تحریر: شیخ محمد انور 2022ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
فرزند شہید جمہوریت خواجہ سعد رفیق سے اپیل کرتا ہوں کہ جس طرح پاکستان میں پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب نے پی ایم پیکج میں ملازمین کو بھرتی کرنے کا اعلان کیا تھا خدارا اُن کے چھوٹے بھائی میاں محمد شہباز شریف صاحب کو کہہ کر ریلوے کے تمام ٹی ایل اے اور پی ایم پیکج کے ملازمین کو مستقل کرنے کا اعلان کروائیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے منصب سنبھالنے کے بعد قوم سے جو پہلا خطاب کیا تھا اس میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان میں ریاست مدینہ کا نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے اس خطاب نے مجھ سمیت پوری پاکستانی قوم کے دل جیت لیے تھے لیکن افسوس کہ اُنہوں نے ساڑھے تین سال صرف پاکستانی قوم کو خوبصورت نعروں کا جھانسا دیا، قدم قدم پر جھوٹ بولا اور بالآخر سرخ جھنڈی دکھا کر وہ بھی چلتے بنے۔ عمران خان صاحب اپنے دورِ اقتدار میں مدینے کی بستی کا نعرہ لگاتے رہے اور مدینے کی بستی کے مالک یعنی حضرت محمدﷺ نے جس کے ہاتھ چومے یعنی ”مزدور“ اُس کو اس ملک میں ذلیل کردیاگیا۔ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ نے کتنے مؤثر انداز میں محنتی لوگوں اور مزدوروں کی عظمت بیان کی ہے۔ ارشادِ پاک ہے کہ مزدوروں کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔ پھر ان ہاتھوں کو متبرک کہا گیا جو محنت کرتے ہیں اور پھر اس کمائی کا بہتر قرار دیا گیا جو ان ہاتھوں سے حاصل ہوتی ہے جس میں انسان کی محنت اور پسینہ صرف ہوتا ہے مگر عمران خان نے پاکستان کے مزدوروں سے عجیب کھلواڑا کیا۔ ایک طرف تو وزیراعظم کے کتوں کی خوراک تو فرانس سے آسکتی ہے مگر انہوں نے اپنی حکومت میں غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ ان کے وزیر ریلوے اعظم سواتی نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا کہ میں ریلوے کے ملازمین کی پنشن کو فوراً ختم کرنا چاہتا ہوں۔ ریلوے کی 16 ہزار آسامیوں کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور اس حکومت کو ریلوے کے مزدوروں کی بددُعائیں لے بیٹھیں۔ پاکستان ریلوے کے ہزاروں TLA اور PM پیکج کے ملازمین یہ آس لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اسلام کا نام لینے والی یہ حکومت ہمارا سہارا بنے گی مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ پاکستان ریلوے میں TLA پر ملازمین کو عارضی طور پر بھرتی کیاجاتا ہے جو ریلوے کی مختلف کیٹگریوں مثلاً کیرج اینڈ ویگن، آرٹی ایل، گینگ مین، انجینئرنگ سٹاف، ٹریفک یارڈ سٹاف، ٹیلی کام، الیکٹریکل پاور، شیڈ معاون، برج معاون اور ورکشاپوں میں دیگر کیٹگریوں میں ریلوے کو چلانے میں آج اپنا بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ ریلوے میں ایک طویل عرصہ سے بھرتی نہیں ہوئی اور یہ لوگ آج ریلوے کا سہارا بنے ہوئے ہیں اور ریلوے کو چلانے میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان سے اپنی کیٹگریوں میں اپنی پوسٹ سے بڑھ کر کام لیا جاتا ہے لیکن تنخواہ ان کو اپنی کیٹگری یعنی معاون یا گینگ مین کی ہی دے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کو مسافر ٹرینوں اور گُڈز ٹرینوں کے ساتھ بھی بھیج رہے ہیں، اُن کو نہ تو ٹی اے دیتے ہیں، نہ ہی رننگ الاؤنس یا مائیلج الاؤنس دیتے ہیں جوکہ موجودہ جدید دور میں انسانیت سوز سلوک ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے کسی سے خرکار کیمپ میں بیگار لی جاتی ہے۔ ان کو نہ تو ہفتہ وار ریسٹ دی جاتی ہے اور نہ ہی CLچھٹی کا حق اُن کو دیاجاتاہے جس کی وجہ سے ان کے گھر میں کوئی خوشی یا فوتگی ہوجائے، یہاں تک کہ ان کا باپ اور ماں بھی فوت ہوجائے تو ان کو بغیر تنخواہ چھٹی دی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ اکیسویں صدی میں ملازمین کے ساتھ انسانیت سوز اور کیا سلوک ہوسکتاہے۔ مجھے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت پاکستان میں جو کام سیاست دان نہ کرسکے وہ کام اس ملک کا کسان یا مزدور کرے گا۔ اگر دیکھا جائے تو جو حالات 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں کے ساتھ تھے وہی آج اکیسویں صدی میں ایک بار پھر رونما ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں سے تقریباً سولہ گھنٹے کام لیا جاتا تھا اور انہیں اجرت بھی بہت کم دی جاتی تھی اور صنعتوں کے مالکان اسی کشمکش میں لگے رہتے تھے کہ مزدور اپنے حق کیلئے آواز بلند نہ کریں۔ اگر کوئی مزدور باقی مزدوروں میں شعور پیدا کرنے کی کوشش کرتا تو اسے نوکری سے نکال دیا جاتا تھا یا پھر مار دیا جاتا تھا۔ لیکن چاہے انسان جتنا بھی ظلم کرلے ایک نہ ایک دن حق غالب آہی جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان ریلوے میں حاضر سروس ملازمین اگر فوت ہوجائیں تو اس کے بیٹا بیٹی یا بیوی کو اُس کی تعلیم کے مطابق کسی ایک فرد کو ریلوے میں PMپیکج کے تحت عارضی طور پر کنٹریکٹ پر بھرتی کیاجاتاہے جوکہ بعد میں کنٹریکٹ چلتا رہتا ہے اور بعض اوقات جب افسرشاہی کسی کو نوکری سے نکال دیتی ہے تو وہ پھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے جس میں مردوں کے علاوہ بچیاں اور بیوائیں بھی ہوتی ہیں۔ ستم ظریفی کہ اگر کوئی بچی شادی کرلے تو اس کی نوکری بھی ختم کردی جاتی ہے۔ ایک تو ان یتیم بچوں کے سروں سے باپ کی چھت ختم ہوجاتی ہے اور دوسرا 5سال بعد ان کو گھر خالی کرنے کا نوٹس بھی دے دیاجاتاہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا 5سال بعد اُن کا باپ زندہ ہوجاتاہے؟ وہ بچہ جس کاسکیل کم ہوتا ہے اُس کو یہ کہہ کر مکان الاٹ نہیں کیاجاتا کہ یہ گھر تمھارے سکیل سے بڑا ہے اس لیے تمھیں الاٹ نہیں کیاجاسکتا۔ وہ غریب خاندان ایک بار پھر چھت چھننے کی وجہ سے سڑکوں پر آجاتاہے۔ آج پاکستان میں آئین پاکستان اور آئی ایل او کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی ہورہی ہے اور دوسری طرف بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے جبکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ ہر حکمران اور حکام بالا کو روزِ محشر اپنے ماتحتوں کے بارے میں اللہ کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔ اس موقع پر میں فرزند شہید جمہوریت خواجہ سعد رفیق سے اپیل کروں گا کہ جس طرح پاکستان میں پہلی مرتبہ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے پی ایم پیکج میں ملازمین کو بھرتی کرنے کا اعلان کیا تھا خدارا اُن کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو کہہ کر ریلوے کے تمام ٹی ایل اے اور پی ایم پیکج کے ملازمین کو مستقل کرنے کا اعلان کروائیں۔ ایک طرف تو الیکشن کا دور دورہ ہے اور دوسری طرف پاکستان ریلوے کے ملازمین ملک کے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کی نیک نامی بھی ہوگی، لوگوں کی نوکریوں کا تحفظ بھی ہوگا اور اللہ کی خوشنودی بھی آپ کو ملے گی اور اس کے ساتھ یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ 861پٹرولرز جن کو چند روز قبل بحال کیاگیا تھا اُن کی ملازمت کا سابقہ طریقہ کار بحال کیاجائے۔ ٹی ایل اے کے تمام ملازمین جن کو ٹرینوں کے ساتھ بھیجا جاتا ہے اُن کو CLچھٹی سمیت مائیلج الاؤنس یا رننگ الاؤنس دیا جائے ورنہ اُن کو ٹرینوں کے ساتھ نہ بھیجا جائے۔
اکتوبر 2006ء میں اُس وقت کے وزیر اعظم نے مزدوروں کی بیواؤں اور یتیم بچوں کیلئے پی ایم پیکج کا اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی کہ آج تک اُس کے لیے سرکاری محکموں کو اضافی وسائل مہیا نہ کیے۔ اسی طرح پھر 9فروری 2015ء کو اُس وقت کے وزیر اعظم نے اس پالیسی پر نظرثانی کی اور اعلان کیا کہ بیواؤں کے بچوں کی شادی، تعلیم، ہاؤس رینٹ اور بیواؤں کے لیے پلاٹ کو سکیل کے حساب سے واجبات دیے جائیں گے۔ مگرافسوس سرکاری محکموں کو اضافی بجٹ انہوں نے بھی نہ دیا۔
مجھے ریلوے کے محنت کشوں کی اجتماعی سودا کار پریم یونین کے صدر کی حیثیت سے آئے روز اپنے محکمہ کی ایسی بیواؤں سے واسطہ پڑتا ہے جن کے خاوند محکمہ ریلوے میں ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے ڈیوٹی پر فوت ہو گئے مگر سالہا سال گزر جانے کے باوجود ان کے یتیم بچے ریلوے دفاتر کی راہداریوں میں مستقل ہونے کے لیے دھکے کھاتے اور چکر لگاتے عام دیکھے جا سکتے ہیں، میں ریلوے ملازمین کا ایک نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کے علم میں لانا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس وقت یہ واجبات بڑھتے بڑھتے تقریباً چھ ارب سے تجاوز کرچکے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس مسئلہ پر فوری توجہ دی جائے، بیواؤں اور یتیم بچوں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا جائے اور ان کے تمام واجبات اور حقوق ادا کیے جائیں۔ میں یہ بھی گزارش کروں گا کہ ریلوے میں کام کرنے والے ٹی ایل اے ملازمین، یتیم بچے اور بچیوں کو مستقل کرنے کا حکم جاری کریں اور ہزاروں خاندانوں کی دُعائیں سمیٹ لیں۔ میرے نزدیک ماضی کی حکومت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اس ملک کی بیواؤں اور یتیم بچوں کی دُعائیں نہ لیں بلکہ یتیم بچوں کی آہیں اور سسکیاں اُن کو لے بیٹھیں۔ امید ہے آپ ان بے سہارا بیواؤں اور یتیموں کا سہارا بنیں گے، ان غریب و لاچار لوگوں کے سر پر دست شفقت رکھتے ہوئے ان کے واجبات اور حقوق کی فوری ادائیگی کا حکم جاری کریں گے تاکہ ان کی آہوں، سسکیوں اور بددعاؤں اور رب قہار و جبار کے غضب سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق اور جزائے خیر سے نوازئے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب