نورالدین ابوالقاسم محمود ابن عمادالدین زنگی، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2021؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
نورالدین ابوالقاسم محمود ابن عمادالدین زنگی، زنگی سلطنت کے بانی عمادالدین زنگی کا بیٹا تھا جس نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نورالدین فروری 1118؁ء میں پیدا ہوئے اور 1146؁ء سے 1174؁ء تک 28 سال حکومت کی۔ سلطان نورالدین زنگی کے والد عمادالدین زنگی کا شمار اسلامی تاریخ کی اہم شخصیات میں ہوتا ہے اور نورالدین زنگی کی شخصیت کو سمجھنے کیلئے عمادالدین کے کارناموں اور اُن دنوں کے حالات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے جن حالات میں نورالدین نے پرورش پائی۔ حضرت عمرؓ کے دور میں مسلمانوں نے پہلی مرتبہ بیت المقدس شریف کو فتح کیا تھا۔ تب سے لے کر 1098؁ء تک یہ مسلمانوں ہی کے قبضے میں رہا۔ عیسائیوں کے تمام مذہبی اور مقدس مقامات مسلمانوں کے علاقوں میں تھے۔ بیت المقدس شریف عیسائیوں کیلئے بھی مقدس جگہ ہے کیونکہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس لیے عیسائیوں نے مسلمانوں سے بیت المقدس کا قبضہ واپس لینے کیلئے جھوٹا پروپیگنڈہ کیا کہ بیت المقدس میں عیسائیوں کے ساتھ بہت ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ حضرت عمرؓ کے دور سے لے کر صلیبی جنگوں کے آغاز تک بیت المقدس میں کسی بھی عیسائی کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ ہی کسی عیسائی پر کوئی ظلم کیا گیا۔ عیسائی اور یہودی کئی برس تک مسلمانوں کے زیرسایہ اتنے امن وسکون سے رہے کہ کہیں بھی مذہبی تعصب کی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔ ان برسوں میں مسلمانوں نے عیسائیوں کے ساتھ رواداری کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی کہ جسے دنیا آج تک یاد کرتی ہے۔ بیت المقدس شریف کا قبضہ کھو دینے کے بعد پوری امت مسلمہ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اب مسلمانوں کو پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ عیسائی ایک حقیقی خطرہ بن کر ان کے گھروں میں داخل ہوچکے ہیں۔ 1099؁ء میں بیت المقدس شریف پر قبضے کے بعد تقریباً 10 سال تک مسلمان کوئی مربوط مزاحمت نہ کرسکے۔ پوری مسلمان دنیا میں اعلان جہاد کیا گیا اور مجاہدین کے دستے تیار ہونے لگے۔ مودودؒ، عمادالدین زنگیؒ، نورالدین زنگی، اسدالدین شیرکوہؒ اور آخر میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ امت مسلمہ کی آبرو کی حفاظت کیلئے میدانِ جنگ میں اترے اور صدیوں تک صلیبیوں کیلئے دہشت کی علامت بن گئے۔ عیسائیوں کے قبضہ سے بیت المقدس واپس لینے کیلئے عیسائیوں کے خلاف جہاد کرنے والے سپہ سالاروں میں عمادالدین وہ پہلا مرد مجاہد اور عظیم سپہ سالار تھا جس نے فرنگی سلطنت کے مضبوط و مستحکم قلعے میں شگاف ڈالا۔ ایسا شگاف جسے فرنگی بھر نہ سکے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ یہ شگاف بڑھتا گیا حتیٰ کہ یہ قلعہ زمین بوس ہوگیا۔ عمادالدین زندگی بھر عیسائیوں کے خلاف بیت المقدس کی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ عیسائیوں نے عمادالدین زنگی سے جان چھڑوانے کیلئے ایک سازش تیار کی۔ اس مقصد کیلئے ایک ترک غلام کو پیسے دے کر اس بات پر راضی کیا گیا کہ وہ عمادالدین زنگیؒ کو شہید کرے گا۔ تقریباً 1146؁ء میں ترک غلام کے ذریعے عمادالدین زنگیؒ کو شہید کروادیاگیا۔ 1146؁ء میں نورالدین زنگیؒ اپنے والد عمادالدین زنگیؒ کی جگہ زنگی سلطنت کے تخت پر بیٹھے اور والد صاحب کے مشن کو جاری رکھنے میں مصروف رہتے ہیں جو اُن کے باپ نے شروع کیا تھا۔ سلطان نورالدین ایک عظیم الشان سلطنت کا فرمانروا اور ایک ایسا درویش انسان تھا کہ جس کی راتیں مصلےٰ کی پشت پر گزرا کرتی تھیں اور سارا دن میدان جہاد میں۔ وہ عظمت و کردار کا ایک عظیم پیکر تھا جس نے اپنی نوک شمشیر سے تاریخ اسلام کا ایک روشن باب لکھا۔ سلطان نورالدینؒ رات کا بیشتر حصہ عبادت میں گزارتے تھے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ نورالدین زنگیؒ، حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کے بعد امت مسلمہ کے متقی ترین سربراہ تھے۔ اُن کا حضورﷺ سے اتنا گہرا روحانی تعلق تھا کہ جس کی صرف ایک مثال آج تک مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی ہوئی ہے۔ نورالدین زنگیؒ ہی وہ خوش نصیب ترین سپہ سالار ہیں کہ جنہوں نے اس دور میں ایک خواب دیکھا کہ جس میں حضورﷺ تشریف لائے ہیں اور نورالدین زنگیؒ کو حکم دے رہے ہیں کہ مدینے کا سفر کرو وہاں پر دو افراد مجھے ستا رہے ہیں۔ سلطان نورالدین زنگیؒ کو یہ خواب مسلسل تین دن سے آرہا تھا۔ نورالدین زنگیؒ کو سکون نہیں مل رہا تھا اور وہ اسی بارے میں سوچ رہے تھے کہ میرے ہوتے ہوئے میرے آقا میرے نبیﷺ کو کون ستارہا ہے؟ چنانچہ اُنہوں نے چند ساتھی اور سپاہی لے کر دمشق سے مدینے جانے کا ارادہ فرمایا۔ اس وقت دمشق کا مدینہ سے راستہ تقریباً 20 سے 25 دن کا تھا۔سلطان نورالدین زنگیؒ نے آرام کیے بغیر یہ راستہ 16 دن میں طے کیا اور مدینہ پہنچ کر آپ نے مدینہ آنے اور جانے والے تمام راستے بند کروادئیے اور تمام خاص و عام کو اپنے ساتھ کھانے پر بلایا۔ دعوت پر لوگ آرہے تھے اور جارہے تھے، آپ ہر چہرہ دیکھتے مگر آپ کو وہ چہرے نظر نہ آتے۔ اب سلطان کو فکر لاحق ہوئی اور آپ نے مدینے کے حاکم سے فرمایا کہ کیا کوئی ایسا بھی ہے جو اس دعوت میں شریک نہیں۔ جواب ملا کہ مدینے میں رہنے والوں میں سے تو کوئی نہیں مگر دو مغربی زائر ہیں جو روضہ رسولﷺ کے قریب ایک مکان میں رہتے ہیں۔ تمام دن عبادت کرتے ہیں اور شام کو جنت البقیع میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں جو عرصہ دراز سے مدینہ میں مقیم ہیں۔ سلطان نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، دونوں زائر بظاہر بہت عبادت گزارلگتے تھے، ان کے گھر میں تھا ہی کیا؟ ایک چٹائی اور دو چار ضرورت کی اشیاء۔ سلطان اُن کے گھر گیا اور اُن سے ملنے کے بعد اُن کے گھر میں موجود اشیاء کو دیکھ رہا تھا کہ اچانگ چٹائی کے نیچے کا فرش لرزتا محسوس ہوا۔ آپ نے چٹائی کو ہٹا کر دیکھا تو وہاں ایک سرنگ تھی۔ آپ نے اپنے سپاہی کو سرنگ میں اترنے کا حکم دیا، وہ سرنگ میں داخل ہوا اور واپس آکر بتایا کہ یہ سرنگ نبی پاکﷺ کی قبر مبارک کی طرف جارہی ہے۔ یہ سن کر سلطان کے چہرے پر غیظ و غضب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ سادہ مزاج اہل مدینہ بھی ان بھیڑ نما بھیڑیوں کی یہ حرکت دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ آپ نے غضبناک لہجہ میں مخاطب ہوکر دونوں زائرین سے پوچھا کہ سچ بتاؤ کہ تم کون ہو اور اس ناپاک حرکت سے تمہارا کیا مقصد ہے؟ حیل و حجت کے بعد اُنہوں نے بتایا کہ وہ نصرانی ہیں اور اپنی قوم کی طرف سے تمہارے پیغمبرﷺ کے جسم اقدس کو چوری کرنے پر مامور کیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر اور کوئی ثواب کار نہیں ہے لیکن افسوس کہ عین اس وقت جب ہمارا کام بہت تھوڑا باقی رہ گیا تھا تم نے ہمیں گرفتار کرلیا۔ سلطان یہ سن کر رونے لگے اور اُسی وقت اُن دونوں کی گردنیں اُڑا دی گئیں۔ سلطان روتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ ”میرا نصیب کہ پوری دنیا میں اس خدمت کیلئے اس غلام کو چنا گیا“۔ سلطان خود اس سرنگ میں گئے اور دوسرے کنارے پر پہنچے تو دیکھا کہ سرنگ حضورﷺ کی آرام گاہ تک پہنچ گئی تھی اور آپﷺ کا قدم مبارک کھل گیا تھا۔ سلطان نے قدم مبارک چوم کر اس سرنگ کو بھروادیا۔ اس ناپاک سازش کے بعد ضروری تھا کہ ایسی تمام سازشوں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جائے۔ سلطان نے معمار بلائے اور قبر اقدس کے چاروں طرف خندق کھودنے کا حکم دیا یہاں تک کہ پانی نکل آئے۔ سلطان کے حکم سے اس خندق میں پگھلا ہوا سیسہ بھردیا گیا۔ سیسے کی یہ خندق آج بھی روضہ رسولﷺ کے گرد موجود ہے اور ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس جلیل القدرانسان کے عشق رسولﷺ اور اس کی دینی غیرت کی گواہی دیتی ہے۔ ساتھ ہی سلطان نورالدین زنگیؒ نے روضہ پاک کے قریب ایک چبوترہ بنواکروہاں پر مستقل سپاہیوں کا پہرا کھڑا کردیا۔ صدیوں تک اس چبوترے پر سپاہی روضہ پاک کی حفاظت کیلئے پہرا دیتے رہے۔ آج کے دور میں وہ سپاہی تو وہاں نہیں ہیں لیکن بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے پاس بنا ہوا وہ چبوترہا آج بھی قائم ہے اور مسجد نبوی میں حاضری دینے والے مسلمان اس پر نماز پڑھتے ہیں۔ سلطان نورالدین زندگیؒ نے بیت المقدس کو فتح کرنے کیلئے بہت کوشش کی لیکن آپ بیت المقدس کی فتح کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے۔ مگر آپ نے مسجد اقصیٰ کیلئے بہت محبت اور پیار سے ایک انتہائی خوبصورت منبر بنوایا اور اس منبر کو رکھ چھوڑا تاکہ جب بیت المقدس شریف فتح ہو اس منبر کو مسجد اقصیٰ میں نصب کیاجاسکے مگر یہ سعادت سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو 1187؁ء میں نصیب ہوئی۔ آج بھی اہل اسلام سلطان نورالدین زنگیؒ کا نام نہایت محبت و احترام سے لیتے ہیں اور ان کا شمار ان نفوس قدسی میں کرتے ہیں جن پر سیدالبشر نے خود اعتماد کا اظہار فرمایا اور ان کے محب رسولﷺ ہونے کی تصدیق فرمائی۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے