غزوۂ اُحد میں ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔

تحریر: شیخ محمد انور 2021

ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

غزوۂ اُحد میں ستر مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔

شہدائے اُحد پر قیامت تک جو بھی سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے۔

الحمدللہ راقم الحروف کو ہر سال ماہ رمضان میں عمرے کے موقع پر میدانِ اُحد میں جانے کا شرف حاصل ہوتا ہے کیونکہ اُحد پہاڑ سے نبی اکرمﷺ کو بہت محبت تھی اور اُنہوں نے اُحد پہاڑ سے وعدہ بھی کیا تھا کہ تو میرے ساتھ جنت میں جائے گا۔ اس لیے راقم الحروف ہر سال متعدد بار اُحد پہاڑ کو بہت حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ یہ پہاڑ کتنا خوش قسمت ہے جو نبی اکرمﷺ کے ساتھ جنت میں جائے گا۔ راقم الحروف کو الحمدللہ اُس غار میں بھی جانے کا شرف حاصل ہوا جہاں پر نبی اکرمﷺ نے جنگ کی قیادت فرمائی تھی۔ غزوۂ اُحد کے بارے میں قرآن مجید کی سورۃ آل عمران میں ۰۶ آیات نازل ہوئی ہیں۔ اس جنگ میں مسلمانوں کا نقصان نسبتاً اس لیے زیادہ ہوا کہ یہ ایک طرح کی سزا تھی جو نبی اکرمﷺ کے حکم سے روگردانی کا نتیجہ تھا۔ دراصل اس جنگ میں کسی فریق کو بھی فتح حاصل نہ ہوسکی یعنی یہ جنگ ہار جیت کا فیصلہ ہوئے بغیر ختم ہوگئی تھی۔ مورخین کے مطابق یہ غزوۂ ۵۱ شوال ۳ھ کو ہوا تھا۔ فوجی برتری اور عددی کثرت کے باوجود غزوۂ بدر میں شکست کھانے سے سرداران قریش انتقام کی آگ میں جل رہے تھے۔ ان کے تمام تجارتی راستوں پر مسلمانوں کا کنٹرول تھا اور تجارت صرف یمن اور حبشہ کے راستے محدود ہوکررہ گئی تھی جہاں سے منافع بہت کم حاصل ہوتا تھا۔ عربوں نے بت پرستی چھوڑنا شروع کردی اور حلقہ بگوش اسلام ہونے شروع ہوگئے۔ اسلام نے غلاموں کو مساوی درجہ دے دیا اور مدینہ کے دونوں مشہور قبیلوں نے مسلمانوں کو گلے لگالیا تھا۔ ان وجوہات سے سردارانِ قریش کا وقار اور عزت مزید خطرے میں پڑگئی جس کو وہ فوری طور پر بحال کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ سردارانِ قریش نے مشترکہ سازش کے ذریعے فیصلہ کیا کہ تجارتی قافلہ سے حاصل ہونے والے منافع سے فوجی طاقت کو مضبوط کیا جائے اور مدینہ پر حملہ کرکے مسلمانوں کو نیچا دکھایا جائے چنانچہ قبائل سے بھی امداد کیلئے سپاہی لیے گئے۔ دوسوگھوڑوں، تین ہزار اونٹوں اور سات سو زرہ پوش سپاہیوں پر مشتمل ایک لشکر ترتیب دیا گیا جس کا سپہ سالار ابوسفیان بن حرب کو مقرر کیا گیا۔ جوانوں کے حوصلے بڑھانے کیلئے عورتوں کو بھی شامل کیا گیا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور اقدسﷺ کو قریش کی ان تیاریوں اور مدینہ کے یہودیوں سے سردارانِ قریش کی ساز باز سے آگاہ کردیا تھا۔ یہ لشکر رمضان کے آخری دنوں میں مکہ سے روانہ ہوا اور بارہ دن کا سفر طے کرکے بدھ کے دن مدینہ پہنچا۔ جنوب کی بجائے مدینہ کے شمال کی جانب ذی طویٰ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا اور تین دن تک سفری تھکاوٹ دور کرتے رہے۔ اس دوران جانوروں کو کھیتوں میں کھلا چھوڑ کر فصلوں کو تباہ و برباد کرڈالا۔ قریش کا لشکر پہلے ہی اُحد میں پہنچ کر اہم مقامات پر خیمہ زن ہوگیا۔ اس دوران مسلمانوں نے تین دن تک مدینہ میں ہی رہنا بہتر سمجھا۔ جنگ بدر کی شکست سے سبق لیتے ہوئے قریش نے صف بندی کرکے گڑھے کھدوا کر پتوں سے ڈھانپ دئیے اور جہاں آج کل شہدائے اُحد کی قبروں کا احاطہ ہے وہاں فریقین میں مقابلہ ہوا تھا۔ حضور اقدسﷺ کی خواہش تھی کہ مدینہ کے اندر رہ کر قریش کے حملے کا جواب دیا جائے لیکن ایسے نوجوان مجاہدین جو ایک سال پیشتر غزوۂ بدر میں حصہ نہ لے سکے تھے وہ باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے حق میں تھے تاکہ وہ اپنے جوہردکھا سکیں۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی رائے بھی باہر نکل کر لڑنے کے حق میں تھی اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بھی ان کے ہم خیال تھے۔ نماز عصر کے بعد آپﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مدد سے اسلحہ پہنا اور فرمایا کسی نبی کیلئے جائز نہیں کہ ہتھیار سجا کر اتار دے۔ جب تک اللہ اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ نہ کردے، اب اللہ کا نام لے کر چل پڑو، جو میں کہوں اس پر عمل کرو، صابر اور ثابت قدم رہو گے تو اللہ کی نصرت اور فتح تمہارے ساتھ ہوگی۔ منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی چاہتا تھا کہ مدینہ کے اندر ہی رہا جائے تاکہ مسلمانوں کا آپس میں اتحاد نہ ہوسکے اور ہر کوئی انفرادی طور پر دشمن کا مقابلہ کرسکے۔ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر فرما کر ہتھیار سجا کر حضورﷺ باہر نکلے۔ زرہ پہنے ہوئے گھوڑے پر سوار ہوئے، دائیں جانب سعد بن معاذرضی اللہ عنہ اور بائیں جانب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ کمان کندھے پر ڈال کر ہاتھ میں نیزہ لیے ہوئے ایک ہزار کے لشکر کی کمان کرتے ہوئے مدینہ اور اُحد کے درمیان شیخین کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ عبداللہ بن ابی نے عین موقع پر منافقت کرتے ہوئے ۰۰۳ آدمیوں سمیت اسی مقام پر آپﷺ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ وادی میں جبل عینین ایک اونچا مقام اور بہت اہم مورچہ تھا۔ حضور اکرمﷺ نے حضرت عبداللہ بن جبیر بن نعمان انصاری کی زیر کمان ۰۵ تیراندازوں کو متعین کرتے ہوئے فرمایا ”ہم غالب ہوں یا مغلوب تم ہماری پشت کی حفاظت کرنا، دشمنوں کو عقب سے حملہ کرنے سے روکنا اور حملہ کسی حال میں نہ کرنا چاہے پرندے ہماری بوٹیاں نوچ رہے ہوں۔ پھر بھی ہماری مدد کیلئے اس مقام کو ہرگز ہرگز نہ چھوڑنا“۔ اس کے بعد مجاہد اعظمﷺ باقی ۰۵۶ مجاہدوں کے ساتھ جبل احمد کے نصف دائرے والے خلاء میں خیمہ زن ہوگئے جس کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا ”کہ اُحد ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس کو دوست سمجھتے ہیں، اس کے اندر ایک جنتی دروازہ بھی ہے“۔ ابوسفیان کی انصار کو توڑنے کی کوشش کامیاب نہ ہوسکی۔ سورج طلوع ہونے کے بعد دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے۔ آپﷺ نے اپنی تلوار ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی جو تلوار چلاتے ہوئے دشمن کی آخری صفوں تک جاپہنچے۔ ہندہ سامنے آئی تو تلوار روک کر کہا کہ اللہ کے رسولﷺ کی تلوار ایک عورت پر نہیں اُٹھ سکتی چنانچہ ہاتھ روک لیا۔ ادھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے دشمن کی صفوں میں گھس کر صفوں کو اُلٹ دیا اور عرب کے نامی گرامی پہلوان سباع بن عبدالعزیٰ کو جہنم رسید کردیا۔ ایک حبشی غلام وحشی نے چھپ کر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو نیزہ مار کر شہید کردیا اور آپ رضی اللہ عنہ کا جگر نکال کر ہندہ کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمہارے باپ کے قاتل کا جگر ہے۔ ہندہ نے جگر کو چبا ڈالا اور وحشی کو انعام و اکرام دیا۔ ارشاد ہے کہ قیامت کے دن حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہیدوں کے سردار یعنی سیدالشہداء ہوں گے۔ حضرت عمروبن حموع عمررسیدہ ہونے کے علاوہ ایک پاؤں سے معذور بھی تھے۔ غزوۂ احد میں جب جانے لگے تو بیوی نے طعنہ دیا کہ جانے کی کیا ضرورت ہے؟ تم میدان سے بھاگ جاؤ گے۔ حضور اکرمﷺ کو علم ہوا تو فرمایا ان کو منع نہ کرو کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ شہادت سے سرفراز فرمائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اُنہوں نے اللہ کے حضور جان کا نذرانہ پیش کیا یعنی شہید ہوگئے۔ اُن کی لاش کئی بار اونٹ پر لاد کر گھر پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر ہر اونٹ لاش سمیت بھاگ آتا تھا۔ حضور ﷺ کو علم ہوا تو پوچھا ”شہید نے تمھیں کچھ وصیت کی تھی؟ عرض کیا یارسول اللہﷺ قبلہ رو ہو کر دُعا مانگی تھی کہ اہل و عیال میں اے اللہ واپس نہ لانا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ”پھر تو اللہ نے مجاہد کی دُعا قبول کرلی ہے“۔ میدان جنگ میں باوجود کم تعدادی کے مسلمانوں کا دباؤ بڑھتا ہوا دیکھ کر ابوسفیان نے اس جگہ سے جہاں سامان رسد اسلحہ اور دوسرا مال پڑا ہوا تھا اپنے لشکروں کو ہٹا لیا۔ مسلمانوں کو یہ دھوکا ہوا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ رہا ہے۔ چنانچہ وہ مال غنیمت سمجھ کر ٹوٹ پڑے۔ اس موقع پر عینین کی پہاڑی والے تیراندازوں کو بھی حضورﷺ کے حکم کا پاس نہ رہا اور باوجود حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے روکنے کے وہ خود پر کنٹرول نہ کرسکے اور مال غنیمت کی لالچ میں اس مورچہ کو چھوڑ دیا جہاں سے نہ ہٹنے کی آپﷺ نے تاکید فرمائی تھی۔ دشمن نے حالات سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عقب سے بھرپور حملہ کردیا۔ حضرت عبداللہ ان کو روکتے ہوئے چند ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ دشمن نے مسلمانوں کو ہر طرف سے نرغہ میں لے کر قتال کیا۔ مسلمان افراتفری میں ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ مشرکین کا ہدف آپﷺ کی ذات تھا۔ ادھر شمع نبوت کے پروانے بے جگری سے لڑکر حضورﷺ کی حفاظت کررہے تھے۔ عبداللہ بن حمید بن زبیر نے شمع نبوت کو بجھانے کیلئے حملہ کیا تو ابن خرشہ نے وار کرکے اسے گھوڑے سے گرا دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا ”اے اللہ تو بھی ابن خرشہ سے راضی ہوجا جیسے کہ میں ہوں“۔ اس دوران ام عمارہ رضی اللہ عنہ نے بھی حضورﷺ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ حضورﷺ نے فرمایا ”قیامت میں بھی ام عمارہ رضی اللہ اسی طرح میرے پاس رہے گی جیسے میدان اُحد میں“ عتبہ بن ابی وقاص نے دندان مبارک شہید کردیا اور عبداللہ بن شہاب زہری نے پتھر سے پیشانی مبارک زخمی کردی۔ حضور اکرمﷺ نے خون پونچھتے ہوئے فرمایا ”وہ قوم کیونکر فلاح پاسکتی ہے جو اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگین کردے حالانکہ وہ انہیں ان کے رب کی طرف بلا رہا ہے“۔ اس کے بعد دُعا فرمائی ”یا اللہ میری قوم کو معاف کردے، بے شک یہ مجھے جانتے نہیں“۔ مالک بن سنان خون چوس کر اس لیے نگل لیتے کہ خون تھوکنے میں احترام رسول مانع تھا۔ آپﷺ نے فرمایا ”جس کو پسند ہو کہ وہ اس آدمی کو دیکھے کہ جس کا خون میرے خون میں ملا ہو وہ مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھے اور جس نے میرا خون اپنے خون کے ساتھ ملایا اس کو دوزخ کی آگ نہ چھوئے گی۔ کفار نے حضرت مصعب کو جو حضورﷺ کے ہم شکل تھے شہید کرکے مشہور کردیا کہ اُنہوں نے شمع نبوت بجھادی ہے۔ مسلمانوں کے یہ سن کر حوصلے پست ہوگئے۔ حضرت کعب بن مالک نے جب حضورﷺ کو دیکھا تو نعرہ لگا کر کہا حضورﷺ زندہ سلامت ہیں۔ ابوسفیان نے یہ سمجھتے ہوئے کہا میدان مارلیا ہے، اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔ واصل جہنم ہونے والے مشرکین کی تعداد بعض نے ۲۲ اور بعض نے ۷۳ لکھی ہے۔ روایات کے مطابق ۰۷ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں ۴ مہاجر، ۱ یہودی، ۴ خزرج اور ۴۲ قبیلہ اوس کے انصار شامل تھے۔ زخمیوں کی تعداد بھی ستر لکھی گئی ہے۔ دوسرے دن مدینہ واپس لوٹنے سے پہلے حکم ہوا کہ شہدائے اُحد پر سلام بھیجو۔ فرمایا”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تاقیامت جو بھی ان پر سلام بھیجے گا وہ اس کا جواب دیں گے۔ شہدائے اُحد کی شان میں سورۃ آل عمران کی آیات نمبر۹۶۱۔۰۷۱ نازل ہوئیں۔ ترجمہ۔۔”جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مرا ہوا نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے