تحریر: شیخ محمد انور 2020
ای میل: sheikhmanwarW@gmail.com
فون نمبر: 0333-2250719
پاکستان کے زیادہ تر افراد کسی نہ کسی ذہنی بیماری کا شکار ہیں۔
امیر سے امیر تر ہونے کی خواہش لوگوں کو ڈپریشن میں مبتلا کررہی ہے۔
مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں اور ذہنی امراض میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ذہنی دباؤ یا ڈپریشن کا مرض سب سے عام ہے۔ اسے ذہنی افسردگی بھی کہتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ آج کل ہمارے ہاں بہت ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک تو مہنگائی نے عام شخص کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور دوسرا یہ کہ نت نئی بیماریوں اور پریشانیوں نے انسان کا ذہنی سکون چھین لیا ہے اور رہی سہی کسر کرونا وباء نے پوری کردی ہے۔ پچھلے ایک دوسال میں مہنگائی میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب ایک متوسط درجے کا شخص اس مہنگائی کا مقابلہ نہیں کرسکتا تو اس کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا ذہنی سکون چھن جاتا ہے۔ بچوں کی فیس ”کچن کا خرچ“ ٹیکسوں کی بہتات، مکانوں کے کرائے اور دوسرے بے شمار اخراجات اس کے اعصاب کو تباہ کردیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹی وی اور اخبارات نے عوام کے اندر مقابلہ و مسابقت کا جذبہ پیدا کردیا ہے۔ جو لوگ دوسروں کے ہاں کاریں، ٹی وی، موبائل، فریج اور دیگر لوازمات دیکھتے ہیں اور خود ان سب چیزوں سے محروم ہوتے ہیں، اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ چیزیں انہیں بھی مل جائیں اور وہ اس کیلئے جائزوناجائز حربے اختیار کرتے ہیں۔ کچھ ہمارے ٹی وی پر کمپنیوں کے اشتہارات عوام کے دل میں اشیائے تعیش کی چیزیں خریدنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں، خواتین اور بچے ٹی وی سے اشتہارات دیکھ کر ان چیزوں کو خریدنے اور استعمال کرنے میں کافی پیسہ خرچ کردیتے ہیں، ان تمام چیزوں کا بوجھ کمانے والے ایک شخص پر پڑتا ہے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے۔ سوسائٹی کے ایک مقام تک پہنچنے کیلئے وہ دو دو نوکریاں کرتا ہے اور کماتے کماتے پس جاتا ہے اور پھر بھی گھر کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ ہر سطح کے لوگ اپنے مخصوص مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔ آدمی جتنا زیادہ معاشرے کی اونچی سطح تک پہنچتا ہے اسی حساب سے اس کے مسائل بھی بڑھتے ہیں۔ ایک محنت کش انسان جو دن بھر پسینہ بہاتا ہے لیکن روٹی کیلئے ترستا رہتا ہے اور کسان جو چلچلاتی دھوپ میں ہل چلاتا ہے مگر اس کے تن پر ڈھنگ کا کپڑا نظر نہیں آتا، خوانچہ فروش جو گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے مگر اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتا۔ درجہ چہارم کا ملازم سارا دن محنت کرتا ہے مگر اس کے پاس رہنے کیلئے گھر نہیں، کلاس تھری کا ملازم صبح سے شام تک ملازمت کرتا ہے مگر قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ایک عام انسان جو حلال رزق کماتا ہے اور اس کی جوان بیٹی گھر میں بیٹھے بیٹھے بوڑھی ہورہی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں، مہنگائی کا عالم یہ ہے کہ تنخواہ دار اور کم آمدنی والا طبقہ چیخ اُٹھا ہے،آٹا، دال، چینی ہر چیز کے نرخوں میں 50 فیصد اضافہ ہوگیا ہے، ہر روز گھی کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور ہر دوسرے روز سبزی کے بھاؤ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ کل جو دوائی پانچ روپے میں ملتی تھی آج دس روپے میں بھی میسر نہیں ہے۔ اگر قیمتوں کا یہی رجحان رہا تو عام آدمی پیٹ پر پتھر باندھے پھرے گا۔ ضروریات زندگی یونہی مہنگی ہوتی رہی تو شہریوں کیلئے جینا مشکل ہوجائے گا۔ جگہ جگہ پر ڈاکے پڑ رہے ہیں، قتل ہورہے ہیں، جرائم پھل پھول رہے ہیں، اغواء کی وارداتوں نے شہریوں کا سکون چھین لیا ہے۔ قبضہ گروپ کی سرگرمیوں نے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کردیا ہے۔ ناجائز فروشی میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے، مظلوموں کی حق تلفی پر کسی کی آنکھ میں آنسو نہیں آتے اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یتیموں اور بیواؤں کا مال کھانا حلال قرار دے دیا گیا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے بچے اور بچیوں کو منشیات کی لت لگ چُکی ہے۔ اشیائے ضرورت کی چیزوں کی قیمتیں بڑھ جائیں تو زندگی کی قدروقیمت گھٹ جاتی ہے۔ روٹی کا حصول مشکل ہوتوآدمی آدمی کو کھانے لگتا ہے، بازار تنگ ہوجائیں تو شرم و حیاء دُکانوں پر بکنے لگتی ہے، اناج چور بازاری میں چلا جائے تو دل درد سے خالی ہوجاتے ہیں اور جب ہر چیز مہنگی ہوتی ہے تو ایمان اور ضمیر کی حیثیت کوڑیوں کی ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں ہرگزرتے دن کے ساتھ چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوتاجارہا ہے، عورتیں اغواء ہوتی جارہی ہیں، جوان لڑکیوں کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں اور اس طرح کے کئی مسئلے مسائل ہیں جو ہر انسان کے دل و دماغ پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں جس کی وجہ سے لوگ دل اور اعصاب کی بیماریوں میں تیزی سے مبتلا ہورہے ہیں۔ تاجر طبقہ بھی اب محسوس کرنے لگا ہے کہ اسے امیر سے امیر تر ہونا چاہیے۔ اگر اس کی آمدنی میں کمی واقع ہوجاتی ہے تو وہ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ جب وہ اپنے ساتھ والے تاجر کو امیر سے امر تر ہوتے دیکھتا ہے تو وہ خود بھی ایسا ہی بننا چاہتا ہے۔ جب ایک شخص اپنا کاروبار بہت پھیلا لیتا ہے تو اس کی ذہنی پریشانیاں بھی اسی اعتبار سے وسعت اختیار کرلیتی ہیں۔ وہ بینک بیلنس کو بڑھانے کی کوشش کرتا رہتا ہے، غریب شخص تو رات کو سوجاتا ہے لیکن امیر شخص کو خواب آور گولیاں کھائے بغیر نیند نہیں آتی۔ آج کل میں ایک اور معاشرتی تبدیلی بھی دیکھ رہا ہوں اور وہ یہ کہ ہمارے خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر رہا ہے۔ پہلے اہل خانہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے اور مشترکہ طور پر رہنے سے ایک دوسرے کی مالی معاونت بھی ہوجاتی تھی لیکن اب یہ صورتحال نہیں رہی۔ خاندان ٹوٹ رہے ہیں، بیٹے والدین سے علیحدہ ہوکر اپنا الگ گھر بسارہے ہیں، اس لیے دکھ درد بانٹنے والوں کی تعداد بھی کم ہوگئی ہے۔ دیہات سے ہجرت کرنے والوں کی شرح بڑھنے سے خاندان منتشر ہورہے ہیں، تنہائی کا احساس بڑھ رہا ہے، اس لیے چھوٹی سی پریشانی بھی بڑی لگتی ہے اور ذہنی سکون ختم کرتی ہے۔ اب اغواء برائے تاوان کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس نے بھی لوگوں کو عدم تحفظ میں مبتلا کردیا ہے، ڈاکوؤں نے لوٹ کھسوٹ کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ بھی مقابلہ و مسابقت کا ایک حصہ ہے کیونکہ لوگ راتوں رات امیر بننا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں جس تیزی سے ذہنی اور نفسیاتی عوارض میں اضافہ ہورہا ہے وہ ہماری معاشرتی زندگی کا ایک تشویش ناک پہلو ہے۔ مادیت پرستی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے لوگوں کو ذہنی سکون سے محروم کردیا ہے۔ رشوت، سفارش اور کرپشن زوروں پر ہے، اب تو زہر بھی سستے داموں نہیں ملتا۔ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اُن کے گھروں کے دروازے کمزور کیوں ہوگئے ہیں۔ قتل، اغواء اور غنڈاگردی روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔
بس ”یکم مئی“ کو یہ لگتا ہے کہ مشہور ہوں میں
5 فروری یومِ یکجہتی کشمیر، کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا دن
پاکستانی قوم کو 23 مارچ کے جذبے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی قوم 23 مارچ کے دن کی اہمیت کو بھول چکی ہے۔
ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب موہنجوداڑو کو دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان ریلوے پریم یونین لاڑکانہ سیکشن کے صدر علی نواز ذرداری کی دعوت پر ریلوے اسٹیشن راھن پر آمد اور خطاب