم سے انکار کردے، مگر اُس مرد مجاہد نے صاف کہہ دیا کہ میں نے قتل کیا ہے اور میں نے گستاخِ رسولﷺ کو جہنم واصل کیا ہے۔ سیاسی مصلحت کے تحت کوشش یہ تھی کہ قتل سے انکار کردیا جائے مگر عشق رسولﷺ مانع تھا کہ نیک کام انجام دینے کے بعد اس سے انکار، یہ غازی علم دین کو کسی طرح بھی منظور نہ تھا، مقدمہ چلا، غازی علم دین شہید کو میانوالی کی جیل میں قید کیا گیا۔ میانوالی جیل سے جو خبریں آتی تھیں، اخباروں کے کالم اُن سے بھرے ہوئے ہوتے تھے، کہیں راتوں کو فیوض باری اور رحمت باری کے تذکرے ہوتے اور کہیں غیب سے پھلوں کی آمد کا ذکر ہوتا، غرضیکہ ہر ایک نے اپنے احساسات اور جذبات کا پورا پورا اظہار کیا۔ کہتے ہیں کہ غازی علم دین شہید کا مقدمہ قائد اعظم محمد علی جناح نے لڑا تھا، کیونکہ غازی صاحب نے اقبال جرم کرلیا تھا اور پھر حالات اور واقعات نے ایسی صورت اختیار کرلی تھی کہ عاشق رسولﷺ غازی علم دین کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی اور آپ کو میانوالی روانہ کیا۔ یہاں 4 اکتوبر کو صبح سویرے میانوالی پہنچے اور پولیس حراست میں میانوالی جیل میں لائے گئے۔ ہر روز سینکڑوں افراد آپ کے دیدار کیلئے جیل میں آتے۔ 30 اکتوبر کو آخری ملاقات کیلئے غازی علم دین شہید کے ورثاء کو میانوالی جیل میں بلایا گیا۔ اس دن آپ روزے سے تھے۔ 30 اور 31 کی درمیانی شب گویا آخری رات تھی مگر یہ تو آپ کو ہی معلوم تھا کہ وہ یہاں فانی جہاں سے لافانی جہاں میں پہنچ جائیں گے۔ شمعِ رسالت کے پروانے علم دین نے میانوالی جیل میں جو وصیتیں کیں ان میں اپنے عزیزواقارب کو تلقین کی کہ تم میں سے کوئی بھی مجھے رو کر نہ ملے۔ رشتہ داروں کو تاکید کی کہ میرے پھانسی لگ جانے سے ان کے گناہ بخشے نہیں جائیں گے نماز قائم کریں، احکام شرعی کی پابندی کریں اور زکوٰۃ دیں، بھائی محمد الدین اور بھائی غلام محمد تم پر کسی بھی وقت مصیبت ضرور نازل ہوگی اس لیے تم ہر نماز کے بعد یامزمل کا ورد ضرور کرنا، میری قبر کا فرش دو فٹ اونچا اور تیس مربعہ فٹ ہو، میری قبر کا کٹہرہ جو سب تھڑے کے ارد گرد ہو، وہ سوافٹ اونچا ہو، تمام سنگ مرمر کا بنایا جائے، ایک جانب سے اڑھائی فٹ یا ساڑھے تین فٹ کی جگہ کچی رکھی جائے جس کے ارد گرد جنگلہ لکڑی کا میرے والد بزرگوار کے اپنے ہاتھ کا بنایا ہوا لگایا جائے، قبر اندر سے کچی رکھی جائے، صندوق میں دفن کرنے کی ضرورت نہیں نیچے صرف ریت بچھائی جائے، جب مجھے دفن کرچکو تو دو نفل نماز شکرانہ اور دو نفل مغفرت کے واسطے ادا کرنا، میری لاش کے ہمراہ فساد بالکل نہ کیا جائے اور امن و امان کی تلقین کی جائے، میری لاش کے ساتھ ذکراللہ ضرور ہو مگر سر سے پگڑی کوئی نہ اتارے، میری قمیض عدالت میں پڑی ہے وہ میرے ماموں سراج الدین کو دی جائے اور میری شلوار میرے بھائی محمد الدین کو دی جائے، جو یہاں میرے چار کپڑے ہیں ان میں سے میری پگڑی میرے تایا جان کو دی جائے اور قمیض ململ کی چھوٹے تایا نورالدین کو اور کرتی جھنڈوبرادر پھجے کو دی جائے، چادر میرے والد کو دی جائے، سلیپر میرے بھائی غلام محمد کو دئیے جائیں اور سب بھائیوں کو السلام علیکم! 31 اکتوبر1929؁ء کو صبح صادق پروانہ شمع رسالت خالق حقیقی سے جاملا۔ آپ کی نعش کو چارپائی پر ڈال کر جیل سے باہر لایا گیا۔ دروازے پر ہزاروں آنکھیں شہید کا دیدار کرنے کیلئے بیتاب تھیں۔ پولیس نے لوگوں کو جنازہ نہ پڑھنے دیا اور اُن پر پتھراؤ کیا بلکہ غازی و شہید کو انگریز حکومت کے حکم پر لاوارثوں کے قبرستان میں بے گوروکفن اور جنازے کے بغیر گڑھے میں ڈال دیا گیا۔ جب یہ خبر لاہور پہنچی تو ہر طرف احتجاج ہوا، علماء کرام اکٹھے ہوگئے، علامہ اقبال، سرمحمد شفیع، دیدار علی شاہ اور مولانا ظفر علی خان کی قیادت میں مسلمان آپ کا جسدِ خاکی انگریز سے لینے میں کامیاب ہوگئے اور لاہور کو پرامن رکھنے کی تمام تر ذمہ داری علامہ اقبال نے اپنے سر لی۔ آپ کی میت بذریعہ ٹرین لاہور لائی گئی۔ آپ کا نمازجنازہ پنجاب یونیورسٹی گراؤنڈ میں پڑھایاگیا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ علامہ اقبال نے آپ کو خود قبر میں اُتارا اور فرمایا کہ ”ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا“۔ آپ کو لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں دفنایا گیا۔ اللہ ربُ العزت غازی علم الدین شہیدؒ کے درجات مزید بلند فرمائے، آپ کی قبر پر اپنی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور تمام مسلمانوں کو نبی اکرمﷺ کا پکا اور سچا عاشق بنائے۔ آمین۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے