پاکستان کے بچے مستقبل کے معمار 2021

تحریر: شیخ محمد انور(ریلویز) 2020؁ء

ای میل: sheikhmanwar@gmail.com

فون نمبر: 0333-2250719

پاکستان کے بچے مستقبل کے معمار

خزاں زدہ پتوں کی طرح فٹ پاتھوں پر لڑھکتے پھرتے ہیں۔

ہمارے حکمران خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟

گزشتہ دنوں دامام سے آئے ہوئے اپنے دوست ضیغم عادل رضوی کے ہمراہ فوڈ سٹریٹ لاہور میں کھانا کھانے کیلئے گیا جنہوں نے کراچی میں سعودی عرب کے تعاون سے 350 ملین ڈالر سے التویرقی سٹیل مل لگائی ہے۔ ابھی ہم میز پر بیٹھے ہی تھی کہ ایک نوعمر بچہ ہمارے میز کے قریب آن کھڑا ہوگیا اور کہا، بابوجی! پالش کرالو! میں نے نگاہ اُٹھا کر دیکھا تو ایک سات سال کا بچہ بغل میں لکڑی کی صندوقچی دبائے کھڑا تھا۔ میں نے اس کا جائزہ لیا اُس نے پھٹی پرانی قمیض اور شلوار پہن رکھی تھی۔ ہاتھوں اور بازوؤں پر پالش کے دھبے تھے۔ اس کا گندمی رنگ دھوپ کی وجہ سے سیاہی مائل ہوگیا تھا۔ میں نے اُس کا جائزہ لیا تو اس نے اپنا سوال دہرایا۔ بابو جی! پالش کرالو۔ میں نے اس نوعمر بچے سے کہا، تم پالش کرتے ہو! پڑھتے کیوں نہیں؟ اس بچے نے کاٹھ کی صندوقچی کو اپنے کاندھے سے اتار کر ایک طرف رکھا اور بے ساختہ کہا، بابو جی! کتابیں کہاں سے خریدیں؟ فیسیں کون دے؟میں نے پھر سوال کیا: تمھارے والد کیا کرتے ہیں؟ تمھارا کوئی بڑا بھائی بھی تو ہوگا۔ اس بچے کی آنکھوں میں نمی آگئی، تھکن سے نڈھال چہرے پر گلیوں بازاروں کی دھول جمی تھی۔ اس نے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا کہ ابو جی اکثر بیمار رہتے ہیں، بڑے بھائی ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں جو گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں اور بس۔۔۔کیا بتاؤں۔۔۔ اس کی آنکھوں میں اداسی کی لکیریں اُبھرآئیں اور کچھ دیر بعد وہ بچہ وہاں سے چلا گیا۔ وہ تو چلا گیا مگر اپنے پیچھے ایک الجھن اور ایک پیچیدہ سوال چھوڑ گیا۔ وہ سوال پاکستانی نرسری کے مستقبل کا تھا۔ بچے جن کو ”فادر آف مین“ کہا گیا ہے، وہ جوان ہوکر سایہ دار درختوں میں ڈھلیں، پھل پھول لائیں اور اپنی قوم و ملک اور وطن کیلئے لاکھوں خوشیوں کا سامان پیدا کریں گے مگر ان بچوں کی حالت کو دیکھا جائے تو ہمیں یوں لگے گا کہ یہ بچے خزاں زدہ پتوں کی طرح گلیوں اور فٹ پاتھوں پر لڑھکتے پھرتے ہیں اور ہوا کے جھونکے جدھر چاہتے ہیں اُن کو اپنے ساتھ اُڑا لے جاتے ہیں۔ یہی بچے جن کو حاصل کرنے کیلئے مائیں مزاروں کا رُخ کرتی ہیں، یہی بچے جو ماؤں کے لخت جگر، آنکھوں کے تارے، چاند اور لال ہوتے ہیں۔ گلیوں، بازاروں اور گندے غلیظ ماحول میں آوارہ گردی کرنے والے، پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس غربت زدہ بچے جن کو چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں اور ورکشاپوں میں دیکھا جائے تو یوں گمان ہوتا ہے کہ جیسے ماؤں نے اپنے بچوں کو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کی طرح اپنے گھر کے آنگنوں سے باہر پھینک دیا ہے۔ یہ اتنہائی قیمتی سرمایہ، ہماری بے توجہی، لاپرواہی اور عدم دلچسپی کی بناء پر خاک میں مل جاتا ہے اور خاک کے سینے میں اترا ہوا یہ سرمایہ جب کوئی منفی شکل اختیار کرتا ہے تو پھر یہ پوری سوسائٹی کیلئے سر درد بن جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ سے زائد بچے، مخصوص حالات، ناکافی سہولیات، والدین کی بے توجہی اور غربت و افلاس کی بناء پر تعلیم کی بنیادی سہولتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ اگر اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ہمارے بچے آوارہ گردی کیوں کرتے ہیں یا اس کے کیا اسباب ہیں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آوارہ گردی کرنے والے بچوں کی اکثریت غریب اور متوسط طبقوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے والدین گھریلو کام کاج اور روزمرہ کی ضروریات مہیا کرنے کے چکر میں اس حد تک پھنس جاتے ہیں کہ انہیں بچے بھول جاتے ہیں اور مسائل اُبھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ ان طبقات میں کثرت اولاد ہے جس کی بناء پر والدین بچوں کے تعلیمی و تربیتی امور پوری طرح کنٹرول نہیں کرسکتے۔ ایسے بچوں میں زیادہ تر ۴ سے ۸ سال تک کے بچے شامل ہوتے ہیں جو گلیوں، بازاروں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ کوئی کانچ کی گولیوں سے جی بہلاتا ہے تو کوئی لٹو چلاتا ہے، اسی طرح کوئی گندی نالیوں میں ہاتھ پاؤں مارتا ہے، غرض یہ خاک اگلتی گلیاں بچوں کے ذہنوں پر بداخلاقی کی مہر ثبت کردیتی ہیں۔ اُن کی زبانوں پر گالیاں ہوتی ہیں۔ یہ ماحول جہاں بچوں کی تعلیمی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری قبول کرنے کی صلاحیتوں کو سلب کرتا ہے وہاں بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی بچہ اغواء ہوجاتا ہے یا کسی تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گھر سے دور چلاجاتا ہے۔ پاکستانی بچوں کی قومی دولت کی دوسری قسم ایسے بچوں کی ہے جو سکولوں کا رُخ کرنے کی بجائے محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں۔ ایسے بچے ۶ سے ۴۱ سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی بچہ پالش کرتا ہے، کچھ بچے سڑکوں پر ماسک اور مفلر بیچتے نظر آتے ہیں، کوئی ریڑھی یا چھابہ لگاتا ہے تو کوئی چھوٹے چھوٹے تنوروں، ورکشاپوں اور خراد کی دکانوں یا عام گھریلو ملازموں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں جن کو والدین اپنی کمزور معاشی حالت کی بناء پر روزمرہ کے اخراجات میں ہاتھ بٹانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ یہ بچے ہوٹلوں میں ”ویٹر“ کے طور پر نیز ورکشاپوں، دکانوں میں بطور ”شاگرد“ کام کرتے ہیں۔ مالکان ان ننھی جانوں کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کرتے ہیں اور بچوں کو کام سکھلانے کے لالچ میں کئی کئی سال تک تنخواہ یا مزدوری نہیں دی جاتی حالانکہ یہی بچے ایک آدھ سال بعد پورا کام کرنے کے اہل ہوجاتے ہیں۔ بصورت دیگر ان بچوں کو کچھ مزدوری بھی دی جاتی ہے تو وہ ۰۵ سے ۰۰۱روپے تک روانہ ہے۔ فیکٹریوں یا اداروں میں ۲۱ سال تک کے بچوں سے کام لینا جرم ہے کیونکہ یہ چائلڈ لیبر میں آتے ہیں لیکن مالکان سستی مزدوری کے لالچ میں بنیادی قانونی پابندیوں کو پامال کرتے رہتے ہیں۔ ہوٹلوں اور دکانوں میں کام کرنے والے بچوں کے سلسلہ میں اندوہناک پہلو یہ ہے کہ ہوٹلوں والے اور دوسرے دکاندار ان بچوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لیتے ہیں اور ذرا سی غلطی پر ان کو مارتے پیٹتے اور گالیاں دیتے ہیں۔ بعض ہوٹل مالکان یا اُن کے بالغ ملازمین ان نابالغ بچوں کے ساتھ ایسا غیر اخلاقی فعل بھی کرتے ہیں جس کا ذکر اگر کھلے الفاظ میں کیا جائے تو رونگٹے گھڑے ہوجائیں۔ یہ ننھے مزدور کئی کئی وقت کے بھوکے ہوتے ہیں اور ان کو دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی صحت مند اور دلکش چہرہ نظر آئے گا۔ ان کے چہرے کالے زدہ ہوچکے ہوتے ہیں اور ان کے چہروں پر اداسی اور پریشانی کی لکیریں دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ ننھے بچے کئی نسلوں کے مصائب کا بوجھ اپنے کمزور ناتواں کاندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہوں۔ میرے نزدیک اگر ہوٹلوں یا دکانوں کا سروے کیا جائے تو یقینا بہت سے ایسے بچے مل جائیں گے جو اپنے گھروں سے بھاگ نکلتے ہیں یا جن کو اغوا کرکے فروخت کردیا جاتا ہے۔ اس طرح بعض بچے والدین کی عدم دلچسپی، مارپیٹ، سکولوں میں حوصلہ افزاء ماحول نہ پاکر بری صحبت کے نتیجے میں گھروں سے بھاگ جاتے ہیں اور دوسرے شہروں میں آکر سماج دشمن عناصر کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو انہیں جیب کاٹنے یا چرس اور افیون فروخت کرنے کے گُرسکھا کر ان کے ذہن کے سادہ، صاف اوراق پر جرائم کی سیاہ لکیریں کھینچ دیتے ہیں اور جب یہ بچے جوان ہوتے ہیں تو ان میں تمام برائیاں جڑ پکڑ چکی ہوتی ہیں اور یہی معصوم بچے معاشرے کے جرائم پیشہ افراد کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے بس سٹاپوں،سینما ہالوں، باغوں اور دوسری عام دلچسپی کی جگہوں پر پائے جاتے ہیں۔ اب سے کچھ برس پہلے گھر کے ہر فرد کو ایک مخصوص مقام اور اہمیت حاصل تھی، بچوں کو اخلاق سکھایا جاتا تھا، ان کو صحت و صفائی کے اصول اور آداب مجلس بھی سکھائے جاتے تھے۔ گویا بچوں پر فوری توجہ صرف کی جاتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ والدین کے مسائل بے پناہ ہیں اور والدین کی بچوں کے علاوہ دوسرے امور میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی بچے میں احساس محرومی کو جنم دیتی ہے۔ بچہ گھریلو محبت کی کمی محسوس کرتا ہے۔ گھر اس کو ایک ویران جزیرہ دکھائی دیتا ہے جہاں پر اُس سے محبت کرنے والا یا دلچسپی لینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ سکول ہو یا گھر، محبت یا شفقت ایک بنیادی جذبہ ہے جو بچوں کو کسی راہ پر چلانے کیلئے کارگرثابت ہوسکتا ہے لیکن ہمارے ہاں محبت کی بجائے بچوں میں خوف یا ڈر پیدا کرکے انہیں راہ راست پر چلانے کی سعی کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں دوسری قابل غور بات تعلیم کی مفید اور ضروری سہولتیں نہ ہونا بھی ہے۔ مغربی پاکستان میں نصف اور مشرقی پاکستان میں ۴/۳ حصہ تعلیم نجی سیکٹر میں ہے۔ نجی سیکٹر میں تعلیم اتنی مہنگی ہے کہ عام آدمی پرائیویٹ سکولوں کی طرف رجوع ہی نہیں کرتا کیونکہ بچوں کی فیسیں ادا کرنا اس مہنگائی کے دور میں بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اسی وجہ سے عام آدمی بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ان سکولوں میں بھی جن بچوں کے والدین بااثر ہوتے ہیں ان کو ہی داخلہ مل پاتا ہے اور باقی بچے داخلے کی نعمت سے بھی محروم رہتے ہیں۔ اس طرح بعض بچے سکولوں میں موزوں تعلیم نہ ملنے کے سبب راہ راست سے بھٹک جاتے ہیں۔ بعض بچے والدین کی مالی مجبوریوں کی بناء پر سکولوں میں داخل ہی نہیں ہوسکتے یا بعض والدین جان بوجھ کر اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل نہیں کرواتے۔ اس صورتحال سے نپٹنے کیلئے حکومت نے لازمی تعلیم کا حکم نامہ جاری کررکھا ہے لیکن اس قانون پر بھی پوری طرح عمل نہیں کیا جاسکا اور ملک میں ہزاروں بلکہ لاکھوں بچے پرائمری تعلیم ہی حاصل نہیں کرسکتے لیکن ان کے والدین کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی۔ پاکستان اور دوسرے ممالک میں خواندگی کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ پاکستان میں ایفروایشیاء تمام ممالک کی نسبت تعلیم پر قومی آمدنی کا سب سے کم حصہ خرچ کیاجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم پاکستانی بچوں کے مستقبل کو کیسے درخشاں بناسکتے ہیں؟ اس کیلئے ہمیں کئی پہلوؤں پر سوچ بچار کرنا ہوگی لیکن سب سے پہلے ہمیں اساتذہ، والدین، محکمہ تعلیم، محکمہ محنت اور دوسرے سماجی فلاحی اداروں میں یہ احساس بیدار کرنا ہے۔ وہ اپنی اپنی ذمہ داریوں سے خوش اسلوبی سے عہدہ برآ ہوں۔ ان میں یہ احساس پیدا ہو کہ انہوں نے ایک نئے پاکستان کی اور ایک عظیم پاکستان کی بنیاد رکھنی ہے اور اس کیلئے انھوں نے نئی نسلوں کو پورے خلوص کے ساتھ پروان چڑھانا ہے۔ اگر آج کے بچوں کو اچھی تعلیم، اچھا ماحول اور اچھی غذا نہ مل سکی تو پاکستان کی آنے والی نسلیں ذہنی، عقلی، فکری اور جسمانی طور پر کمزور ہونگی اور وہ نسلی و تہذیبی بنیادوں پر متصادم ہونے والے آئندہ زمانوں سے ٹکر لینے کے اہل نہ ہونگے۔ اس دور کے بچے پاکستان کی آئندہ سوسالہ تاریخ رقم کریں گے۔ اگر ان کو انتشار، بے یقینی اور بے اعتمادی کی اس راہ سے نکال کر کسی سیدھے راستے پر نہ چلایا تو خدا جانے یہ نسل پاکستانی معاشرے اور سماج کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر سروے کیا جائے اور جو بچے سکول نہیں جاتے اُن کے والدین کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اور بچوں کو داخلے کی باقاعدہ سہولتیں دی جائیں، نجی سیکٹر میں کام کرنے والے تعلیمی اداروں پر بھی سرکاری نگرانی ہونی چاہیے تاکہ اکثروبیشتر پرائیویٹ ادارے اپنی مرضی سے جب مرضی فیسیں بڑھادیتے ہیں اور کبھی فنڈز کے نام پر بھاری رقوم وصول کی جاتی ہیں۔ بچوں کیلئے صاف ستھرا ماحول پیدا کیا جائے تاکہ پارکوں میں کھیل کود سے ان کی صحت اچھی رہے۔ دکانوں، ورکشاپوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے نوعمر بچوں کو پوری تعلیمی سہولتیں مہیا کرنے کے ذمہ دار مالکان ہوں اور مالکان سکول ٹائم کے بعد ہوٹلوں یا دوسری جگہ پر ان سے محدود مقرر وقت تک کام لیں اور انہیں چھٹی کی سہولتیں بھی دی جائیں۔ مزدوری کرنے والے بچوں کے حقوق کی نگہداشت کی جائے اور ان پر عملدرآمد نہ کرنے والے مالکان کے خلاف سخت عبرتناک کاروائی کی جائے۔ بچوں کو جرائم کی تربیت دینے والے عناصر کو شدید سزائیں دی جائیں۔ محکمہ محنت اور تعلیم کے ایسے افراد جو رشوت یا کسی اور لالچ یا دباؤ کے تحت اپنے فرائض سے کوتاہی یا غفلت کریں ان کو سخت سزا دی جائے۔ دیہات اور شہروں میں زیادہ سے زیادہ سکول کھولے جائیں جن میں تعلیم کے علاوہ تکنیکی و فنی تربیت کا سامان بھی ہو۔ پالش کرنے والا بچہ تو چلا گیا لیکن بچے کی بات آج تک میرے کان میں گونج رہی ہے کہ میرا جرم کیا ہے؟

اس تحریر پر اپنی رائے کا اظہار کیجئے