مہنگی کھاد۔۔۔۔سستی زرعی اجناس

مہنگی کھاد۔۔۔۔سستی زرعی اجناس
ملک میں آٹے، چینی اور گھی کے نرخ بڑھنے کے بعد ڈی اے پی کھاد بھی مہنگی ہو گئی ہے۔ ملک میں مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کے باعث لوگ پریشانی میں مبتلا ہیں۔ زراعت جسے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ آج کل یہ شعبہ اور اس سے وابستہ افراد بھی مسائل سے دوچار ہیں۔ دنیا زراعت کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہے اور ہم اس اہم شعبہ کو مسلسل نظرا نداز کر رہے ہیں۔ اگر مختلف زرعی اجناس کی بات کی جائے تو ہم فی ایکٹر پیداوار کے لحاظ سے دنیا سے بہت سے پیچھے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ ہم زرعی اجناس کے ترقی دادہ زیادہ پیداوار کے حامل بیج تیار کرنے سے قاصر ہیں۔ کپاس کی ہی مثال لے لیں۔ ہم ابھی تک کوئی ایسا بیج تیار نہیں  کر سکے جو مکمل طور پر ناصرف گلابی سنڈی کے خلاف قوت مدافعت رکھتا ہو بلکہ پیداوار کے لحاظ سے بھی اس کا کوئی ثانی نہ ہو۔ مگر افسوس اس لحاظ ایک دو ایسے بیج تیار کرنے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں  لیکن حقیقت میں وہ بہتر کارکردگی کے حامل نہیں ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک کا جائزہ لیا جائے تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر حکومت نے زرعی شعبہ کو کسی نہ کسی صورت نظر انداز ہی کیا ہے۔ کسان بیچارہ کبھی قرض لے کر فصل پالتا ہے تو کبھی بیوی کا زیور، مال ڈنگر یا کھیتوں میں کھڑے درخت بیچ کر اس ملک و قوم کے لیے اناج اگاتا ہے لیکن جب اس کی وہی فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے تو مارکیٹ میں اسے اتنے دام بھی نہیں ملتے کہ وہ اس سے ناصرف اپنا قرض اتار سکے بلکہ اگلی فصل کے لیے کھاد اور بیج بھی حاصل کر سکے۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نقصان اٹھانے اور معاشی قربانی دینے کے لیے صرف کسان ہی ہے۔ اس دور میں کون شخص ہے جو 6 ماہ محنت کرے اور بعد میں اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ بدقسمتی سے کسان کے ساتھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی زمینوں کی ذرخیزی متاثر ہو رہی ہے۔ کسی بھی فصل کی بہتر پیداوار کے حصول کے لیے نائٹروجن اور پوٹاش کے ساتھ ساتھ فاسفورسی کھادوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ فاسفورسی کھاد اگر مہنگی ہو گی تو اس کا استعمال مشکل ہو جاتا ہے۔ کھادوں کے استعمال کے بغیر زیادہ پیداوار کا حصول ناممکن ہو چکا ہے۔ دنیا کے جن ممالک نے زراعت میں ترقی کی ہے۔ انہوں نے اپنے کسان کو ہر ممکن سہولت دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ ممالک اپنے کسان کو سستی کھاد، زرعی ادویات اور بیج کی فراہمی یقینی بناتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگر ہمارے ملک کی بات کی جائے تو یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ کبھی بغیر سوچے سمجھے بجلی مہنگی کر دی جاتی ہے تو کبھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ کپاس، مکئی، آلو اور دیگر فصلات کے ترقی دادہ بیجوں کی بات کی جائے تو قیمت سن کر پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔ زرعی ادویات اور کھاد کی قیمت تو شاید کسی کے کنٹرول میں  ہی نہیں۔ جب تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو کسان پرامید تھا کہ اب اس کے مسائل یقینی طور پر حل ہونگے۔ مگر فی الحال تو ایسا نہیں لگ رہا کہ یہ حکومت اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں زرعی شعبے کو درپیش مسائل کا ازالہ کر سکے۔ امسال فروری کے آغاز میں مجھے کاشت کے لیے مکئی کے ہائبرڈ بیج کی ضرورت تھی، اس سلسلے میں مختلف ڈیلروں سے بات کرنے کا موقع ملا تو مجھے حیرانی ہوئی کہ مکئی کے بیج کے10 کلو کے تھیلے کی قیمت قریباً 12ہزار روپے تک پہنچ چکی ہے۔ مکئی پاکستان کی ایک اہم فصل ہے۔ پولٹری اور فیڈ کی صنعت کے لیے اسے بنیادی خام مال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے بیج کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ لمحہ فکریہ ہے۔ اس سلسلے میں جب فیڈرل سیڈ سرٹیفکیشن کے ایک افسرسے بھی بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہم دو نمبر بیجوں کے خلاف کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں۔ بیجوں کی قیمتوں کا کنٹرول ہمارے پاس نہیں۔ حکومت اگر بیجوں کی کوالٹی کے ساتھ ساتھ قیمتوں کا کنٹرول بھی ہمیں دے دے تو کسان کو ریلیف مل سکتا ہے۔ ہر ضلع کا زراعت آفسر مہنگے داموں بیج فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے۔ مگر زراعت افسران کارروائی کرنے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ نذرانے یا کچھ اور ہے۔ اگر حقائق کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ محکمہ زراعت کے اکثر افسران کسی نہ کسی صورت ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فوائد حاصل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے سرکاری اداروں کے تیارہ کردہ ترقی دادہ اقسام کے بیج ملٹی نیشنل کمپنیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ زراعت افسران کے اس فائدے کی صورت میں کسان بیچارہ مہنگے داموں کھاد، بیج اور زرعی ادویات خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔ ملک میں ڈی اے پی کھاد کی قیمت میں اضافے اور حکومتی سطح پر کسی بھی قسم کی سبسڈی نہ ملنے سے آئندہ کاشت ہونے والی فصلوں کی پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اس وقت ملک میں مکئی اور دالوں کی کاشت کا سلسلہ جاری ہے اور اپریل کے آغاز میں کپاس کی اگیتی کاشت بھی شروع ہو جائے گی۔ ہم تو پہلے ہی دالوں اور کپاس کے حوالیسے خود کفیل نہیں  ہیں۔ اگر ان فصلوں کی مزید پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے تو کیا ہم ایسی صورتحال کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں سالانہ قریباً 22 لاکھ ٹن سے زائد ڈی اے پی کھاد استعمال ہوتی ہے۔ پنجاب چونکہ زراعت کے حوالے سے زیادہ ذرخیز صوبہ ہے، اس لیے یہاں ڈی اے پی سمیت دیگر کھادوں کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ حکومتی سطح پر ڈائی امونیم فاسفیٹ (ڈی اے پی) کھاد کی قیمت کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی وجہ سے ملک کے چند بڑے ادارے ہی اسے بیرون ممالک سے منگواتے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے سال 2020ء کے آخری دو ماہ میں ڈی اے پی کھاد قریباً 3800 روپے میں فروخت ہو رہی تھی، مگر 2021ء کے پہلے ماہ میں ہی یہ بڑھ کر 4200 روپے تک جا پہنچی اور اب ایک بار پھر اس کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس وقت ڈی اے پی کھاد قریباً 5 ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو کسان بیچارے کے فی ایکٹر اخراجات میں اضافہ ہونے سے منافع کم ہو جائے گا۔ ملک کے بڑے بڑے سرمایہ دار تو کسان سے گنا، مکئی، آلو، کپاس اور دیگر زرعی اجناس خرید کر ان سے بھرپور منافع حاصل کر رہے ہیں۔ مگر کسان بیچارہ مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔ اگر انہی سرمایہ داروں  کو مڈل مین کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ زرعی اجناس جب کسان کے پاس ہوتی ہیں تو انہیں سستے داموں خرید کیا جاتا ہے مگر جب یہی اجناس مڈل مین یا آرھتی کے ہاتھ آتی ہیں تو فوراً مہنگی ہو جاتی ہیں۔ آخر ایسا کب تک چلے گا؟، حکومت وقت کو ہنگامی بنیادوں پر کسانوں کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمسایہ ملک بھارت کے حالات تو سب کے سامنے ہیں۔ میڈیا نے یہاں بھی کسانوں کو باشعور کر دیا ہے۔ پاکستان میں بھی کسان آئے روز کے معاشی استحصال سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ہمارا کسان بھی پارلیمنٹ ہاؤس جانے والے سب راستوں پر دھرنا دیے بیٹھا ہو گا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں تو کسانوں کے دھرنے ویسے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اتنی دیر ہو جائے کہ کسان احتجاج کے ایسے سلسلے کا آغاز کردیں کہ پھر کسانوں کے سونامی کو کوئی بھی طاقت روک نہ سکے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے