تحریر: شیخ محمد انور
فون نمبر: 2250719-0333
ای میل: sheikhmanwar@gmail.com
چولستان: صدیوں کا سرسبز علاقہ پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔
ڈاکٹر سید وسیم اختر(ایم پی اے بہاولپور) کے ساتھ میرا گزشتہ تیس سال پرانا تعلق ہے۔ کئی بار اُنہوں نے مجھے چولستان آنے کی دعوت دی۔ اُن کا اصرار تھا کہ ہم ایک دو راتیں ٹوبے پر گزاریں گے اور تمھیں دکھائیں گے کہ کس طرح ایک ہی ٹوبے میں جانور اور انسان پانی پیتا ہے اور چولستان کی رات کے منظر بھی دکھاؤں گا۔ چولستان کے لوگ ٹوبے کے پانی کو اللہ والا پانی کہتے ہیں۔ حالانکہ الخدمت والوں نے چولستان میں کئی جگہ پر پانی کے ہیڈ پمپ لگائے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مقامی لوگ اللہ والے پانی کو اس پانی پر ترجیح دیتے ہیں۔ میں نے اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ چولستان جانے کا پروگرام بنایا۔ ہمارے جانے سے تین روز قبل ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب چلے گئے مگر جانے سے پہلے ہمارے سیر کے انتظامات مکمل کرکے گئے تھے۔ ہم شالیمار ٹرین کے ذریعے بہاولپور پہنچے تو اُن کے سیکرٹری سید کاشف اعجازنے ہمارا استقبال کیا اور سرکٹ ہاؤس میں ہمارے قیام کا بندوبست کیاجوکہ ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب کے دست راست ہیں۔ اگلے روز ہم نے بہاولپور کے نور محل اور شہر کے مختلف مقامات کی سیر کی۔ نور محل جو کبھی پر نور رونقوں سے آباد تھا، آج زمانہ قدیم کی داستان بیان کررہا تھا۔ دوسرے دن ہم چولستان کے لیے روانہ ہوئے۔ چولستان میں ہم امیر بھٹی صاحب کے مہمان تھے جوکہ وہاں کے کسان بورڈ کے صدر بھی ہیں اور بہاولپور کی ایک اہم سیاسی سماجی شخصیت کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کے قریبی دوست ہیں۔ امیر بھٹی صاحب نے ہمارا بہترین قیام و طعام کا بندوبست کیا اور جنگل میں ایک بہت بڑے گھر میں ٹھہرے جہاں پر ایک طرف بکریاں،اونٹ، ہرن، بھینسیں اور مختلف قسم کے جانور بندھے ہوئے تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بتایا کہ چولستان کی سرزمین جہاں صدیوں پہلے ہنستی بستی بستیاں آباد تھیں۔ دریائے گھاگرہ، دریائے بیکانیر اور دریائے ستلج سے سیراب ہونے والا خوبصورت میدانی علاقہ اب پانی کی عدم دستیابی، دھول، مٹی اور اڑتے ہوئے ریت کے طوفانوں کا گھر بن چکا ہے۔ چولستان جسے یہاں کے لوگ ”روہی“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ دور دور تک ویرانیوں کا مسکن نظر آتا ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی کچھ لوگ اس میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جنہیں ”روھیلے“ کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ سالہا سال بعد ”روہی“ میں برسنے والی بارش کے پانی کو چھوٹے چھوٹے تالابوں جنہیں ”ٹوبہ“ کہاجاتا ہے میں جمع کرکے اپنی گزربسر کرتے ہیں۔ یہ لوگ بھینسیں، اونٹ اور بھیڑیں پال کر فروخت کرتے ہیں اور اپنی ضروریات زندگی حاصل کرتے ہیں۔ چولستان کی تاریخ جنگ و جدل، تہذیب و ثقافت کا مسکن رہی ہے۔ صدیوں پہلے جب محمد بن قاسم نے سندھ پر حملہ کیا اور مسلمان اس علاقے میں آئے تو چولستان کے علاقے میں بھی اسلام کی روشنی پھیلی اور یہاں کے لوگ جو آج بھی اسلامی روایات کے امین ہیں اپنی اسلامی اقدار تہذیب تمدن کے سبب ہماری تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ چولستان کا ذکر اخبارات، رسائل اور ٹی وی میں پڑھا اور دیکھا تھا مگر قریب سے دیکھنے کا شوق ایک عرصہ سے تھا۔ چولستان میں داخل ہوتے ہی آندھیوں اور بگولوں نے ہمارا استقبال کیا۔ ہر طرف سراب نما پانی بکھرا ہوا تھا، یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہمارا قافلہ چند لمحے بعد کسی سمندر یا دریا میں غرق ہوجائے گا لیکن یہ صرف سراب نماخیال تھا۔ پانی نام کی کوئی شے پورے چولستان میں دکھائی نہ دیتی تھی۔ ہر طرف ویرانی، ریت کے ٹیلے اور کہیں کہیں اگی ہوئی خود رو جھاڑیاں جنہیں مقامی زبان میں ”کھاری“ کہاجاتا ہے۔ امیر بھٹی صاحب نے ہمیں بتایا کہ اس خودروبوٹی سے کاسٹک سوڈا اور کھاد تیار کی جاتی ہے۔ زمانہ قدیم اور آج بھی وہاں کے لوگ اس ”بوٹی“ سے کپڑے دھونے کا کام لیتے ہیں جوکہ ہرسوپھیلی ہوئیں تھیں۔ 80 کلومیٹر چولستان کے اندر ریت کے پوٹھوہار راستوں پر سفر کرتے ہوئے دور ایک دیوہیکل عمارت پر نظر پڑی تو عقل دنگ رہ گئی۔ بھٹی صاحب نے بتایا کہ چولستان میں واقع تاریخی عمارت قلعہ ”دراوڑ“ ہے جو امیران بہاولپور جولیہ کے تھلوں سے حملہ آور ہوکر آئے تھے انہوں نے یہاں کے ہندوحکمران راول کو شکست دے کر فتح کیا تھا اور پھر اسے ازسرنوتعمیر کرایا گیا۔ اس بے آب و گیاں صحرا میں اتنے بڑے قلعے کی تعمیر ایک مشکل مرحلہ نظر آتی ہے۔ چولستان کے صحرا میں ناقابل تسخیر قلعہ دراوڑ ہمارے ماضی کے حکمرانوں کی بہادری اور جرأت کی یاد دلارہا تھا۔ قلعے کے نشیب میں واقع شاہی مسجد جس کا نقشہ اور تعمیر ان ہی ماہر تعمیرات نے کی تھی جنہوں نے دہلی کی شاہی مسجد تعمیر کی تھی۔ یہ مسجد شاہی جاہ و جلال اور اسلام سے امیران بہاولپور کی گہری وابستگی کی یاد دلارہی تھی۔ سب سے پہلے ہم قلعہ کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے تو دیکھا کہ 35 من وزنی عدل ”ٹل“ جو قلعہ کے صدر دروازہ پر نصب ہے اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ اس علاقے کے باسی کسی مصیبت کا شکار ہوتے تو اپنے حاکم وقت سے انصاف طلب کرنے کیلئے اس زنجیر کو ہلاتے تھے اور پھر انہیں انصاف مل جاتا تھا۔ قلعہ دراوڑ جو پاکستان میں واقع تاریخی مجسمات میں نایاب فن تعمیر کا مکمل نمونہ ہے جس کے اندر تمام ترسہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ باغات، گل سرا، بارہ دریاں، فوجی بیرکیں، اسلحہ خانے، قید خانے، زمین دوز راستے اور شاہی دفاتر جن میں ٹرالیاں چلتی تھیں فوج کے قیام و طعام، حکمرانوں کی رہائش اور حملہ آوروں سے بچاؤ کیلئے تمام تر انتظامات کیے گئے تھے۔ ماضی کے جھروکوں سے اپنی کہانی بیان کررہے تھے۔ آج بھی قلعہ میں موجود نصب توپیں اور سامان جنگ اور قلعہ کی جنوبی دیوار کے سایہ میں سنگ سفید سے مزین شہید ہونے والے امراء کی قبریں اس بات کی گواہی دے رہی تھیں کہ علاقے میں امن و امان قائم رکھنے اور مخالفین سے نبردآزما رہتے ہیں اس علاقے کی مکمل حفاظت کی گئی۔ قلعہ دراوڑ جہاں آج چمگادڑیں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں ہماری تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے قومی یادگار کے طور پر محفوظ کرلیا جائے۔ قلعہ کے نشیب میں واقع گلیاں اور بازار اور وزراء اور مشیران کے بنگلے ویران اوربنجر صحرا میں یوں لگ رہے تھے کہ ابھی کوئی اٹھ کر گیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا تھا کہ ابھی دکاندار دکانیں بند کرکے گئے ہیں۔ قلعہ بستی اور ویران بازاروں کو دیکھتے ہوئے ہم شاہی مسجد دیکھنے گئے جو سنگ سرخ اور سنگ سفید کا نادر نمونہ ہے۔ آج بھی اسلامی روایات اور تاریخ اسلام کا ایک باب بن چکی ہے۔ مسجد سے قریب ہی امیران بہاولپور کا آبائی قبرستان واقع ہے جو فن پچکاری لکڑی اور شیشے کے کام اور سنگ سفید پیلا اور سرخ پتھروں سے مزین ہے جس میں بیگمات بہاولپور کے الگ الگ شاہکار مزارات تعمیر کیے گئے ہیں جبکہ امیران بہاولپور کے لیے مشترکہ مستطیل نمامحل ہے جس میں امیر اول سے لے کر آج تک وفات پانے والے امراء کے مزارات ہیں اس مشترکہ آخری آرام گاہ میں فرانس سے منگوائے گئے اعلیٰ فانوس ہر امیر کی قبر پر روشنی کے بغیر نصب ہیں اور سرہانے کی طرف چراغ جلانے کے سنگ سفید سے تاج نما گنبد تعمیر کیے گئے ہیں۔ امیران بہاولپورکے مشترکہ مقابر کو فن پچکاری اور شیشہ کے نادر ڈیزائنوں سے مزین کیا گیا ہے۔ مزارات کے نگران نے بتایا کہ ہم بادشاہوں کے پشت در پشت ملازم چلے آرہے ہیں۔ نگران نے یہ بھی بتایا کہ ان مزارات پر ہر وقت قرآن خوانی ہوتی رہتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ امیران بہاولپور میں سے کوئی بھی شخص انتقال کرجائے تو اسے یہیں دفن کیاجاتاہے جن کیلئے جگہیں مخصوص ہیں۔ چولستان میں ایک اور چھوٹا سا قلعہ موج گڑھ دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا جو کہ ویرانی اور کھنڈر عمارت کا منظر پیش کررہا تھا۔ یوں ہمارا قافلہ چولستان کی اڑتی ہوئی ریت کے صحرا سے نکل کر واپس اوچ شریف کی طرف روانہ ہوا۔ وہاں پر اوچ شریف کے ہزاروں سال پرانے تاریخی مزارات دیکھے اور اس کے بعد ہم ہیڈ پنجند چلے گئے جہاں پر ڈاکٹر سید وسیم اختر(مرحوم) اور سید کاشف اعجاز صاحب کے دوستوں نے مچھلی کا انتظام کیا ہوا۔ اُنہوں نے ہمیں ہیڈ پنجند کی سیر کروائی اور رات ہم دوبارہ بہاولپور آگئے۔ ایک دن آرام کرنے کے بعد ہم صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب چلے گئے جہاں پر ہماری ملاقات نواب صلاح الدین عباسی اور اُن کے جانشین نواب بہاول عباسی سے ہوئی جو کہ ڈاکٹر وسید اختر (مرحوم) کے بہت اچھے دوست ہیں۔ اُنہوں نے ہمارے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ یہ دلچسپ اور یادگار سفر ڈاکٹر سید وسیم اختر (مرحوم) اور کاشف اعجاز صاحب کی وساطت سے ہوا۔ کاشف اعجاز صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی غیر موجودگی کا احساس تک نہ ہونے دیا اور پانچ روز ہمارے ساتھ ہی گزارے کیونکہ ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کے برخودار ڈاکٹر عبدالرحمن اُن دنوں ہالینڈ گئے تھے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اس سفر میں ڈاکٹر وسیم اختر صاحب موجود نہ تھے اور اس سفر کے کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر سید وسیم اختر صاحب جیسا ہیرا اس فانی دنیا سے لافانی دنیا کی طرف روانہ ہوگیا۔ کاشف بھائی اور ڈاکٹر وسیم اختر صاحب کے اہل خانہ نے کئی بار بہاولپور آنے کی دعوت دی لیکن ڈاکٹر صاحب کے بغیر بہاولپور جانے کا دل نہیں کرتا۔