تحریر: شیخ محمد انور 2021ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
ماہرِ امراضِ چشم ڈاکٹر محمد معین سے تفصیلاً گفتگو
آنکھوں کو گردوغبارسے بچانا چاہیے۔
دو آنکھیں بہت چھوٹے سے اعضاء ہیں مگر ساری دنیا انہی دو آنکھوں پر چل رہی ہے۔
اس دنیا میں ہر شخص خدا کے بعد ڈاکٹر پر بھروسہ کرتا ہے۔ ہر انسان کا ماننا ہے کہ انسان کی جان یا تو خدا بچاسکتا ہے اور یا تو ڈاکٹر۔ ویسے تو زندگی اور موت سب اللہ کے ہاتھ میں ہے پھر بھی جب تک ڈاکٹر اپنے منہ سے نہ کہہ دے کوئی بھی شخص ہار نہیں مانتا۔ جس طرح سپاہی اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر ہماری صحت کی حفاظت کرتے ہیں۔جس طرح پروفیسر اور انجینئر اس دنیا میں اپنا اہم مقام رکھتے ہیں اسی طرح ڈاکٹر بھی اپنا ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر کو ہمارے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ ڈاکٹر کا کام بیماری کو ٹھیک کرنا ہے، جب بھی ہم بیمار پڑتے ہیں ہمیں ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ بخار سے لے کر اس دنیا میں جتنی بھی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں ان سب سے ڈاکٹر ہی ہمیں نجات دلاتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر محمد یقین کے نام سے کون واقف نہیں؟ وہ اپنے وقت کے ممتاز ماہرِ امراضِ چشم تھے۔ ڈاکٹر محمد معین، ڈاکٹر محمد یقین کے فرزندِ ارجمند ہیں اور اپنے والد ہی کی طرح نہ صرف امراضِ چشم کے ماہر کے طور پر اپنا نام کمایا ہے بلکہ غریب، مستحق اور بے سہارا لوگوں کا سہارا بن کر اپنے والد ہی کی طرح نیک نامی بھی سمیٹ رہے ہیں۔ میٹرک تک ایچیسن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1984ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی میں نہایت اعلیٰ نمبروں سے کامیابی کے بعد ملک کے معتبر ترین کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پہنچے۔ 1993ء میں یہاں سے M.B.B.Sکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1994ء میں سپیشلائزیشن کیلئے آئرلینڈ کے رائل کالج آف سرجنز ایڈمبرا چلے گئے۔ 1997ء میں امراضِ چشم میں مزید مہارت کیلئے انگلینڈ کے رائل کالج برائے امراضِ چشم میں داخلہ لیا، یہاں سے فراغت کے بعد 2 سال امریکہ میں ملازمت کی اور پھر پاکستان واپس آگئے۔ 1999ء سے اب تک لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ 2012ء سے تاحال جنرل ہسپتال کے شعبہ امراضِ چشم کے سربراہ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کی بے پناہ عوامی مقبولیت اور معاشرے میں بڑھتے ہوئے امراضِ چشم کے پیشِ نظر میں نے اُن سے ایک خصوصی ملاقات کی جس کا احوال نذرِ قارئین ہے۔
سوال: ڈاکٹر بننے کا شوق کیسے پیدا ہوا؟
جواب: والد صاحب کی عزت سے متاثر ہوکر ڈاکٹر بننے کا فیصلہ کیا۔ میرے والد صاحب میرے آئیڈیل ہیں اور ان کا شمار ممتاز ترین آئی سرجنز میں ہوتا ہے اس کے باوجود اگر میں کہوں کہ میرے والد عجزوانکسار کے پہاڑ ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں۔ ڈاکٹر بننے کے بعد میں نے جدید ترین ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش کی اور الحمدللہ اس میں کامیاب ہوگیا۔
سوال: سنا ہے آپ نے اپنے آبائی علاقے میں ٹرسٹ ہسپتال بنایا ہوا ہے۔
جواب: جی ہاں! یقین ٹرسٹ ہسپتال کہروڑ پکامین روڈ میلسی چوک میں بنایا ہے اور وہاں پر لوگوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور وہاں پر ہم فری آئی کیمپ بھی لگاتے ہیں جن میں لوگوں کا لینز سمیت مفت آپریشن کیاجاتاہے۔مجھے ہمیشہ لاوارث، لاچار اور غریب لوگوں کا علاج کرکے ایک روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے کیونکہ میں نے ہمیشہ اپنے والد محترم کو غریبوں کا بلامعاوضہ علاج کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
سوال: سنا ہے کہ آپ نے ہسپتال کے سٹاف کو سختی سے منع کیاہوا ہے کہ میرے ذاتی کلینک کا نمبر اور پتہ کسی کو مت دیں۔ جو مریض ہسپتال پر داخل ہوگا میں اُس کا آپریشن یہیں پر کروں گا۔ یہ اس زمانے کی روش کے برعکس ہے۔ آخر اس کی وجہ کیاہے جبکہ آج یہ چیز ناپیدہے؟
جواب: جی یہ بالکل درست ہے، میں نے ہسپتال کے سٹاف کو سختی سے منع کیاہوا ہے کہ وہ میرا نمبر کسی کو مت دیں اور اگر کوئی مریض آبھی جائے اور اُس کے پاس ہسپتال کی پرچی ہو یا کوئی فائل ہو یا وہ یہ بتا دے کہ میں ہسپتال سے آیا ہوں تو میں اُس کو واپس بھیج دیتا ہوں اور اُس مریض کا علاج جنرل ہسپتال میں ہی کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس کوئی مریض ہسپتال سے ریفر ہوکرآئے۔
سوال: بچوں میں آج کل الرجی اور آنکھوں کی بیماریاں بہت زیادہ ہوتی جارہی ہیں، اسکی وجہ کیا ہے اور اسکی احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
جواب: اس کی بنیادی وجہ ماحول کی آلودگی اور سموگ ہے جسکی وجہ سے بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ یہ زیادہ تر گرمی میں ہوتی ہیں، مٹی جب اُڑ رہی ہوتو باہر نہیں جانا چاہیے۔ باہر جائیں تو ہیلمٹ یا سن گلاسز کا استعمال کریں۔
سوال: چھوٹے بچوں کو بھی عینکیں لگ رہی ہیں، بچے سکرین بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اسکے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟
جواب: چھوٹے بچوں کو سکرین کا استعمال نہیں کرنے دینا چاہیے، اُس کی شعاعوں کی وجہ سے بھی یہ بیماریاں جنم لیتی ہیں۔
سوال: عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک عام آدمی کو کالے موتیے کی تشخیص ہوتی ہے تب تک حالات کافی خراب ہوچکے ہوتے ہیں اور بحالی کے امکانات کم رہ جاتے ہیں۔ اس کے حوالے سے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
جواب: سٹیرائڈزکے استعمال کی وجہ سے بھی کالا موتیا بن جاتا ہے، آنکھوں میں تکلیف کی صورت میں میڈیکل سٹور سے دوا لینے کی بجائے ہمیشہ اسپیشلسٹ ڈاکٹر کو چیک کروانا چاہے۔ بہت زیادہ دیر تک سوشل میڈیا کے استعمال کی وجہ سے بھی نظر خراب ہوجاتی ہے تو اور عینک کا نمبر بھی بڑا لگ جاتا ہے۔ ذہنی طور پر پریشان ہوجاتے ہیں، سکرین کی روشنی کی وجہ سے آنکھوں میں دباؤ پڑتا ہے اور سردرد ہونے لگتا ہے۔
سوال: شوگر کے مریض عموماً جب تک ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تب تک آنکھیں تباہ ہوچکی ہوتی ہیں۔
جواب: 40سال سے زیادہ عمر میں کالا موتیا پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ زیادہ تر خاندانی طور پر بھی ہوجاتا ہے اور سٹیرائڈزکے استعمال کی کثرت سے بھی کالاموتیا ہوجاتاہے۔ اس سے بچاؤ کا بہترین طریقہ احتیاط اور بروقت ماہرامراض چشم سے معائنہ کروانا ہے۔ دنیابھرمیں ایسا نظام بن چکا ہے کہ جیسے ہی شوگر کے ٹیسٹ میں یہ کنفرم ہوجاتا ہے کہ مریض کو شوگر ہے تو ازخود آنکھوں کے معائنے کی کال آجاتی ہے کہ آنکھوں کا چیک اپ کروائیں، ہم اس میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جس وقت امریکہ میں یونیورسٹیاں بن رہی تھیں ہم برصغیر میں شاہی محلات بنارہے تھے۔
سوال: آپ نے آنکھوں کی پتلیوں کے سرطان میں مبتلا دو بہنوں کا کامیاب آپریشن کیا ہے۔ جسے ذرائع ابلاغ میں بہت عبرت ملی۔ اس کی تفصیل بتائیں گے؟
جواب: جی ہاں! اللہ کے فضل و کرم سے یہ میرا کامیاب آپریشن تھا۔ بچی کو پردے کا کینسر تھا جو کہ بچوں میں ہوتا ہے، اُس کو Retinoblastoma کہتے ہیں۔ اس کے علاج کیلئے ہماری پوری ٹیم نے بہت محنت کی ہے۔ جنرل ہسپتال میں پوری ٹیم ہی ایسے مریضوں کو دیکھتی ہے۔ بچی کے علاج کیلئے 6 ہفتے تک اُس کی آنکھ کی کیموتھراپی ہفتے میں دو بار کی گئی۔ پھر پردے کا آپریشن کیاگیا۔ اس کے لیے آنکھ کے اندر انجکشن بھی لگاتے ہیں۔ اس طرح بچی ٹھیک ہوگئی۔ چھوٹی بہن بڑی بہن کی وجہ سے پکڑی گئی، اُس کی آنکھوں کی بھی کیموتھراپی کی گئی اور اب دونوں بہنیں ماشاء اللہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اس کام میں ڈاکٹر لبنیٰ صاحبہ اسسٹنٹ پروفیسر، ڈاکٹر عمررشید ہیڈ آف نیورو ریڈیالوجی اور پروفیسر محمد شاہد ہیڈ آف بچہ وارڈ نے خصوصی دلچسپی لی۔
سوال: آنکھوں کی بیماریاں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب: آنکھوں کی بیماریاں شوگر کی وجہ سے بھی پھیل رہی ہیں اور کوروناکی وجہ سے فنگس لگ جاتا ہے اور بعض اوقات آنکھ ضائع بھی ہوجاتی ہے۔ سٹیرائڈز استعمال کرنے کی وجہ سے بھی زیادہ کام خراب ہوجاتا ہے۔جتنی بیماریاں ہورہی ہیں مثلاً جوڑوں کا درد، اندراتا، Pigmentosa، Retinits، Night Blindness، کڈنی ٹرانسپلانٹ کی وجہ سے بھی سفید موتیا ہورہا ہے۔ صنعتوں میں بے احتیاطی سے کام کرنے کی وجہ سے بھی موتیا ہوجاتا ہے کیونکہ ویلڈنگ والے بغیر عینک کام کرتے ہیں اس کی وجہ سے موتیے کی شکایت ہوجاتی ہے اور بعض اوقات بے احتیاطی کی وجہ سے آنکھ میں ذرہ چلا جاتا ہے جو کہ موتیے کا باعث بن جاتا ہے۔ نظر بہت بڑی نعمت ہے دو آنکھیں بہت چھوٹے سے اعضاء ہیں مگر ساری دنیا انہی دو آنکھوں پر چل رہی ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نعمت کی وجہ سے ہم دنیا میں چل پھر رہے ہیں۔
سوال: کالاموتیا بھی عام ہوتا جارہا ہے، اس کا سدباب کیا ہے؟ اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟
جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آنکھوں کی تکلیف کو اہمیت نہیں دیتے اور بعض اوقات علاج میں اتنی سستی کردیتے ہیں کہ سفید موتیا کالے موتیے کی شکل اختیار کرچکا ہوتاہے۔ اگر شروع میں ہی یہ پتا چل جائے تو اس کا آپریشن ہوجاتا ہے لیکن زیادہ دیر گزرنے کے بعد بینائی ضائع ہوجاتی ہے۔ شوگر کے مریضوں کو ہر 6 ماہ بعد اپنی آنکھوں کا معائنہ ضرور کروانا چاہیے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب