تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز)
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
بانی ِ پاکستان کی 72ویں یوم وفات پر خصوصی تحریر
تاریخ میں ایسے بہادر، جوانمرد اور جانفروش ضرور گزرے ہیں جنہوں نے اپنے ملک اور قوم کیلئے ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے ہیں۔ ایسے سیاستدانوں اور مفکروں کی بھی کمی نہیں جنہوں نے اپنی قوم میں نئی روح پھونک کر اسے زندہ اور باوقار قوم بنانے میں تاریخ ساز کردار ادا کیا مگر اس کے باوجود ابھی تک دنیا کی قوم نے وہ انسان پیدا نہیں کیا جس نے بغیر کسی فوج، بغیر کسی اسلحہ کے اور بغیر لڑائی جھگڑے ایک غلام محکوم قوم کو نہ صرف آزادی جیسی نعمت سے ہمکنار کیا بلکہ اس کیلئے علیحدہ ملک حاصل کیا۔ تاریخ میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے محسنوں کی قدر کرتی ہیں۔ ان کے کارنامے کبھی فراموش نہیں کرتیں، ان اصولوں اور مقاصد کو کبھی نہیں بھلاتیں جن کے لیے اُن کے اسلاف نے سب کچھ لٹادیا۔ قدرت کاملہ جن ہستیوں سے کوئی بڑا کام لینا چاہتی ہے انہیں بے پناہ فہم وفراست بھی عطا کرتی ہے اور انہیں شب و روز سخت محنت سے کام کرنے کی قوت بخش دیتی ہے۔ یہ برگزیدہ ہستیاں اپنی مسلسل جدوجہد سے قوموں کی تقدیریں بدل دیتی ہیں۔ یہ لوگ تاریخ ساز ہوتے ہیں اور قوموں کی قیادت کرنے کی بے حد صلاحیت رکھتے ہیں۔ معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایسی ہی عظیم الشان شخصیت کے مالک تھے۔ اُنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی غلامی کی زنجیریں کاٹ کر انہیں آزاد کرایا۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو ایک آزاد مملکت کا مالک بنا دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی عظیم شخصیت ایک غیور اور مرد مومن کی سی مثالی شخصیت تھی۔ وہ گفتار کے غازی ہی نہیں حقیقی معنوں میں کردار کے غازی تھے۔ ان کا ہر قول سوچ بچار کے بعد اور ہوتا تھا اور اس پر استقامت سے قائم رہتے تھے۔ غالباً ہی نہیں بلکہ یقیناً ان کی ساری زندگی ایک صاف شفاف آئینہ تھی اور جو قول ہوتا اس پر عمل فرماتے۔ ان کے قول و فعل میں کبھی تضاد نہ ہوتا کیونکہ ان کا اس حقیقت پر ایمان تھا اور اس پر عمل کہ ”ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک ملت“۔ قائد اعظم کے ہر قول اور فعل سے ان کے کردار کی استقامت اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی کی بدولت انہوں نے مسلمانوں کیلئے ایک ایسی آزاد خود مختار مملکت حاصل کی جہاں وہ اطمینان و سکون اور آرام کی فضاء میں سانس لے سکتے ہیں۔ اپنی دینی روایات پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔ یہ مملکت اللہ کے فضل و کرم اور اس کے بھروسے پر قائد اعظم نے ایک آہنی عزم، زبردست قوت فیصلہ غیرمتزلزل سیاسی تدبرودانش اور مسلسل جدوجہد کی بدولت حاصل کی، ساری دنیا کے غیر جانبدار مفکرین نے قائد اعظم کی فکرودانش اور سیاسی سوجھ بوجھ کو خراج تحسین پیش کیا اور قیام پاکستان کو ان کا ایک عظیم کارنامہ قرار دیا لیکن قائد اعظم نے پاکستان کی تخلیق کو اپنا کوئی ذاتی کارنامہ سمجھ کر کبھی فخر نہیں کیا۔ اُنہوں نے پاکستان کو انعام باری تعالیٰ سمجھا اور بار بار اس کا اظہار کیا اور فرمایا کہ ”یہ حضرت محمد ﷺ کا روحانی فیض ہے کہ جس ملت کو برطانوی سامراج اور ہندوسرمایہ دار صفحہ ہند سے حرف غلط کی طرح مٹا دینے کی سازشیں کر رہے تھے، آج اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہ آزاد اور خودمختار ملک ہے، ان کا اپنا سبز ہلالی پرچم ہے، اپنی حکومت ہے، اپنا دین اور اپنا آئین ہے اور سب سے بڑھ کر الحمدللہ آج پاکستان اسلامی اُمہ میں پہلا ایٹمی ٹیکنالوجی سے مالامال ملک ہے اور اس کی فوج شہادت کے جذبے سے ہر وقت سرشار اور اس کی عوام بھی شہادت کو فخر سمجھتی ہے۔ کیا کسی قوم پر اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کا کوئی انعام ہوسکتا ہے۔ قائد اعظم نے ایسے نازک حالات میں مسلمانانِ برصغیر کی قیادت سنبھالی جب ہندو اور انگریز مل کر مسلمانوں کو معاشرتی، اقتصادی اور تہذیبی طور پر کچلنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ ہندوپورے ہندوستان پر رام راج کے خواب دیکھ رہا تھا اور سکھ سازشوں کے جال بچھا رہے تھے، ان حالات میں قائد اعظم نے مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کا عزم کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح صداقت، امانت، دیانت، جرأت اور ایثاروقربانی کا عظیم پیکر تھے۔ اللہ ربُ العزت نے انہیں بے پناہ قوت ارادی، قوت استدلال اور سیاسی بصیرت عطاکررکھی تھی۔ دوقومی نظریے کے متعلق آپ نے فرمایا کہ ”پاکستان تو اُسی وقت عالم وجود میں آچکا تھا جس دن ہندوستان کا پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔ ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ تاریخ وروایات اور رجحان و مقاصد پر ایک لحاظ سے ہمارا اپنا انفرادی زاویہ نگاہ اور فلسفہ حیات ہے“۔ ایمان، اتحاد اور تنظیم قائد اعظم کے سنہری اصول تھے۔ آپ ہمیشہ ان اصولوں کا پرچار کرتے تھے۔ مسلمانانِ ہند نے جب اپنی قسمت کی باگ ڈور قائد اعظم کے سپرد کی تو اپنا تن، من، دھن غرضیکہ اپنا سب کچھ اپنے قائد کے ایک معمولی اشارے پر قربان کرکے دکھایا۔ مسلمانوں کو یہ احساس ہوچکا تھا کہ قائد اعظم ہندی مسلمانوں کیلئے جو بھی راہ تجویز کریں گے وہی راہ ان کے روشن مستقبل کی ضامن ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو مسلمانوں کے ساتھ کتنی محبت تھی اس کا تفصیلی جائزہ یہاں ممکن نہیں۔ ان کے دل میں ایک ہی خیال اور ایک ہی جذبہ موجزن رہا کہ برصغیر میں مسلمان اپنا جائز سیاسی مقام حاصل کرلیں۔ ان کے ذہن میں ایک ایسے پاکستان کا تصور تھا جس میں ہر پاکستانی کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی عدل و انصاف ملے اور وہ اپنے تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی بسرکرسکے۔ وہ پوری پاکستانی قوم میں ایک عظیم جذبہ پیدا کرنے کے خواہشمند تھے اور پاکستان کو ایک صحیح اسلامی ریاست بناکردنیائے اسلام کیلئے ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ مملکت خداداد پاکستان نہ صرف دوسری اسلامی مملکتوں کیلئے مشعل راہ بنے بلکہ اسلامی بلاک کے اتحاد کا منبع بھی ہو۔ قائد اعظم کی زندگی ہماری تاریک راہوں میں روشن آفتاب ہے۔ اس عظیم قائد کا بے داغ کردار ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ جب ہم قائد اعظم کی شخصیت پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں قوت ایمانی، فولادی عزم اور یقین محکم کا ایسا پیکر نظر آتا ہے جس کی بے پناہ قوت، استدلال اور سیاسی بصیرت نے قوم کو نئے ولولے اور نئے عزائم سے آشنا کیا۔ قائد اعظم واحد انسان تھے جو اپنی ذات میں اقتصادی امور کے ماہر تھے۔ سیاسی معاملات بھی بخوبی سمجھتے تھے۔ اُنہوں نے ہندوؤں کی تنگ نظری، انگریزوں کے تعصب اور سکھوں کی دورُخی پالیسی کا بڑے غور سے جائزہ لیا اور حکومت برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ ہندوستان میں دو قومیں آباد ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی، تہذیب و تمدن، رسوم و رواج اور مذہب وثقافت ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ لہٰذا یہ دونوں قومیں مخلوط انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت میں پُرامن زندگی بسر نہیں کرسکتیں، اس لیے مسلم آبادی کے وہ علاقے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ان پر مشتمل ایک علیحدہ آزاد ریاست بنائی جائے۔ قائد اعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کو پہلے ایک جماعت، ایک پلیٹ فارم، ایک پرچم اور ایک نصب العین کے تحت یکجا کیا، بکھری ہوئی منتشر قوم کی شیرازہ بندی کی اور پھر کاروانِ حریت کے قافلے کی سالاری کا فرض انجام دے کر مسلمانوں کو منزل مقصود تک پہنچایا۔ قائد اعظم نے خود بھی کام کیا اور قوم سے بھی کام لیا کیونکہ جہادِ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا یہی ایک راستہ ہے۔ قائد اعظم نے اپنے عمل سے یہ بھی بتایا کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے قوم کیلئے ایثار و قربانی اور قوم کی خدمت کی بھی بہترین مثال قائم کی۔ زندگی اور موت کے بارے میں انکا عقیدہ تھا جیسا کہ انہوں نے اپنے معالج ڈاکٹر سے اپنی آخری علالت کے دوران بسترمرگ پر نہایت یقین اور اطمینان سے فرمایا تھا۔ ”میں نے آج تک کبھی اپنی صحت کی پرواہ نہیں کی اور نہ آئندہ کیلئے خیال کرنے کو تیار ہوں۔ موت اور زندگی سب خدا کے اختیار میں اور اس کی طرف سے ہیں۔ موت وقت معین سے پہلے نہیں آ سکتی۔ یہ میرا ایمان ہے۔ میں اللہ ربُ العزت کی ذات کے سوا اس دنیا میں کسی طاقت سے نہیں ڈرتا۔ موت کا خوف مجھ پر طاری نہیں جب موت یقینی ہے تو وہ ضرور آ کررہے گی۔ پھر موت سے ڈرنے کا کوئی سبب نہیں۔11ستمبر1948ء کوانہوں نے کوئٹہ میں اپنی رہائش گاہ میں اپنی جان آفریں کے سپرد کی۔ آپ کا مزار کراچی میں ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب