ملک میں بڑھتی غربت اور پسماندگی ذمہ دارکون۔۔۔سرمایہ داریاجاگیردار؟

تحریر: شیخ محمد انور 2021؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
ملک میں بڑھتی غربت اور پسماندگی
ذمہ دارکون۔۔۔سرمایہ داریاجاگیردار؟
سرمایہ دار ناجائز نفع کماتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں، استحصال کرتے ہیں، خون چوستے ہیں۔ یہ نعرے گزشتہ 35 سال سے وطن عزیز میں سنتے چلے آ رہے ہیں۔ سرمایہ داروں کی صفائی میں ہم کچھ کہنا نہیں چاہتے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے ملک کی قریباً 70 فیصد آبادی زراعت پیشہ ہے۔ جہاں تک سرمایہ داروں، صنعتکاروں کا تعلق ہے وہ کھیتوں کے مالک نہیں ہیں۔ اس لیے یہ بات تسلیم کرنی ہو گی کہ ملک کی ستر فیصد آبادی کا استحصال، سرمایہ دار یا صنعتکار نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ استحصال کرنے والا کوئی دوسرا طبقہ ہے۔ مزدور طبقہ جو کارخانوں میں کام کرتا ہے کل آبادی کا دو فیصد ہے، اس لحاظ سے سرمایہ دار کے استحصال پر شور و غوغا، استحصال سے متعلقہ کل شور و غوغا کا صرف دو فیصد ہونا چاہیے۔ باقی اٹھانوے فیصد چیخ و پکار سرمایہ دار کے بجائے دوسرے استحصالی گروہوں کے خلاف ہونی چاہیے مگر یہ دوسرے استحصالی گروہ کون سے ہیں؟ یہ استحصالی گروہ زمیندار، جاگیردار اور ان کے مفادات کیلئے کام کرنے والے سرکاری افسر اور اہلکار ہیں اور انہی لوگوں نے اپنے آپ کو عوام کے غیض و غضب سے بچانے کیلئے سرمایہ دار کے استحصال کے افسانے کو اتنا اچھالا ہے کہ یہ ملک کا اصل مسئلہ بن گیا اور آئے روز اس بنیاد پر احتجاج کی نوبت آ جاتی ہے لیکن اہل نظر پہلے بھی جانتے تھے اور آج بھی جانتے ہیں کہ ہم کبھی اتنے خوش نصیب نہیں رہے کہ ہمارے مسائل امریکا، برطانیہ، جرمنی اور جاپان کی طرح دورِ جدید کی سرمایہ داری کے مفاسد ہوں بلکہ ہم تو وہ بد نصیب ہیں کہ ابھی تک قرون وسطیٰ کی زمینداری، جاگیرداری کی ظلمتوں میں گرفتار اور اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملکی آبادی کا بڑا پیشہ زراعت ہے لیکن یہ آبادی اتنا اناج بھی پیدا نہیں کر سکتی کہ خود اپنا ہی پیٹ بھر لے۔ گزشتہ دو چار سال سے ملک میں گندم کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود اب بھی گندم کی پیداوار میں ہمارا خود کفیل ہونا ایسا نہیں ہے کہ ہم سمجھیں کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور فکر و تشویش کی ضرورت نہیں۔ پھر گندم کے علاوہ، چنے، دالوں اور دوسری اجناس کا بھی مسئلہ ہے جس کی پیداوار کیلئے ملک کی بڑی آبادی رات دن کام کرتی ہے۔ ہم کہنے کو تو زرعی ملک ہیں لیکن یہ ملک سالانہ قریباً 7.1کھرب روپے کی زرعی اجناس باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ اس کے مقابلے میں امریکا کی صرف دس فیصد آبادی زراعت پیشہ ہے مگر وہ ساری دنیا کو اناج مہیا کرتی ہے۔ جاپان کا یہ حال ہے کہ اس کی آبادی پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کے برابر ہے لیکن رقبہ پاکستان سے آدھا ہے اور اس کے رقبہ کا 85 فیصد حصہ آتش فشاں پہاڑوں سے بھرا پڑا ہے۔ اب باقی زمین جو رہ گئی ہے وہ بہت ہی کم ہے لیکن اس کم زمین پر بھی وہ اتنی کاشت کاری کر لیتے ہیں کہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے بعد چاول برآمد بھی کر لیتے ہیں اور جو چاول گھٹیا معیار کا ہوتا ہے وہ تو کوئی استعمال ہی نہیں کرتا، نہ برآمد ہوتا ہے بلکہ اسے نذرآتش کر دیا جاتا ہے۔ دنیا میں چاول کی فی ایکڑ پیداوار کے حساب سے جاپان سب سے آگے ہے۔ جاپان کے مقابلے میں ہمارے پاس وسیع اور زرخیز اراضی ہے محنتی کاشت کار بھی ہیں لیکن پھر بھی ہماری فی کس آمدنی بہت کم ہے۔ دیہات میں غربت اور افلاس کا جو عالم ہے وہ اگرچہ ہندوستان کی طرح کا بھیانک نہیں پھر بھی افسوسناک ہے۔ دیہی علاقوں میں کسانوں کے مقابلے میں مزدور خوش نصیب ہے کہ وہ مزدور ہے ہاری نہیں۔ زراعت پیشہ دیہی آبادی کی غربت کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشانی سرمایہ دار اور صنعت کار کو ہے کیونکہ ان لوگوں کی غربت کے سبب اندرون ملک مصنوعات کی منڈی بڑی محدود ہے۔ اگر ہاری یا کاشتکار خوشحال ہو تو وہ ریشمی کپڑا، صابن، پاؤڈر، کریم تیل، دوائیں، ٹیپ ریکارڈر اور دوسری مصنوعات خرید سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی سرمایہ دار اور صنعتکار طبقے کے ہاتھ میں اقتدار آیا تو اس نے پہلے زرعی اصلاحات نافذ کیں تا کہ کاشتکاروں کی اقتصادی حالت بہتر ہو اور مصنوعات کی کھپت ممکن ہو سکے لیکن ایسے ماحول میں جہاں گنتی کے چند ہزار زمینداروں کے پاس ہی دولت ہو یا صرف شہری طبقہ خوشحال ہو اور دیہاتی میں قوت خرید نہ ہو تو صنعت کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ اس لیے صنعتی طبقے اور جاگیردار طبقے میں ہمیشہ خدا واسطے کا بیر ہے۔ پاکستان میں زمیندار، جاگیردار طبقہ اپنی سیاسی اور اقتصادی موت نہیں چاہتا تھا اس لیے وہ کبھی آمریت، کبھی جمہوریت اور کبھی سوشلزم کے نام پر اس طرح کی تدابیر کرتا رہا کہ اس کا اقتدار قائم رہے۔ حقیقی زرعی اصلاحات کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکے۔ زمیندار، جاگیردار طبقہ کی ساز باز افسر شاہی سے بھی بہت پرانی ہے بلکہ افسر شاہی میں بیشتر انہی کے خاندانوں کے چشم و چراغ ہیں۔ دراصل ہمارے ملک میں صورت یہ رہی کہ گنتی کے چند خاندان ملک کی زیر کاشت اراضی کے نصف سے زیادہ حصے کے مالک رہے۔ انہی کے خاندانوں کے فرزندان ارجمند بیورو کریسی میں اعلیٰ عہدوں پر جاتے رہے۔ انہی خاندانوں کے نورِ نظر پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کے اراکین بنتے رہے۔ ستم بالائے ستم روحانی گدیوں کے سجادہ نشین اور پیر و مخدوم بھی یہی لوگ رہے۔ یہ صورت جو پاکستان میں ہے برصغیر میں کہیں اور نہیں تھی۔ وہاں ایک متوسط طبقہ اور سرمایہ دار طبقہ ابھر کر آیا تھا اور اس نے زمینداروں، جاگیرداروں کو پیچھے دھکیل دیا تھا لیکن ہمارے پاس یہی زمیندار، جاگیردار دیہاتوں میں زرعی آبادی کے روزی رساں تھے، سیاسی بلدیاتی اداروں میں لیڈری کرتے تھے، افسر شاہی کے ایوانوں میں پالیسیاں بناتے تھے یعنی ”جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے“ کی صورتحال رہی۔ اس کی وجہ سے ملک کا انتظامی اقتدار، سیاسی اقتدار اور مالی اقتدار سب کچھ چند خاندانوں میں سمٹ کر آ گیا۔یہ بات کہنا یا سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ یہ زمیندار یا جاگیردار ملک دشمن یا عوام دشمن ہیں۔ شخصی طور پر ان بڑے اچھے لوگوں میں جو خرابی ہے وہ ان کی ذات میں نہیں بلکہ ان کے نظام میں ہے۔ یہ چونکہ بڑی بڑی زمینوں کے مالک ہوتے ہیں جو ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ہوتی ہیں اس لیے وہ اس ساری اراضی پر کاشت اور پیداوار میں اضافہ کے مسئلہ میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لیتے اور عام طور پر جدید طریقے سے کاشت کرنے کے وسائل اور ذرائع بھی ان کے پاس نہیں ہوتے اور ان کی زمینوں پر جو پیداوار ہوتی ہے اس کی آمدنی بھی کسی مثبت طریقے سے خرچ نہیں ہوتی اور یہ زمین سے حاصل ہونے والی دولت میں سے بہت کم ہاری یا مزارع کو دیتے ہیں اور جو بڑا حصہ خود لیتے ہیں وہ شادی بیاہ کی رسموں، آپس کی مقدمہ بازیوں، اعلیٰ سرکاری حکام کی دعوتوں، رشوتوں، سیر و شکار کے شغلوں یا الیکشن کے جھمیلوں اور بڑی بڑی گاڑیوں پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔ یعنی ایک تو ان کی ملکیت کی وجہ سے زمین پر پیداوار نہیں ہوتی، جہاں ہوتی ہے بہت کم ہوتی ہے اور اس پیداوار کا ماحصل قومی ترقی، تعمیر کے کاموں کے بجائے فضولیات کی نذر ہو جاتا ہے۔ اب ملک ترقی کیسے کرے؟ یہ ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ دراصل آج کے دور میں زمین کی انفرادی ملکیت کا نظام ایک فرسودہ نظام ہے، اسے ختم کرنا ہی ہو گا، یہی وقت کا تقاضا ہے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے