پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سو سالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمر ہے۔

تحریر: شیخ محمد انور 2023؁ء
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
پاکستان کا قیام، برطانوی سامراج کے خلاف برعظیم کے مسلمانوں کی دو سو سالہ جدوجہد کا حاصل اور ثمر ہے۔
دنیا کے ہر ملک کے باسیوں کیلئے ان کا یومِ آزادی بہت احترام کا دن ہوتا ہے اور زندہ قومیں اپنے یومِ آزادی کو شایانِ شان طریقے سے مناتی ہیں۔ پاکستان کا وجود دو قومی نظریے کی بنیاد پر تین چار مخالف قوتوں سے لڑ کر عمل میں آیا تھا اس لیے اس کا یومِ آزادی اپنے اندر کئی اسباق رکھتا ہے۔ 14 اگست 1947؁ء کا دن ہماری زندگی میں سب سے اہم دن ہے۔اس دن ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرے۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی خوشیوں کا محور اور مرکز یہی دن ہے۔ ہمارا وطنِ عزیز پاکستان وہ وطن نہیں جو وراثت میں اس کے بسنے والوں کو ملا ہو بلکہ پاکستان کی بنیاد متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ہڈیاں اینٹوں کی جگہ، اور خون پانی کی جگہ استعمال ہوا ہے۔ اتنی گراں قدر تکلیف کا اندازہ صرف وہی لگا سکتا ہے جس نے تعمیرِ پاکستان میں اپنا تن، من، دھن، بیوی بچے، بھائی بہن، ماں باپ اور عزیزواقارب سب قربان کیے۔ پاکستان یونہی حاصل نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے حصول کیلئے لاکھوں مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا، کتنی ماؤں کے سامنے ان کے بچے قتل کردئیے گئے، کتنے باب سوم کے سامان ان کے خاندان کو مکانوں میں بند کرکے نذر آتش کردیاگیا، کتنی پاکدامنوں نے نہروں اور کنوؤں میں ڈوب کر پاکستان کی قیمت ادا کی، کتنے بچے یتیم ہوئے جو ساری عمر اپنے والدین کی شفقت کیلئے ترستے رہے۔ اس ملک کی وادیاں اپنے اندر فردوس کی دنیا لیے ہوئے ہیں۔ ہرے بھرے اور وسیع و عریض کھیت سونا اُگل رہے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ہمیں ہر قسم کی آزادی اور ہر طرح کا سامان، آسائش اور آرائش میسر ہے مگر ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ اس میں سلطان ٹیپو کا خون، سرسید کی نگاہِ دور بین، علامہ اقبال کا افکار، قائد اعظم کی جہدِ مسلسل اور دوسرے اکابرین کا آثار شامل ہے جن کا مقصد صرف اور صرف آزاد اور خود مختار اسلامی مملکت کا حصول تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کی اصل وجہ مسلمانوں کا اتفاق اور قائد اعظم کا خلوص تھا۔ ہندوؤں نے طرح طرح کی مکاریوں سے پاکستان کی مخالفت کی، انگریزوں نے بھی بہت رکاوٹیں پیدا کیں مگر خدا کا شکر ہے پاکستان بن کر رہنا تھا اور بن کر ہی رہا۔ دشمنوں نے قائد اعظم کی اس تجویز پر تحقیق کی اور اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ہمارا مطالبہ پاکستان حق و صداقت پر مبنی تھا۔ حق اپنے آپ کو منوا لیتاہے اور دشمنوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل جاتے ہیں۔ آج پاکستان اپنی عظمت کو دنیا میں تسلیم کروا چکا ہے۔ یومِ آزادی ہر سال ہم سے اسی عہد کی تجدید کرواتا ہے کہ ہم اس ملک کی حفاظت کریں گے، اس کی خدمت میں دن رات مصروف رہیں گے تاکہ پاکستان عالم اسلام اور اقوامِ عالم میں سب سے اعلیٰ ملک کے طورپر اُبھرے۔ آج ہمارے طلبہ و طالبات کو پاکستان کی تاریخ اور تحریک پاکستان سے متعلق اہم واقعات اور ان قربانیوں کا بہت کم علم ہے کہ جن کی بناء پر ہم نے یہ آزاد خطہ حاصل کیا تھا۔ یہ بات تو طے ہے کہ جو قوم اپنی تاریخ بھول جاتی ہے وہ بہت جلد کہے دوسری تاریخ میں گُم ہوجاتی ہے۔ تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے اور جو قوم اپنی تاریخ بھلا دیتی ہے وہ اپنا حافظہ کھو بیٹھتی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ تعلیمی اداروں کے سربراہان اپنے یہاں مؤرخین، علماء، ادباء و شعراء کو گاہے بگاہے دعوت دیں کہ وہ طلبہ و طالبات کے ساتھ تاریخ پاکستان کے بارے میں درس دیں تاکہ تحریک پاکستان کی یادیں تازہ کی جائیں اور مقصد وجود کے بھولے ہوئے سبق کو تازہ کیا جاسکے۔ یہ جو آزادی ہمیں ملی ہے یہ اللہ ربُ العزت کا احسانِ عظیم ہے اور اس ملک اور آزادی کی قدر کرنا اور اپنے وطن کے دفاع کیلئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنا ضروری ہے۔ برصغیر میں مسلمان محمد بن قاسم کے ساتھ داخل ہوئے لیکن محمد بن قاسم کے اثرات سندھ اور ملتان تک ہی محدود رہے اور کچھ عرصے کے بعد وہ بھی دھندلاگئے لیکن جب شمال مغرب کی طرف سے مسلمان برصغیر میں داخل ہوئے تو ایک تو ان کے اثرات ہندوستان کے آخری کونے تک جاپہنچے دوسرے یہ اثرات مدت تک قائم رہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک حصہ تو ان فاتحین پر مشتمل ہے جو عربوں اور ترکوں کے ساتھ اس سرزمین میں داخل ہوئے، دوسرا اور بڑا حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے مقامی طور پر اسلام قبول کیا۔ کبھی یہاں غزنویوں کی حکومت قائم ہوتی ہے تو کبھی غوریوں کی، کبھی خاندان غلامان برسراقتدار آتا ہے تو کبھی سادات خاندان تخت پر قابض ہوجاتا ہے۔ آخری دور میں پٹھانوں اور مغلوں کے درمیان چپقلش جاری رہی۔ شیرشاہ سوری جس نے ہمایوں کو شکست دے کر ہندوستان سے بھگا دیا تھا ایک پٹھان بادشاہ تھا لیکن اس کی اولاد پھر مغلوں سے شکست کھا گئی اور آخری حکمران خاندان جس سے انگریزوں نے حکومت چھینی مغلیہ خاندان ہی تھا۔ یہ مسلمان خاندان ایک دوسرے سے برسرپیکار ہوتے ہوئے بسااوقات ہندوؤں سے بھی مدد لیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر اکبر اور اورنگزیب عالمگیر کی فوج میں بہت سے ہندوراجے بھی شامل تھے جو خود راجپوت ریاستوں کے خلاف لڑتے رہے۔ اس لیے مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں ہندو مسلم سوال زیادہ ابھر کر سامنے نہیں آیا۔ البتہ جب مغلیہ خاندان کمزور پڑا اور ان کے مقابلے میں مرہٹوں نے زور پکڑا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع ہوئے تو شاہ ولی اللہ نے حضرت احمد شاہ ابدالیؒ کو باقاعدہ دعوت دے کر ہندوستان مدعو کیا۔ احمد شاہ ابدالی کے نام اپنے خط میں یہی لکھا کہ یہاں مسلمانوں کا وجود خطرے میں ہے اور ہندو انہیں نیست و نابود کرناچاہتے ہیں۔ چنانچہ احمد شاہ ابدالی نے افغانستان سے آکر پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کے کئی گنا بڑے لشکر کو شکست دی اور اس طرح کچھ عرصہ کیلئے مسلمانوں کا وجود محفوظ ہوگیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ احمد شاہ ابدالی کے وقت دہلی کا مغلیہ حکمران خود مرہٹوں کی پناہ گاہ میں آچکا تھا اور پانی پت کی تیسری لڑائی میں اس کی ہمدردیاں ابدالی کے بجائے مرہٹوں کے ساتھ تھیں۔
آج میں اپنے ملک کی آزادی پر بے حد اطمینان اور خوشی محسوس کررہا ہوں اور تمام پریشان کن حالات کے باوجود اپنے پرعزم جذبات اور حوصلوں سے کچھ باتیں آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ کسے خبر نہیں کہ 14 اگست 1947؁ء میں ہمارا پیارا ملک پاکستان ہندوؤں اور انگریزوں کے ناپاک چُنگل سے آزاد ہوا اور یہاں کے بسنے والے سبھی رنگ و نسل کے لوگوں کو آزادی کی زندگی میسر آئی۔ آزادی انسان کا فطری حق ہے، انسان اپنے بنانے والے خالق حقیقی کے سوا کسی کی غلامی قبول نہیں کرسکتا، یہ اس کے مزاج کے خلاف ہے، انسان صرف اور صرف اللہ ربُ العزت کی بندگی اور غلامی کرنے کا مکلف ہے بلکہ اس کیلئے اللہ کی غلامی باعث فخر ہے، اس لیے کہ وہ مالک سب سے بڑا ہے، سب سے زیادہ طاقتور ہے، سب سے زیادہ رحم کرنے والا اور سب سے بڑا مہربان ہے۔وہی رزق دیتاہے، وہی نوازتا ہے، وہی عزت دیتا ہے، وہی ذلت دیتا ہے، وہی بیمار کرتا ہے، وہی شفاء دیتا ہے، غرض یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے لیکن اگر کوئی انسان اپنے جاہ و جلا اور مال و دولت کے باعث کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے لوگ آئے جنہوں نے چاہا کہ اس دنیا کو اپنا غلام بنا کر رکھا جائے، بڑے بڑے بادشاہ گزرے جنہوں نے چاہا کہ انسانوں سے اپنی پرستش کرائیں، لیکن بالآخر وہ ناکام و نامراد ہو کر رہ گئے، ذلت و رسوائی اور قوموں کی بغاوت نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا، خدا کے عذاب نے انہیں ایسا جکڑا کہ وہ رہتی دنیا تک کیلئے نشان عبرت بن گئے۔
مگر افسوس کہ جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیاگیا تھا 76 سال گزرجانے پر بھی اسلامی جمہوری پاکستان کہلوانے کے قابل نہیں۔ پاکستان حاصل کرنے کیلئے جنہوں نے قربانیاں دیں ان کی نسلوں کو دووقت کی روٹی کی فکر لاحق ہے۔ حکمران عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے ہیں، ایسے لوگوں کو پاکستان کی قدرومنزلت کا کیا احساس ہوگا جنہوں نے پاکستان کی آزادی کیلئے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا۔ اگر ہم اپنا خود احتساب کریں تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہم نظریات کی پٹڑی سے اتر چکے ہیں، ہمارے جذبے صرف اپنے مفادات کیلئے محدود ہوکررہ گئے ہیں، کیا ہم نے سوچا کہ پاکستان بننے کے 24 سال بعد 1971؁ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوگئے اور مغربی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش آج ہم سے کتنا آگے نکل گیا ہے۔ اُس ملک کی معیشت ہم سے کتنے گنا مضبوط ہے؟ ہماری بدقسمتی کہ ہماری کرنسی آج افغانستان سے بھی کم ہے، آج پاکستان میں ڈالر 262روپے کا اور افغانستان میں ڈالر 80 روپے کا، ہمارے ملک کے سیاستدانوں، معیشت دانوں اور عدلیہ کے معزز جج صاحبان اس ملک کے حال پر رحم کریں۔ اس ملک میں قانون کا بول بالا کریں، دراصل ہماری تباہی کی بنیادی وجہ لاقانونیت ہے اور چائنہ اور ملیشیاء کی ترقی کی بنیادی وجہ حب الوطنی اور قانون کی پاسداری ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ چائنہ سے قرضہ لینے کی بجائے دو چار جج چائنہ سے لے لیے جائیں اس ملک کو سُدھار دیں گے۔ اس ملک میں اب بے رحم احتساب ہونا چاہیے۔ افسوس پاکستان میں نہ تو قانون نام کی کوئی چیز ہے اور نہ ہی قانون کی پاسداری ہے جس کی وجہ سے آج دن بدن ہم ذلت کی دلدل میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ جب تک ہم اپنا احتساب نہیں کریں گے اس وقت تک ان مقاصد اور تقاضوں کو پورا نہیں کرسکیں گے جنہیں پورا کرنے کی ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو انشاء اللہ پاکستان قائم و دائم رہے گا۔ اگر ہم پاکستان کی عظمت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کے اصل مقاصد کو سامنے رکھیں اور ان مقاصد کی روشنی میں تعمیر پاکستان کا کام کریں۔ یاد رکھیں کہ کام ہمیں ہی کرنا ہے۔ ہم نے ہی مل کر اپنے ملک کو سنوارنا ہے۔
پاکستان کے طو ل و عرض میں آج جشن آزادی منایا جارہا ہے،طورخم سے لیکر چمن تک، چمن سے تافتان تک، تافتان سے کراچی اور کراچی سے چک امرو تک پاکستانی قوم اس حوالے سے تقریبات منعقد کرے گی اور ہر شخص اپنے شعور کے مطابق آج کا دن منائے گا۔ 14 اگست 1947؁ء کی تاریخ برصغیر پاک و ہند کی ناقابل فراموش تاریخ ہے۔ اس روز اسلامیان ہند نے ثابت کردیا کہ وہ کسی ایسی متحدہ قومیت کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں جس میں ان کا اسلامی تشخص دھندلا کر رہ جائے۔ بہرحال پاکستان کیسے بنا اور آزادی کی تحریک کیسے چلی یہ تو وہ لوگ ہی بہتر طور پر سمجھتے اور جانتے ہیں جنہوں نے یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا دیکھا ہے۔ تحریک پاکستان کے وقت مسلمانانِ ہند کا جذبہ جواں تھا اور اس نے اپنے محبوب قائد محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں طویل جدوجہد اور بے بیش بہا قربانیاں دے کر برصغیر کے ہندوؤں اور فرنگیوں سے آزادی حاصل کی تھی۔ آج کے دن چونکہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک بے مثال تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں اپنے لیے پاکستان کی صورت میں آزاد جمہوریت اور اسلام کے سیاسی ومعاشی عدل کا گہوارہ حاصل کیا تھا۔ اس لیے ہمیں آج کے دن اپنی ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ دراصل 14 اگست ”یوم آزادی“ ہر پاکستانی کیلئے ایک پیغام مسرت لاتا ہے اور تجدید عہد کرنے اور اس پر عمل کرنے کی یاد دلاتا ہے کہ پاکستانیو! یہ دن کیوں اور کیسے آیا؟ اس دن کی پاکستانی قوم میں اتنی اہمیت کیوں ہے؟ اس دن ہم پاکستانیوں کو ایک صبح روشن کی نوید ملی اور سورج کی طرح روشن پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس دن غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گئیں اور ہمیں آزادی نصیب ہوئی۔ یہ دن ہمیں لاکھوں مسلمان بھائیوں، بزرگوں، ماؤں اور بہنوں کی قربانیاں دینے کے بعد دیکھنا نصیب ہوا۔ اتنی بڑی قربانی اس لیے دی گئی کہ ہم آزاد، خوشحال اور اسلامی رسم و رواج کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اس دن کی صبح نو دیکھنے کیلئے اپنا تن، من، دھن قربان کیا۔ ہمارے عظیم قائد محمد علی جناحؒ نے انتہائی نامساعد حالات میں جرأت اور عزم و ہمت سے ہندوؤں اور انگریزوں کے جال میں جکڑی ہوئی قوم کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے حصول پاکستان کیلئے بے مثال جدوجہد کی۔ عزم و استقلال کے پیکر قائد اعظمؒ ان تمام رکاوٹوں کو روندتے ہوئے مسلمانوں کے اس عظیم قافلے کو منزل مقصود پر لے گئے، یہ منزل تھی قیام پاکستان۔ اس قافلے میں ہمارے مفکرین، علامہ اقبالؒ اور دیگر لیڈروں، اولیاء کرام، طالبعلموں اور مزدوروں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تحریک پاکستان کی کامیابی اور کامرانی کیلئے انتھک محنت کی۔ جس کے نتیجے میں 14 اگست 1947؁ء کو پاکستان ایک مسلم ریاست کی شکل میں معرض وجود میں آیا۔ آج کے دن ہم عہد کرنا چاہیے کہ ہم لسانیت، صوبائیت، فرقہ واریت اور شرپسندی جیسے مذموم کاروبار کا خاتمہ کریں گے۔ یوم آزادی پر ملک اور قوم کو مستحکم بنانے کا عہد کرنا چاہیے۔

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے