تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
مہنگائی نے اس سال اور کتنے گھروں سے عید کی خوشیاں چرالیں؟
لاقانونیت، آپادھاپی اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے انداز نے عام آدمی سے اس کے حوصلے پست کرڈالے۔
عید نام ہے ان خوشیوں کا جو دلوں سے پھوٹتی ہیں۔ عیدالاضحی مسلمانوں کیلئے انتہائی خوشی کا تہوار ہے کیونکہ عیدالاضحی حج کے فوراً بعد پوری دنیا میں منائی جاتی ہے۔ مسلمانوں کیلئے یہ دن خوشی کا دن ہے جس کو وہ اپنی استطاعت اور حیثیت کے مطابق گزارتا ہے۔ اس دن کیلئے ہر کسی کی کوشش ضرور ہوتی ہے کہ یا تو وہ اپنے بچوں کیلئے بکرا خریدے، اور اگر اُس کی جیب اجازت نہ دے تو پھر وہ گائے میں حصہ ڈالتا ہے۔ ہرکوئی اپنے اس مذہبی تہوار کو شایانِ شان منانے کیلئے بھرپور کوشش کرتا ہے لیکن دیکھا یہی گیا ہے کہ ہمارے ہاں عید سے قبل ہی مہنگائی کا آسیب گھیرے میں لینا شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں ہوتا یہی ہے کہ وہ اشیا جن کی طلب اس موقع پر زیادہ ہوتی ہے ان کی رسد میں مصنوعی قلت پیدا کرکے مہنگائی کا جواز بنایا جاتا ہے اور طلب رسد کے بنیادی اصول کے تحت ضروریات زندگی کی ہر شے کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا جاتا ہے۔ ایسے میں مہنگائی کو جائز قرار دینے کیلئے ایک بے وزن دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ اس ماہ میں کیونکہ پیداوار کی اوسط اور قلت کار کم ہو جانے کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے اس لیے چیزوں کا مصنوعی بحران بنادیاجاتا ہے اور وہ جانور جو عام دنوں میں چند ہزار کا ملتا ہے، اس مذہبی تہوار کے موقع پر اس کی قیمت آسمان کو چھورہی ہے۔ ہرروز والدین اپنے بچوں کے ساتھ قربانی کا جانور خریدنے کیلئے بازار جاتے ہیں مگر ریٹ سن کر خوفزدگی کے عالم میں واپس آجاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذہبی تہوار کے موقع پر مناسب فائدہ لے کر فروخت کیاجاتا نہ کہ لوٹ مار۔ اہل ثروت لوگ تو بڑے بڑے سٹوروں سے خریداری کرلیتے ہیں لیکن سفید پوش لوگوں کے پاس یوٹیلیٹی سٹورز کے سوا کوئی راہ نہیں ہوتی۔ ان سرکاری سٹوروں سے قطار میں لگ کر جس طرح خریداری کرنی پڑتی ہے وہ اس جدید دور میں اس زمانے میں وقت کو ضائع کرنے کے متراداف ہے۔ ملازمت پیشہ بالخصوص تنخواہ میں زندگی گزارنے کی کوشش کرتا ہے اور اسے کسی اضافی خرچے کیلئے اتنا ہی پریشان ہونا پڑتا ہے جتنا کہ حکومتوں کو اپنا بجٹ بنانے کیلئے۔ لیکن روزبرور مہنگائی نے اچھے بھلے سفید پوشوں سے بھی خوشی سہنے کی طاقت چھین لی ہے اور عید کے موقع پر اپنے بچوں، عزیزوں اور اپنے لیے نئے کپڑے، جوتے اور لوازمات کی خریداری ان کیلئے بوجھ بنادی ہے۔ ہمارے معاشرے میں موجود مختلف طبقوں میں سے نوازا جانے والا طبقہ ہر مشکل اور مالی تکلیف سے آزاد ہے لیکن متوسط لوگوں سے لے کر انتہائی محدود آمدنی والوں کیلئے موجودہ عید کی آمد ایک جان لیوا خوشی کے برابر تھی۔ اس لیے کہ مہنگائی اور کرونا نے لوگوں سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لی ہے کہ وہ اپنے اس تہوار کو ہنس کر منائیں یا روکر، کسی کے گوشت کا انتظار کریں یا صبر شکر سے بیٹھے رہیں، لیکن اس کے باوجود بھی کچھ نہ کچھ تو بچوں کیلئے کرنا ہی پڑتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گراں فروشوں نے چینی 100 روپے کلو فروخت کرنا شروع کردی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ذخیرہ اندوزوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے غریب محلے ہیں کہ جہاں کے بسنے والے دُکان سے سودا سلف لانے کے عادی اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ چھٹانک یا پاؤ بھر چینی روز منگوانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس برس تو چکن کی قیمتوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا جس کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقے سبزی کی طرف لپکے تو معلوم ہوا کہ ہر سبزی 100 روپے سے کم نہیں۔ دیکھا جائے تو ایک طرف تو کرونا کے خوف کی وجہ سے لوگوں کی روٹی روزی بند ہوگئی لیکن دوسری طرف مہنگائی فروشوں نے لوگوں کا خان چوسنا شروع کردیا۔ دیکھا جائے تو پچھلے برس کی نسبت اس سال ہر چیز کی قیمت میں 40 سے 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کچھ چیزوں میں تو شاید اس سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ عید کے موقع پر بھی غریب آدمی اپنے بچوں کیلئے کوئی خاص خریداری نہ کرسکا جبکہ دوسری طرف امیروں نے بوتیک کی دُکانوں پر ریڈی میٹ ملبوسات منہ مانگی قیمتوں پر خریدا۔ امیروں کی قوت برداشت کے مطابق دُکانداروں نے خوب مہنگائی کا بازار گرم رکھا لیکن دوسری طرف غریب طبقے کے لوگوں نے کپڑے سلوانے ہوتے ہیں، اب درزیوں کی سلوائی بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک سوٹ بھی کم از کم ایک ہزار روپے میں سلتا ہے۔ سفید پوش لوگ جو اپنے بچوں کے کپڑے گلی محلوں میں اپنے اپنے گھر بیٹھی ایسی درزنوں سے سلوا کر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھتے تھے ان کیلئے اس بار اس کاریگر طبقے نے بھی مشکلات پیدا کردیں اور اب یہ گھریلو خواتین بھی تین سو روپے فی سوٹ سلائی کے بجائے 700 روپے کا مطالبہ کرتی نظر آئیں۔ اس ملک میں نہ جانے کب متوسط طبقے کو ان کے حقوق ملیں گے۔ کون سا مسیحا ان کے مسائل حل کرے گا۔ عید کی خوشی نے اس طبقے کے باشعور لوگوں کو اس بار نیم پاگل بنادیا کیونکہ کون ایسا شخص ہوگا جو اپنے بچوں کو اچھے کپڑوں میں نہ دیکھنا چاہتا ہو گا یا ان کے پاؤں کیلئے نئے جوتے نہ خریدنا چاہے گا؟ یا اس کی خواہش یہ نہ ہوگی کہ کم سے کم عید پر تو اس کے گھر میں اچھا کھانا پکایا جائے یا بچوں کی خواہش پر کم از کم اجتماعی قربانی میں حصہ ڈالا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بار لوگوں کو اپنے فریج خالی رکھنے چاہییں تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ چھوٹی چھوٹی خواہشات کیسے پوری ہوں گی؟ اس بار جہاں مہنگائی نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی وہیں پر بے حسی بھی بہت زیادہ ہے۔ دُکاندار سے ذرا بھاؤ تاؤ کرو تو یہ بدتمیزی پر اُتر آتا ہے، یہاں تک کہ اگر کپڑا نکلوا کر دیکھیں اور آپ کو پسند نہ آئے تو ان کو زحمت ہوتی ہے۔ ابھی خود ہی سوچیں جن کے چار پانچ بچے ہوں اور تنخواہ صرف 20 ہزار ہو، عزیز داریاں، رشتہ داریاں، بہن بھائیوں کو عیدی دیناکیسے ممکن ہوگا؟ آپ دیکھ لیں اس بار شیرخوار بچے کی جوتی بھی 400 روپے سے کم نہ تھی۔ گوشت کھانے کا تصور تو اب غریب آدمی کیلئے ختم ہی ہوتاجارہا ہے۔ رمضان المبارک اور عیدالاضحی کے موقع پر بھی مرغی کا گوشت 350 روپے کلو رہا۔ سیب جو عام دنوں میں 50 روپے کلو ملتا ہے آج کل 200 روپے میں مل رہا ہے۔ راقم الحروف کو خریداری کے سلسلے میں بازاروں میں جانے کا موقع ملا تو وہاں پر بھی خواتین کی خریداری میں گلے شکوے زیادہ سنائی دیے۔ اکثر عورتیں ان بچوں کی جوتیاں خریدنے پر مائل ہیں جن کی جوتیاں چھوٹی ہوچکی ہیں جن کو کسی شادی یا تقریب کی وجہ سے دو تین ماہ قبل جوتی ملی ان کیلئے نئی جوتیوں کی خریداری نہ ہونے کے برابر رہی۔ لڑکیوں کیلئے چوڑیاں اور مہندی وغیرہ کی خریداری عروج پر رہی۔ لیکن ایک ایسی غریب عورت جو کسی کے گھر میں نہ صرف خود کام کرتی ہے بلکہ اس کے بچے بھی ماہوار تنخواہ پر لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں ان کیلئے بھی عید زحمت کے سوا کچھ نہیں تھی۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب